اب عزیزو ہمارے ساتھ حدیث کے جملوں کو ملاحظہ کیجئے؛ حدیث کے جملے چار ہیں:
پہلا جملہ: "جب آپ (ع) وارد ہوتی تھیں؛
اوّلا: ناقل نبی (ص) کی زوجہ عائشہ ہیں؛ اس کا کیا مطلب ہے یعنی یہ معاملات گھر کے اندر کے ہیں؛ باہر کے نہیں؛ یعنی امور میں آپ جانتے ہیں کہ داخلی امور میں بہت سی چیزوں کی رعایت نہیں کی جاتی؛ مگر نبی (ص) جہاں کہیں بھی ہوتے تھے؛ جب زہرا (ع) وارد ہوتی تھیں؛ تو ضرور کیا ہوتا تھا؟ «وكانت» کی دلالت کس پر ہے؟ استمرار پر نہ ایک مرتبہ یا دو مرتبہ پر؛ جتنی مرتبہ آپ (ع) وارد ہوتی تھیں تو آپ (ص) استقبال فرماتے تھے؛ لہٰذا پہلا امر یہ ہے کہ استقبال کرتے تھے۔
دوسرا امر: "قام الیھا” قام لھا؟ نہیں، نہیں؛ عربی زبان میں "قام لھا” کا مطلب "قام إليھا” والا نہیں ہے؛ یعنی اپنی جگہ سے بلند ہوتے تھے اور آپ (ع) کی طرف آگے بڑھتے تھے؛ اپنی جگہ پر ٹھہرے نہیں رہتے تھے؛ اب آپ اگر کسی انسان کا احترام کرنا چاہیں گے تو اس کیلئے ٹھہر جائیں گے؛ مگر اس کیلئے کھڑے ہوں گے؛ ایسا نہیں ہے کہ اس کی طرف بڑھنا شروع کر دیں؛ سوائے یہ کہ وہ آنے والا بڑی شان کا مالک ہو؛ توجہ کیجئے؛ یہ فعل انجام دینے والی ہستی کون ہیں؟ سید الانبیاء والمرسلین(ص)؛ جن کا میں جلد ہی تعارف کراؤں گا؛ پس آپ (ص)ان کا دست مبارک اپنے دست مبارک میں تھام لیتے اور ہاتھوں کو بوسہ دیتے تھے۔
پس دوسرا اور تیسرا امر یہ ہے کہ آپ (ص) حضرت زہرا (ص) کا دست مبارک اپنے دست مبارک سے تھام کر اس پر بوسہ دیتے۔
آخری کام یہ کہ آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے؛ ایسا نہیں کہ اپنے دائیں یا بائیں بٹھاتے ہوں؛ نہیں! اپنی جگہ سے کھڑے ہو جاتے تھے اور آپ (ص) کو اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے؛ عزیزو! میں ناظرین کا بہت زیادہ وقت نہیں لوں گا؛ کیونکہ میں کہہ رہا ہوں کہ جو آپ (ص) نے انجام دیا؛ آپ (ص) جو عمل انجام دیا کرتے تھے؛ آپ (ع) کی طرف بڑھ کر جاتے؛ آپ (ع) کے دست مبارک کو بوسہ دیتے؛ اور آپ (ع) کو اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے؛ وہ کون ہے؟!میں ابن تیمیہ کے ایک شاگرد کا کلام نقل کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ یہ نہ کہیں: آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ رسول اللہ (ص) کی شان میں غلو ہے؛ یہ جو کچھ میں ابھی پڑھنے والا ہوں؛ یقین کیجئے اگر ہم شیعہ یہ کہتے اور اس کے قائل ہوتے؛ تو ہمارے اوپر ہزار تہمتیں لگا دی جاتیں؛ لیکن یہ مرد، میں عبارتیں پڑھوں گا؛ دیکھیے: یہ اپنی کتاب (بدائع الفوائد) میں کیا کہتا ہے.
