مقالات و آراء

  • تقویٰ کے مراتب اور درجات

  • جن حقائق کی طرف قرآن مجید نے اشارہ کیا ہے ان میں سےایک یہ ہے کہ تقویٰ کے مختلف مراتب اور درجات ہیں ۔ پروردگار عالم فرما تا ہے : اتَّقُوا اللَّـہ حَقَّ تُقَاتِہ (الٰہی تقویٰ اختیار کرو ، حقیقی تقویٰ)۔ ( آل عمران / ١٠٢ )
    اس آیت شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ تقویٰ کا ایک مرتبہ حقیقی تقویٰ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اور بھی مرتبے اور درجے ہیں کہ جو اس سے نیچے ہیں ۔ تفسیر المیزان میں آیا ہے کہ : "اگر حقیقی تقویٰ متحقق ہو جائے تو عبودیت محض وجود میں آ جاتی ہے کہ جس میں غفلت اور ہوا پرستی کا شائبہ تک اپنی جگہ نہیں بنا سکتا۔ لہذا بغیر معصیت و گناہ کے اطاعت ، کفر کے بغیر شکر ، فراموشی اورنسیان کے بغیر تذکر و تنبہ ، وجود میں آ جاتے ہیں ۔ یہ مفہوم اس آیت شریفہ ” فاتقوا اللہ ما استطعتم ”( جس قدر ہو سکے تقویٰ الہی اختیار کرو) ( تغابن / ١٦ ) میں جس تقویٰ کی طرف اشارہ کیا گیا ہےسے مختلف ہے ۔ کیونکہ اس آخری آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اپنی طاقت کے مطابق تقویٰ اختیار کرو اور اس سے کم پر اکتفا نہ کرو۔
    اور چونکہ افراد کی ہمت اور سمجھ بوجھ مختلف ہوتی ہے ، اور افراد کی صلاحیتوں میں فرق ہوتا ہے ، اس لیے واضح ہے کہ حقیقی تقویٰ جیسے ہم نے پہلے بیان کیا ہے ، بہت سے افراد کے لیے ممکن نہیں ہےاور اس معنوی و روحانی اور باطنی راستے پر بہت سے پیچ و خم اور خطرناک کھائیاں موجود ہیں ، جنہیں سوائے آگاہ اور عالم افراد کے کوئی سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ اس میں ایسے ظریف و لطیف نکات ہیں کہ سوائے مخلص افراد کے کسی میں انہیں سمجھنے کی سکت نہیں ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ تقویٰ کے بعض ایسے مراحل بھی ہوں کہ جن کے ادراک کو عام افراد انسانی وسعت اور توانائی سے خارج قرار دیتے ہوں اور قطعی طور پر انہیں ناممکن سمجھتے ہوں۔ جبکہ حقیقی تقویٰ اختیار کرنے والے ہوسکتا ہے کہ بہت مدت پہلے اس مرحلے سے گذر چکے ہوں ۔ اور اس کے بعد والے مراحل کو طے کرنے کی فکر میں ہوں ، جوکہ اس مرحلے سے کہیں زیادہ مشکل ہیں۔
    ان دو آیات ” اتقوا اللہ حق تقاتہ ” ” فاتقوا اللہ ما استطعتم ” کا اصل مقصد یہ ہے کہ سب لوگوں کو تقویٰ اختیار کرنے کی دعوت دیں ۔ اس کے بعد انہیں ان کی استطاعت کے مطابق تقویٰ کے راستے پر گامزن ہونے کا حکم دیں ۔ اس کے نتیجہ میں سب لوگ تقوی الٰہی کے راستے پر ا جائیں گے ۔ فرق صرف اتنا ہوگا کہ مختلف لوگ تقویٰ کے مختلف مراحل و مرتبے میں ہونگے اور انسانوں کی ہمت ، قوت ادراک ، توفیق اور تائید الٰہی کے اختلاف کے پیش نظر تقویٰ کے مختلف مراحل و مراتب تک پہنچنا بھی مختلف ہوگا ۔ ان مذکورہ دو آیات میں سے پہلی آیت مقصد کو بتا رہی ہے اور دوسری آیت مقصد تک پہنچنے کا راستہ اور طریقہ بیان کر رہی ہے ۔
    جتنی گفتگو گذر چکی ہے اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تقویٰ کوئی معین اور خاص دینی مقام و مرتبہ نہیں ہے بلکہ یہ روح کی ایک حالت ہے جو تمام معنوی مراتب اور مقامات کو شامل ہے ۔ اس معنی میں کہ ہر معنوی مقام کے لیے تقویٰ کے مراحل و درجات میں سے اس کے متناسب درجہ موجود ہے ۔
