دوسرا حصہ !
آیت اللہ حیدری نے ایشین سیٹلائٹ چینل کے ساتھ ہونے والی اس گفتگو میں قیام امام حسین(ع) کی عمیق تحلیل پیش کرتے ہوئے حسینی شعائر کے بارے میں بحث کی ہے ۔ اس بحث کے اہم مطالب درج ذیل ہیں :
ان مقدمات کے بعد جنہیں ہم نے بیان کیا ہے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ قیام امام حسین(ع)، نہ صرف یہ کہ شیعوں کے لیے نمونہ ہے بلکہ تمام امت اسلامیہ بلکہ تمام حکومتوں خواہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی؛ کے لیے نمونہ ہے، چونکہ امام حسین(ع) کا اصلاحی پروگرام تمام حکومتوں اور تمام مصلحین کے مدنظر ہے ؛ یعنی ایک ایسا پروگرام ہے جس پر تمام کا اتفاق ہے ۔ ہم نے کہا ہے کہ انقلاب، تلوار اور تشدد کے ذریعے خروج کو کہا جاتا ہے ، جبکہ امام (ع) نے فرمایا : جس نے حق کو قبول کرتے ہوئے مجھے قبول کیا تو خدا حق کا زیادہ سزاوار (اور مالک و مختار) ہے !(یعنی یہ حق اصلاح، خدا نے ہمیں دیا ہے) اور جس نے یہ رد کر دیا تو میں صبر کروں گا تاکہ خدا میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے۔
مذکورہ بالا عبارت میں امام(ع) نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر مجھے رد کرو گے تو میں تلوار نکال کر تمہارے ساتھ جنگ کروں گا (سیاسیات کی اصطلاح والا انقلاب)، بلکہ فرمایا میں صبر کروں گا اور خدا کو حَکَم قرار دوں گا ؛ یعنی امام(ع) ایسی اصلاح پر یقین نہیں رکھتے تھے جو اسلحے کی بنیاد پر اور زبردستی کی جائے۔
اسی طرح امام خمینی(رہ) نے حکومت کی تبدیلی کے لیے اسلحے سے استفادہ نہیں کیا بلکہ لوگوں نے اسلام کے ساتھ محبت و عقیدے اور ان اہداف کی خاطر جو امام خمینی(رہ) نے مشخص کیے ، نظام حاکمیت کی تبدیلی کے لیے قیام کیا.
میزبان
آپ نے فرمایا کہ امام حسین(ع) کا قیام تلوار کے ذریعے خروج کے معنی میں انقلاب نہیں تھا تو پس کیوں بہت سارے مسلحانہ سیاسی اقدامات، جہاد کے نام پر یا قیام امام حسین(ع) پر اعتماد کرتے ہوئے انجام دیئے جاتے ہیں ؟
علامہ حیدری
جہاد صرف اس مقام پر بامعنی ہے جہاں ایک اسلامی حکومت وطن کی سرحدوں اور اپنے لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے اپنا دفاع کرے اور ہمارے نزدیک بنیادی طور پر اسلام میں ابتدائی جہاد نہیں ہے ! البتہ اس موضوع کو اپنے خاص مقام پر مورد بحث قرار دیا جانا چاہیے ۔
میزبان
آیا حسینی شعائر جنہیں آج منعقد کیا جاتا ہے ، امام حسین(ع) کی اصلاحی تحریک کے مطابق ہیں ؟
علامہ حیدری
اس سوال کے جواب کے لیے یہ مشخص کرنا ضروری ہے کہ حسینی شعائر کا ہدف کیا ہے ؟
کیوں ہمیں امام(ع) کی تحریک کے احیاء کے لیے شعائر کی ضرورت ہے ؟
کیا یہ شعائر بذات خود ہدف ہیں ؟
آیا قرآنی اصول، شعائر کے احیاء کو ہدف اور مقصد قرار دیتے ہیں ؟یا یہ کہ قرآن کا ہدف ان شعائر کے ذریعے ایک زیادہ اہم مسئلے کا احیاء ہے ؟
آیا یہ شعائر اس تحریک ، پروگرام اور بنیادی ہدف کی کہ جسے امام حسین(ع) احیاء کرنا چاہتے تھے ، مدد کرتے ہیں یا ان اہداف کی راہ میں رکاوٹ ہیں ؟
جب ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم، اللہ کی ایک اہم نعمت اور حقیقت کے احیا اور اس کی یاد منانے پر زور دیتا ہے یعنی اس کی اہمیت کے پیش نظر یہ شائستہ نہیں ہے کہ اسے بھلا دیا جائے۔
خدا سورہ ابراہیم کی آیت نمبر ۵ میں ارشاد فرما رہا ہے : «وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسی بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلی النُّورِ وَذَكِّرْهُمْ بِايَّامِ اللَّہ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ»( اور بیشک ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ (اے موسٰی!) تم اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جاؤ اور انہیں ﷲ کے دنوں کی یاد دلاؤ ۔ بیشک اس میں ہر صبر وشکر کرنے والے کے لیے نشانیاں ہیں۔
یعنی ایک بہت اہم واقعہ رونما ہوا لہذا اس واقعے کی یاد منانا ضروری ہے۔ البتہ اس یاد منانے کی کیفیت کیا ہو؟ تو یہ ان شعائر کے ذریعے ہو جنہیں خداوند متعال نے معین کیا ہے :
«ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّہ فَإِنَّھا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوبِ»( (حج) یہ ہے اور جو شعائر اللہ (حج کی علامتوں اور ہر دینی علامت) کی تعظیم کرے گا تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے)؛ سوره الحج 32
اب دیکھنا یہ چاہیے کہ یہ شعائر کیا ہیں ؟ چونکہ ان کا ہدف اس اہم اور مؤثر واقعے کی یاد تازہ کرنا ہے !ً ہر وہ وسیلہ جو باعث بنتا ہے کہ یہ واقعہ باقی رہے اور الٰہی اہداف اور نعمتوں کی یاد دہانی کرائی جا سکے تاکہ لوگ متاثر ہوں،اسے "شعائر” کہتے ہیں ۔ البتہ توجہ رکھنی چاہیے کہ اگرچہ الٰہی شعائر کا بنیادی احیاء اور تعظیم قابل قبول اور ضروری ہے لیکن یہ کہ اس کے مصادیق کیا ہیں؛ اس پر بحث اور تحقیق ضروری ہے مبادا ہر کس و ناکس شعائر کی تعظیم کے بہانے، کسی نہ کسی بدعت اور خرافات کو شعائر کے نام پر نہ چھوڑ جائے!