عزیزو! آثار الإمام ابن قيم الجوزيۃ ،رقم واحد، تحقيق: علي بن محمّد العمران،اشراف: بكر بن عبد الله ابو زيد ،دار عالم ۔عزیزو! میں سال طبع کی طرف بھی اشارہ کر دوں تاکہ واضح ہو جائے؛تیسری اشاعت؛ ۱۴۳۳ہجری؛ اس کی جدید ترین طباعت جو دستیاب ہے؛ یہاں پر تیسری جلد کے صفحہ ایک ہزار پینسٹھ پر ایک عبارت ہے جو پیش کرنا چاہتا ہوں؛ لیکن افسوس کہ اپنے سامنے رکھی گھڑی کو دیکھ کر ابھی سے وقت کی تنگی کا احساس کر رہا ہوں۔
عزیزو! اچھی طرح متوجہ ہو جائیے؛ عزیزو! یہ انسان کیا کہتا ہے؟ فائدۃ: "ابن عقیل کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک سائل نے سوال کیا کہ کون سا مقام افضل ہے؛ نبی (ص) کا حجرہ کہ جس میں آپ (ص) اس وقت مدفون ہیں؛ یا کعبہ؛ سوال بہت سنگین ہے؛ "تو میں نے کہا: اگر تمہارا مقصود خالی حجرہ ہے یعنی اس ہستی کے بغیر جو اس میں مدفون ہیں تو کعبہ افضل ہے اور اگر تیرا مقصود وہ حجرہ ہے جس میں وہ بھی ہوں؛ کون؟ رسول اللہ(ص)؛ خدا کی قسم! ازواج نبی کی طرف نہیں جا رہا؛ ہرگز نہیں، ہم کس کی بات کر رہے ہیں؛ خود پیغمبر (ص) کی؛ اور اگر تیرا مقصود وہ حجرہ ہے جس میں آپ (ص) بھی ہوں؛ تو خدا کی قسم! کعبہ اس سے افضل نہیں ہے اور نہ ہی عرش اس سے افضل ہے؛ نہ صرف کعبہ بلکہ عرش بھی؛ "وَ يَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَھُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمانِيَۃً”؛ جس حجرے میں سید الانبیاء والمرسلین آرام فرماتے ہیں؛ وہ حجرہ اللہ کے عرش سے افضل ہے؛ یہ شخصیت بوسہ دیتی ہے؛ کس کو بوسہ دیتی ہے؛ فاطمہ زہرا (ع) کے دونوں ہاتھوں کو؛ تو خدا کی قسم! ہرگز نہ کعبہ، نہ عرش، نہ عرش کو اٹھانے والے اور نہ ہی جنت عدن اور نہ ہی گردش کرنے والے افلاک؛ اے ابن عقیل! تو کیا کہہ رہا ہے؟! کہتا ہے کیونکہ حجرے میں ایک جسد ہے اگر اس کا کونین کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو اس کا پلڑا بھاری ہو گا؛ توجہ کیجئے؛ یہ عالم شخص، ابن عقیل نبی (ص) کے جسد کی طرف اشارہ کر رہا ہے؛ تو روح نبی کی کیا حقیقت ہے؛ نہیں، اس کے بعد وہ قابل قیاس نہیں ہے؛ وہ اس خلقت کے مادی اور عنصری بدن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: "اگر اس کا کونین کے ساتھ وزن کیا جائے تو اس کا پلڑا جھک جائے گا؛ یہ جسد پاک؛ میری طرف توجہ کیجئے؛ آپ کہیں گے: جناب سید! یہ جملہ کیوں ہے؛ تو یہ جملہ دو چیزوں کی وجہ سے ہے؛ اوّل: میں آپ کے سامنے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ جو زہرا (ع) کی جانب بڑھتے ہیں؛ آپ (ع) کے دست مبارک پر بوسہ دیتے ہیں؛ اور آپ (ع) کو اپنی جگہ پر بٹھاتے ہیں؛ یہ کون ہیں؟ تاکہ آپ کو اس سے پتہ چلے کہ اس دختر کی شان کیا ہے جس نے اپنی حیات مبارکہ کی دوسری دہائی سے تجاوز نہیں کیا؛ یہ پہلی بات ہے!