    قرآن کریم نے بندوں کے مراتب اور درجات مختلف ہونے کے پیش نظر ان میں سے ہر گروہ کے لیے علم ، معرفت اور عمل کا مختلف مرتبہ قرار دیا ہے کہ جو دوسرے گروہ میں نہیں ہے، جیسے اس نے ” موقنین ” (وہ جو یقین تک پہنچ گئے ہیں) ، کا تذکرہ کیا ہے اور آسمانوں اور زمین کے ملکوت کے مشاہدے کو ان کے لیے مختص کیا ہے ۔
    ارشاد ہوتا ہے :
    "وَكَذَٰلِكَ نُرِی ابْرَاھیمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْارْضِ وَلِیكُونَ مِنَ الْمُوقِنِینَ ” (اور اسی طرح ہم اسمانوں اور زمین کے ملکوت [ تمام ہستی پر خدا تعالیٰ کی ملکیت ] کا ابراہیم کو مشاہدہ کراتے ہیں تاکہ وہ مقام یقین تک پہنچ جائے) ( انعام / ٧٥ )
    ایک دوسرے مقام پر ” منیبین ” [توبہ کرنے والے ] کا ذکر آتا ہے ۔ وہاں تذکّر ، نصیحت کا حامل ہونا اورتنبّہ کو ان کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے۔
    رب العزت کا ارشاد ہے : "وَمَا یتَذَكَّرُ الَّا مَن ینِیبُ”(توبہ کرنے والوں کے سوا کوئی نصیحت حاصل نہیں کرتا) ( غافر / ١٣ )
    ایک اور جگہ ” علما ” کا تذکرہ کرتا ہے اور ان کے لیے قرآن کریم کی مثالوں میں غور و فکر کرنے کی خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :” وَتِلْكَ الْامْثَالُ نَضْرِبُھا لِلنَّاسِ ۖ وَمَا یعْقِلُھا الَّا الْعَالِمُونَ”(ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لیے ذکر کرتے ہیں لیکن سوائے علما کے کوئی ان میں غور و فکر اور تعقل نہیں کرتا ) ( عنکبوت / ٤٣ )
    گویا یہی لوگ حقیقی اولو الالباب اور دانشور ہیں کیونکہ خداوند متعال فرماتا ہے :
    "افَلَا یتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ امْ عَلَیٰ قُلُوبٍ اقْفَالُھا”(کیا تم قران میں غور و فکر نہیں کرتے ہو ؟ یا یہ کہ دلوں پر تالے لگا دیے گئے ہیں؟)(محمد / ٢٤)
    ایک اور مقام پر قرآن مجید ” مطہرین ” یعنی پاک طینت افراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کی خصوصیت یہ بیان فرماتا ہے کہ وہ قرآن مجید کی تاویل اور باطنی مفاہیم سے آگاہی رکھتے ہیں ۔
    "انَّہ لَقُرْآنٌ كَرِیمٌ ﴿٧٧﴾ فِی كِتَابٍ مَّكْنُونٍ ﴿٧٨﴾ لَّا یمَسُّہ الَّا الْمُطَھرُونَ ﴿٧٩﴾”)بے شک یہ قرآن کریم ہے ، ایک پوشیدہ اور مستور کتاب میں کہ جس کے باطن سے سوائے پاک طینت افراد کے کوئی آگاہی حاصل نہیں کرسکتا ) ( واقعہ / ٧٧ ۔ ٧٩)
    ایک اور آیت میں اولیائے خدا جو خدا تعالیٰ کے عاشق اور شیدائی ہوتے ہیں ، ان کا نام لے کر ان کی یہ خصوصیت بیان فرماتا ہے کہ وہ سوائے خداوند متعال کے کسی اور طرف توجہ نہیں کرتے کہ جس کے نتیجہ میں وہ نہ کسی چیز سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی کسی چیز کی وجہ سے غم و اندوہ کا شکار ہوتے ہیں ” الَا انَّ اوْلِیاءَ اللَّـہ لَا خَوْفٌ عَلَیھمْ وَلَا ھمْ یحْزَنُونَ”( آگاہ ہوجاؤ کہ اولیائ خدا پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وہ محزون اور رنجیدہ ہوتے ہیں)(یونس ۶۲)۔ اسی طرح ” مقربین ” [ پروردگار کی بارگاہ میں قرب پانے والے] ، ” مخبتین ” [ خاشعین ] ” صدیقین ” [ سچے ] ، ” صالحین ” [ نیک کام کرنے والے] اور مومنین ، میں سے ہر ایک کے لیے قران کریم نے الگ الگ خصوصیات اور مرتبے ذکر کیے ہیں۔
