مقالات و آراء

  • حضرت فاطمہ زہرا(ع) کا مقام اور مظلومیت مصادرِ اہل سنت کی روشنی میں [4-2]

  • یہ شخصیت ایسی علمی امانت رکھتی ہے؛ کہ اس کے بعد کوئی امین ہی نہیں ہے!؛ یہ کون ہیں؟ امام بخاری؛ صحیح بخاری کے مصنف؛ یہ ایک کتاب جس کا نام ہے "الادب المفرد”؛ "صحیح،الأدب المفرد للإمام البخاری ويليہ ضعیف الأدب المفرد للإمام البخاری”،بقلم أبی عبد الرحمن محمّد ناصر البانی،مؤسسۃ الریان،صفحہ ۲۵۶ پر؛ حدیث کو ملاحظہ کیجئے؛ یہی حدیث عائشہ سے ہے؛ میں نے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا جو نبی (ص) کے ساتھ کلام اور گفتگو میں فاطمہ (ع) سے زیادہ شباہت رکھتا ہو ۔۔۔۔ کہتی ہیں: جب نبی (ص) انہیں دیکھتے تھے تو آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتے تھے؛ یہاں تک درست ہے؛ پھر ان کی طرف بڑھتے تھے؛ یہ بھی درست ہے؛ پھر انہیں بوسہ دیتے اور پھر ان کا دست مبارک پکڑتے؛ وہی مسئلہ ہے؛ عزیزو! سوال یہ ہے کہ اس امر پر کیا شاہد ہے کہ حاکم نیشاپوری کی نقل کردہ روایت۔۔۔اس امر پر کیا شاہد ہے کہ حاکم نیشاپوری کی نقل کردہ روایت صحیح ہے؛ ہو سکتا ہے وہ متن جسے بخاری اور ابن حبان نے نقل کیا ہے وہ صحیح ہو؛ اس امر کی دلیل کیا ہے؟

    عزیزو! ہمارے پاس شاہد ہے؛ شاہد کیا ہے؟ شاہد وہ ہے جو صحیح سنن ابی داؤد میں وارد ہوا ہے؛ توجہ کیجئے: صحیح سنن ابی داؤد؛ تیسری جلد؛ تالیف: محمد ناصر الدین البانی؛ صفحہ ۲۸۰؛ یہ روایت سنن میں وارد ہوئی ہے؛ کہاں؟ سنن ابی داؤد میں؛ یہ صحیح سنن ابی داؤد میں ہے؛ روایت یہ ہے: توجہ کیجئے؛ حدیث کا نمبر ہے: ۵۲۱۷؛

    "جب آپ (س) وارد ہوتی تھیں تو آپ (ص) ان کی طرف بڑھتے تھے اور آپ (ع) کا دست مبارک تھام کر اس پر بوسہ دیتے تھے؛ یہ "قبّلھا” کی ضمیر کس کی طرف پلٹ رہی ہے؛

    میزبان: "یدھا” کی طرف؛

    سید: کیوں، کیونکہ یہ عربی قواعد کا تقاضا ہے کہ ضمیر قریب ترین مرجع کی طرف پلٹتی ہے؛ «فأخذ بيدھا وقبلھا وأجلسھا في مجلسہ»

    پس یہ کامل طور پر اس متن کے ساتھ ہم آہنگ ہے جسے امام حاکم نیشاپوری نے ذکر کیا ہے؛ اور اسی لیے علامہ البانی جو اس حقیقت کی طرف متوجہ تھے؛ انہوں نے کہا: حدیث سے جو ظاہرا تبادر ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ بوسہ ہاتھوں کو دیتے تھے؛ نہ آپ (ع) کو!!

    دیکھئے، ان کا "صحیح الادب المفرد” پر حاشیہ ہے؛ حاشیہ نمبر ۱: میں کہتا ہوں کہ ابو داؤد نے ” فأخذ بيدھا وقبلھا” کا اضافہ کیا ہے؛یعنی فاطمہ (ع) کو بوسہ دیتے تھے نہ کہ ان کے ہاتھ کو؛باوجود اس کے کہ سنن ابی داؤد کے مطابق یہ ہے کہ آپ (ص) بی بی فاطمہ(ع)  کا ہاتھ تھام کر اس پر بوسہ دیتے تھے لیکن البانی کہتے ہیں کہ فاطمہ(ع) کو بوسہ دیتے تھے نہ کہ ہاتھ کو ۔ اے علامہ البانی! یہ حدیث کا ظاہری معنی ہے؛ جبکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ہاتھ کو بوسہ نہیں دیتے تھے جیسا کہ روایت سے  یہی ظاہر ہوتا ہے اور تبادر بھی اسی طرف ہے؛یعنی ہاتھ  کو بوسہ دینا ہی ظاہر اور متبادر ہے  پھر آپ ظاہر کے ساتھ کھلواڑ کیوں کر رہے ہیں؟ یہ جواب ناظرین کیلئے ہے؛ ضروری ہے کہ علامہ البانی جواب دیں؛ کیوں ایسا کر رہے ہیں جبکہ حدیث کا ظاہری اور تبادری معنی "ہاتھ کا بوسہ” ہی ہے۔