دوم: یہ آپ (ص) کے جسد مبارک کی شان ہے؛ تو آپ کا ان کی روح کے بارے میں کیا خیال ہے؛ ان شاء اللہ؛ اس کے بعد ہم اس کا جائزہ لیں گے؛ آپ (ص) فرما رہے ہیں: «فاطمۃ روحی التی بين جنبی» جب آپ (ص) کا بدن عرش اور عرش کے حاملین پر ترجیح رکھتا ہے تو آپ (ص) کی روح اس سے بھی عظیم ہے؛ اور آپ (ص) کی روح کون ہیں؟ فاطمہ(ع) ہیں!!
میزبان: آپ (ص) کا جسد اور روح فاطمہ (ع) کے ہاتھوں کا بوسہ دیتے تھے!
سید: میں یہی کہنا چاہتا ہوں؛ پس میرے عزیزو! جو کچھ اس حدیث سے متعلق ہے؛ اور اسی لیے عزیزو میں نے آپ سے کہا تھا کہ توجہ رکھیں کیونکہ یہ حدیث بہت سنگین ہے؛ اب آپ کو یہ حق ہے کہ سوال کریں؛ اور کہیں جناب سید! کیا اس حدیث کو صرف حاکم نیشاپوری نے نقل کیا ہے یا کسی اور نے بھی نقل کیا ہے؛ پہلی بات یہ ہے کہ اگر اسے صرف حاکم نے نقل کیا ہوتا پھر بھی صحیح ہے؛ جیسا کہ انہوں نے اس پر حاشیہ لگایا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے؛ مگر کچھ ایسے ہاتھ؛ بین القوسین (جو -بزعم خود – امین ہیں!!) جو رسول اللہ (ص) کی میراث کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں؛ دیکھیے انہوں نے اس حدیث کے متن کے ساتھ کیا کام کیا؛ اس حدیث کی سند کے ساتھ کچھ نہیں کر سکے؛ اس لیے کس طرف گئے؟ اس نص کی طرف؛ یہ (صحیح ابن حبان) ہے؛ ابن حبان متوفی ۷۳۹ھ؛ جلد نمبر: ۱۵؛ تحقیق: شعیب الارناؤط؛ مؤسسۃ الرسالۃ؛ جلد: پندرہ؛ صفحہ چار سو تین؛ حدیث نمبر: ۶۹۵۳؛وہی روایت :
عائشہ بنت طلحہ سے، انہوں نے عائشہ سے نقل کیا: وہ کہتی ہیں کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو فاطمہ (ع) سے زیادہ کلام اور بات کرنے میں رسول اللہ (ص) سے مشابہ ہو؛ اور یہ اس حدیث کے ساتھ ہم آہنگ ہے جسے حاکم نیشاپوری نے نقل کیا؛ (جب وہ آپ (ص) کے پاس تشریف لاتی تھیں تو آپ (ص) بڑھ کر ان کا استقبال کرتے تھے) یہاں تک ٹھیک ہے؛ اب دیکھیں کھلواڑ کو؛ عزیزو دیکھیں؛ اور آپ (ع) کو بوسہ دیتے اور خیر مقدم فرماتے؛ اور آپ (ع) کا دست مبارک تھام لیتے؛ واضح بات ہے کہ کھلواڑ ہوا ہے؛ کیونکہ خیر مقدم کرنا بوسہ دینے اور دست مبارک تھامنے سے پہلے ہے؛ پس اب آپ پر یہ واضح ہو جائے گا کہ کھلواڑ ہوا ہے؛ وہ کیا ہے؟ نص میں تقدیم و تاخیر کی گئی ہے؛ اسی وجہ سے انہوں نے "قبلھا(بوسہ دیتے تھے) جو "اخذ بیدھا” (دست مبارک تھامتے تھے) کے بعد وارد ہوا ہے؛ اسے انہوں نے مقدم کر دیا ہے تاکہ بوسہ ہاتھ کی طرف نہ جائے؛ اور بوسہ زہرا (ع) کی طرف چلا جائے؛ معلوم نہیں کہ بات واضح ہوئی ہے! اسی لیے عزیزو! ان حقائق کو سمجھنے کی کوشش کیجئے؛ درحقیقت صرف یہی حدیث نہیں؛ بلکہ دسیوں اور سینکڑوں ایسی احادیث ہیں جن سے کھلواڑ ہوا ہے؛ یعنی تقدیم و تاخیر ہوئی ہے؛ یہ ایک مورد تھا، عزیزو۔