    امام المتقین حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) ایک خطبہ میں اس نکتہ کو بیان کرنے کے بعد” کہ ہر امت کے لیے امام اور پیشوا ہے کہ جس کی وہ پیروی کرتے ہیں اور اس کے نور علم سے روشنی حاصل کرتے ہیں ۔ تم جان لو کہ تمہارے امام و پیشوا نے اپنی دنیا کی خوراک سے صرف دو لقمے نان پر اکتفا کیا ہے” ۔
    فرماتے ہیں : آگاہ رہو کہ تم ایسا کام انجام نہیں دے پاؤ گے لیکن اپنی پرہیزگاری ، کوشش ، پاکدامنی اور عمل صالح کے ساتھ میری مدد کرو ۔(۱)
    بعض اہل معرفت کہتے ہیں تقویٰ کے دس مرتبے ہیں :
    پہلا : خدا تعالیٰ کےمحرمات سے دور رہنا اورشرعی فرائض جو خداوند متعال نے واجب قرار دیئے ہیں انہیں انجام دینا ۔
    دوسرا : پیان شدہ امور کی انجام دہی کے علاوہ امور مباح سے بھی پرہیز کرنا، مگر ضرورت کے مطابق۔ یہ وہی مفہوم ہےجسے سید العرفا حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے : اگر میں چاہتا تو صاف ستھرے شہد ، عمدہ گیہوں اور ریشم کے بنے ہوئے کپڑوں کے لیے ذرائع مہیا کر سکتا تھا ۔ لیکن ایسا کہاں ہو سکتا ہے کہ خواہشیں مجھے مغلوب بنا لیں ، اور حرص مجھے اچھے اچھے کھانوں کے چن لینے کی دعوت دے جبکہ حجاز و یمامہ میں شاید ایسے لوگ ہوں کہ جنہیں ایک روٹی کے ملنے کی بھی آس نہ ہو ، اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا کبھی نصیب نہ ہوا ہو ۔ کیا میں شکم سیر ہو کر پڑا رہا کروں؟ درحالنکہ میرے گرد و پیش بھوکے پیٹ اور پیاسے جگر تڑپتے ہوں یا میں ویسا ہو جاؤں جیسا کہنے والے نے کہا ہے کہ تمہاری بیماری یہ کیا کم ہے کہ تم پیٹ بھر کر لمبی تان لو اور تمہارے گرد کچھ ایسے جگر ہوں جو سوکھے چمڑے کو ترس رہے ہوں ، کیا میں اسی میں مگن رہوں کہ مجھے امیر المومنین کہا جاتا ہے مگر میں زمانہ کی سختیوں میں مومنوں کا شریک و ہمدم اور زندگی کی بد مزگیوں میں ان کے لیے نمونہ نہ بنوں۔ میں اس لیے تو پیدا نہیں ہوا کہ اچھے اچھے کھانوں کی فکر میں لگا رہوں ۔ اس بندھے ہوئے چوپایہ کی طرح جسے صرف اپنے چارے ہی کی فکر لگی رہتی ہے ۔(۲)
    تیسرا : اخلاص کےذریعے ریاکاری سے دوری اختیار کرنا ۔
    چوتھا : وحدت کےادراک کے بعد کثرت سے اجتناب کرنا ۔
    پانچواں : اپنی اندرونی قوتوں کو اکٹھا کر کے[ اپنے مقصود تک پہنچنے کی خاطر] تفرقہ ( افکار کے پریشان ہونے) سے اجتناب کرنا ۔
    چھٹا : یقین تک پہنچ کر شک سے اجتناب کرنا۔
    ساتواں : توحید کو پانے کے بعد شرک سے پرہیز کرنا ۔
    آٹھواں : قران کے باطن اور حقیقت تک پہنچ جانے کے بعد اس کے ظواہر کو دیکھنے سے اجتناب کرنا ۔
    نواں : رب کے مشاہدے تک پہنچ جانے کے بعد اپنے نفس کے مشاہدے سے اجتناب کرنا ۔
    دسواں : وجود مطلق کے مشاہدے تک پہنچ جانے کے بعد موجودات مقید کے مشاہدے سے اجتناب کرنا یعنی جمال حق کو دیکھتے ہوئے مشاہدہ خلق سے پرہیز کرنا ۔(۳)
    ان دس مراتب میں سے ہر ایک کا سیر و سلوک کے دس مقامات میں سے ایک کے ساتھ گہرا تعلق ہے جوکہ درج ذیل ہیں:
    بدایات ، ابواب ، معاملات ، اخلاق ، اصول ، اودیہ ، احوال ، ولایات ، حقائق اور نہایات
    ان دس مقامات کی تفصیلات جاننے کے لیے گہری تحقیقات اور مطالعات کی ضرورت ہے پروردگار عالم کی عنایات کے ساتھ آئندہ کسی فرصت میں انہیں بیان کیا جائے گا ۔
    (۱) نہج البلاغہ ، مکتوب ٤٥
    (۲) نہج البلاغہ ، مکتوب ۴۵
    (۳) سید حیدر املی ، تفسیر محیط اعظم ، مقدمہ و توضیح سید محسن موسوی تبریزی ، ج ١ ، ص ٢٨٣

    • تاریخ : 2017/08/28
    • صارفین کی تعداد : 2606

  • خصوصی ویڈیوز