مقالات و آراء

  • صراط مستقیم کیا ہے ؟

  • ہمیں دیکھنا ہوگا کہ وہ صراط مستقیم جس پر چل کر انسان قرب الٰہی حاصل کر سکتا ہے ، لقائے پروردگار تک پہنچ سکتا ہے ، کیا ہے ؟
    قرآن کریم بیان فرما رہا ہے کہ تمام انبیاء و مرسلین اور سب سے اوّل درجے پر حضرت خاتم الانبیاء و المرسلین (ص) ، ایسے افراد ہیں کہ جنہیں رب العالمین نے صراط مستقیم کی ہدایت فرمائی ہے ۔ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَوَھبۡنَا لَہ إِسۡحَاقَ وَیعۡقُوبَ كُلًّا ھدَیۡنَا وَنُوحًا ھدَیۡنَا مِن قَبۡلُ وَمِن ذُرِّیتِہ دَاوُدَ وَسُلَیۡمَانَ وَایوبَ وَیوسُفَ وَمُوسَیٰ وَھارُونَ وَكَذَلِكَ نَجۡزِی ٱلۡمُحۡسِنِینَ ٨٤ وَزَكَرِیا وَیحۡییٰ وَعِیسَیٰ وَإِلۡیاسَ كُلٌّ مِّنَ ٱلصَّالِحِینَ ٨٥ وَإِسۡمَاعِیلَ وَٱلۡیسَعَ وَیونُسَ وَلُوطاً وَكُلًّا فَضَّلۡنَا عَلَی ٱلۡعَالَمِینَ ٨٦ وَمِنۡ آبَآئِھمۡ وَذُرِّیاتِھمۡ وَإِخۡوَانِھمۡ وَاجۡتَبَیۡنَاھمۡ وَھدَیۡنَاھمۡ الَیٰ صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیمٍ ٨٧ (اور ہم نے ابراہیم (ع)کو اسحاق(ع) اوریعقوب (ع)دئیے اور سب کو ہدایت بھی دی اور اس کے پہلے نوح (ع)کو ہدایت دی اور پھر ابراہیم (ع)کی اولاد میں داؤد (ع) ,سلیمان (ع)،ایوب (ع)، یوسف (ع),موسٰی )(ع),اور ہارون (ع)قرار دئیے اور ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں (84) اور زکریا (ع),یحیٰی (ع),عیسٰی (ع)اور الیاس (ع)کو بھی رکھا جو سب کے سب نیک کرداروں میں تھے (85) اور اسماعیل (ع), الیسع (ع),یونس (ع)اور لوط (ع)بھی بنائے اور سب کو عالمین سے افضل و بہتر بنایا (86) اور پھر ان کے باپ دادا ,اولاد اور برادری میں سے اور خود انہیں بھی منتخب کیا اور سب کو سیدھے راستہ کی ہدایت کردی (87) یہی خدا کی ہدایت ہے جسے جس بندے کو چاہتا ہے عطا کردیتاہے اور اگر یہ لوگ شرک اختیار کرلیتے تو ان کے بھی سارے اعمال برباد ہوجاتے (88))(الانعام 84-88)
    اس کے بعد پروردگار نے پیغمبروں کی پیروی اور انہیں نمونہ عمل بنانے کا حکم دیا ہے اور فرمایا :
    اوْلٰٓئِكَ ٱلَّذِینَ ھدَی ٱللَّہ فَبِھدَاھمُ اقۡتَدِہۡ (یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے لہذا آپ بھی اسی ہدایت کے راستہ پر چلیں)( انعام / ٩٠ )
    دوسری طرف قرآن کریم خاص طور پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کرنے کی تاکید کرتا ہے اور آپﷺ کو نمونہ عمل قرار دینے کا حکم فرمایا ہے ۔
    قُلۡ ان كُنتُمۡ تُحِبُّونَ ٱللَّہ فاتَّبِعُونِی یحۡبِبۡكُمُ ٱللَّہ وَیغۡفِرۡ لَكُمۡ ذُنُوبَكُمۡ وَٱللَّہ غَفُورٌ رَّحِیمٌ (اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبّت کرتے ہو تو میری پیروی کرو- خدا بھی تم سے محبّت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے) ( آل عمران / ٣١ )
    ایک دوسری جگہ فرماتا ہے
    لَّقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِی رَسُولِ ٱللَّہ اسۡوَۃ حَسَنَۃ لِّمَن كَانَ یرۡجُواْ ٱللَّہ والۡیوۡمَ ٱلۡآخِرَ وَذَكَرَ ٱللَّہ كَثِیرًا
    (مسلمانو! تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے) ( احزاب / ٢١ )
    اس بنا پر وہ راہ راست اور صراط مستقیم جو انسان کو خداوند متعال تک پہنچاتا ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی اور اطاعت ہے ۔ یہ پیروی اور اطاعت اُس وقت تک میسر نہیں ہوسکتی جب تک ہم آپ(ص)کی تمام فرمائشات جو ہم تک پہنچی ہیں اُن کو قبول نہ کریں اور اطاعت نہ کریں ۔
    پروردگار عالم فرماتا ہے:
    وَمَآ آتَیٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوہ وَمَا نَہیٰكُمۡ عَنۡہ فانتَھواْ
    ( اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کردے اس سے رک جاؤ) ( حشر / ٧ )
    اسی بنیاد پر ابو حمزہ ثمالی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ﷺنے حجۃ الوداع کے خطبہ میں فرمایا تھا : (اے لوگو ! خدا کی قسم ، کوئی چیز جو تمہیں جنت سے قریب کرے اور تمہیں جہنم سے دور کرے وجود نہیں رکھتی ، مگر وہ جس کا میں نے تم لوگوں کو حکم دیا ہے ۔ کوئی چیز جو تمہیں آگ سے قریب کرے اور جنت سے دورکرے نہیں ہے ، مگر وہ جس سے میں نے تمہیں منع کیا ہے)1 ۔
    اور قرآن کریم نے فرمایا کہ پیغمبر اپنے ہوائے نفس کے تحت بات نہیں کرتے :
    وَمَا ینطِقُ عَنِ ٱلۡھوَیٰٓ (٣) إِنۡ ھوَ إِلَّا وَحۡی یوحَیٰ (٤) (اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے (3) اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے (4) ( نجم / ٣ ۔ ٤ )
    لہذا رب العالمین کی مرضی حاصل کرنے کیلئے اور خوشنودی خدا کے حصول کیلئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی اور اطاعت کی جائے ۔ دوسری طرف پیغمبر اکرم ﷺ سیدھی راہ تک پہنچنے اور گمراہی سے نجات پانے کے لیے اپنی اطاعت کا طریقہ کار خود متعین کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، اگر اِن سے تمسک رکھو گے تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ۔ اللہ کی کتاب جو زمین و آسمان کے درمیان ایک رسی ہے اور میری عترت اور اہل بیت ۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے ، یہانتک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے ۔ پس دیکھنا کہ میرے بعد ان دو کے ساتھ کیا سلوک رکھتے ہو)2 ۔
    بعض معاصر علماء نے کہا ہے کہ اس حدیث کے شیعہ و سنی راویوں اور علماء کے طبقات کو دیکھتے ہوئے یہ حدیث متواتر کے نزدیک بلکہ متواتر ہے ۔ الفاظ میں کمی بیشی کی وجہ یہ ہے کہ یہ حدیث متعدد مرتبہ زبان مبارک پیغمبر اکرم ﷺ سے صادرہوئی ہے اور یہ ایک فطری امر ہے ۔ بعض نے حدیث کے الفاظ کے بجائے صرف اس کےمضمون و مفہوم کو نقل کیا ہے ۔ لیکن اصل حدیث اور اس کا صدور یقینا حد متواتر تک پہنچا ہوا ہے ۔
    اس حدیث سے استناد کرنے کے لیے اور اس پر محققین کے اعتماد و اطمینان کیلئے یہی کافی ہے کہ درج ذیل کتابوں میں یہ حدیث نقل ہوئی ہے ۔
    صحیح مسلم ، سنن دارمی ، خصائص نسائی ، سنن ابی داود ، سنن ابن ماجہ ، مسند احمد ، مستدرک حاکم ، ذخائر طبری ، حلیۃ الاولیاء ، کنز العمال وغیرہ ۔ علاوہ از ایں عظیم مفسرین جیسے رازی ، ثعلبی ، نیشابوری ، خازن ، ابن کثیر وغیرہ ۔ ۔ ۔نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔ بہت سی تاریخ ، لغت ، سیرت اور تراجم کی کتب میں بھی یہ حدیث نقل ہوئی ہے ۔ ہمارا نہیں خیال کہ میں شہرت اور اعتبار کے لحاظ سے کوئی دوسری حدیث اس کے مرتبے تک پہنچتی ہو3۔
    اس حدیث میں پیغمبر اکرم ﷺ نے بیان فرمایا ہے کہ قرآن اور ائمہ اطہار (علیہم السلام) سے تمسک ہی گمراہی سے نجات کا واحد راستہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض منقول ادعیہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ "اللھم عرفنی نفسک فانک ان لم تُعرفنی نفسک لم اعرف رسولک اللھم عرفنی رسولک فانک ان لم تُعرفنی رسولک ، لم اعرف حجتک ، اللھم عرفنی حجتک فانک ان لم تُعرفنی حجتک ضللتُ عن دینی ” (خدایا ! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما ، کیونکہ اگر تو نے مجھے اپنی ذات کی معرفت نہ کرائی تو میں تیرے پیغمبر کو نہیں پہچان سکوں گا ۔ خدایا مجھے! اپنے پیغمبر کی معرفت کرا کیونکہ اگر تو نے مجھےاپنے پیغمبر کی معرفت نہ کرائی تو میں تیری حجت کو نہ پہچان سکوں گا ۔ خدایا ! مجھے اپنی حجت معرفت کرا کیونکہ اگر تو نے مجھے اپنی حجت کی معرفت نہ کرائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاؤں گا ۔) 4
    جو کچھ بیان ہوا ہے اس کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جو چیز انسان کو گمراہی سے نجات دے سکتی ہے اور اسے دنیا و آخرت کے صراط مستقیم کی طرف ہدایت کر سکتی ہے خدا ، رسولخدا اور حجت خدا کی معرفت ہے ۔
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    1) الاصول من الکافی ، کتاب ایمان و کفر ، ج ٢ ، ص ٧٤ ، باب طاعت و تقویٰ
    2)سنن ترمذی ، ج ٥ ، ص ٦٦٤ ، ح ٣٧٥٦ ،(” نفحات الازہار فی خلاصہ عبقات الانوار "، ج ١ ، ص ١٨٥ ، میں آیا ہے کہ تیس سے زیادہ صحابہ اور اہل سنت کے تقریباًتین سو بزرگ علماء نے مختلف صدیوں میں اس حدیث کو مختلف الفاظ کے ساتھ اپنے اپنے طرق سے پیغمبر اکرم ﷺ سے نقل کیا ہے۔ ان کے درمیان کتب صحاح و مسانید کے علماءء اور علماءئے حدیث ، تفسیر و تاریخ شامل ہیں لہذا یہ حدیث مسلمانوں کے درمیان متواتر ہے ۔)
    3) اصول و مبانی فقہ مقارن ، ص ١٦٤
    4)شیخ عباس قمی ، مفاتیح الجنان ، زمان غیبت کی دعا

    • تاریخ : 2017/08/09
    • صارفین کی تعداد : 2516

  • خصوصی ویڈیوز