    یہ پہلی اور دوسری بات: پھر وہ حاکم نیشاپوری پر الزام تراشی شروع کر رہے ہیں؛ کہ وہ شاذ ہے، وہ مضطرب المذہب ہے؛ اپنے طریقہ کار کے مطابق؛ کیوں، کیونکہ وہ ان امور سے ہم آہنگ نہیں ہیں  جنہیں یہ لوگ چاہتے ہیں؛ البتہ انہوں نے ایک نکتہ یا ایک امر آخر میں ذکر کیا ہے؛ کہتے ہیں: میری اس بات کی تائید اس امر سے ہوتی ہے کہ حدیث کے آخر میں انہوں نے اس عبارت کا اضافہ کیا ہے؛ فأخذت بيدہ وقبلتہ (یعنی حضرت زہرا (ع) نبی (ص) کا دست مبارک تھام لیتی تھیں اور آپ (ص) کو بوسہ دیتی تھیں)؛ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ کیونکہ "قبلتہ” کی ضمیر نبی (ص) کی طرف پلٹ رہی ہے تو "قبلھا” کی ضمیر بھی حضرت زہرا (ع) کی طرف پلٹنی چاہئے؛ میں نہیں جانتا کہ اس میں کیا ملازمہ ہے؟ اگر رسول اللہ (ص) آپ (ع) کے ہاتھ پر بوسہ دیتے تھے اور اگر آپ (ع) رسول اللہ (ص) کو بوسہ دیتی تھیں؛ تو کیا یہ ناممکن ہے؟!

    بہرحال عربی قواعد کی رو سے یہی کچھ ہے؛ پھر کہتے ہیں: حاکم جماعت سے جدا ہو گئے؛ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیوں علیٰحدہ ہو گئے؛ اور شاید یہ عبارت "ناسخ” کی خطا ہے؛ عجیب عجیب عجیب؛ اندھا تعصب، اندھا اور بہرا کر ڈالتا ہے؛ اب یہ کیوں نہیں جانتا؟

    وہ اس وصف و خصلت کی منزلت سے واقف ہے کہ جسے ہم سیدۃ نساء العالمین کیلئے ثابت کرنا چاہتے ہیں!

    لہٰذا عزیزو! یہاں تک ہمارے لیے یہ روشن ہوا کہ یہ خصلت اور یہ حقیقت جس کی راوی کون ہیں؟! عائشہ نبی (ص) کی زوجہ؛ یعنی حتی اگر نبی (ص) اپنے گھر میں ہوتے اور زہرا (ع) آ جاتیں تو آپ کا یہ معمول تھا؛ آپ (ص) کی یہ عادت تھی؛ جو سوال میں تمام مسلمانوں سے کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ کیا نبی اکرم (ص) کی تاریخ میں اس طرح کا کوئی ایک عمل کسی صحابی یا کسی زوجہ کیلئے سرانجام پایا یا نہیں؟ اگر کوئی ہے تو ہمیں بتاؤ؛ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ امور کسی چیز پر دلالت نہیں کرتے اور شاید یہ پدررانہ جذبات ہیں؛ تو آپ (ص) کی اور اولاد بھی تھی؛ کیا تم لوگ یہ نہیں کہتے کہ آپ (ص) کی اور اولاد بھی تھی؛ کیا تم یہ نہیں کہتے کہ آپ (ص) کی دو اور بیٹیاں بھی ہیں؛ جن کا نکاح خلیفہ سوم سے کیا گیا؛ آپ (ص) نے اپنی بیٹیوں اور دوسری اولاد کے ساتھ یہ عمل کیوں نہیں انجام دیا؟ آپ (ص) نے عائشہ کیلئے ایسا کیوں نہیں کیا؟ خواہ ایک ہی مرتبہ؟؛ جیسا کہ تمہارا یہ دعویٰ ہے؛ کیا تم یہ نہیں کہتے کہ آپ (ص) کی سب سے محبوب بیوی اور آپ (ص) کے نزدیک خواتین میں سب سے زیادہ محبوب خاتون عائشہ تھیں؛  آپ لوگ اس چیز کے قائل ہیں؛ سوال: آپ (ص) نے ایسا خواہ ایک ہی مرتبہ عائشہ کیلئے کیوں نہیں کیا؛ ہم یہ نہیں کہتے کہ ایسا کرتے رہے ہوں؛ استمرار و دوام کی بنا پر ،نہیں؛ تاکہ کوئی یہ کہہ سکے کہ یہ خصلت جو زہرا (ع) کیلئے ثابت ہے یا جسے زہرا (ع) کو دے دیا گیا یہ زہرا (ع) کے ساتھ خاص نہیں ہے؛ یہ موجود ہے؛ یہ جذبات ہیں؛ دوسری اولاد کے لیے بھی ہیں اور ازواج کے حوالے سے موجود ہیں؛ اصحاب کے حوالے سے موجود ہیں؛ ۔۔۔کیا کسی ایک صحابی کے حوالے سے یہ موجود ہے کہ جب وہ داخل ہو تو آپ (ص) اس کے استقبال کیلئے آگے بڑھے ہوں؛ اور اس کا ہاتھ پکڑا ہو اور اسے اپنی جگہ پر بٹھایا ہو؛ ہمیں بتائیے۔

    پس عزیزو! میری ذاتی رائے کے مطابق اس منقبت اور اس فضیلت کے ساتھ کسی بھی صحابی کے مقام کی کوئی مماثلت نہیں ہے؛ اب آپ علی (ع) کے بارے میں کیا کہتے ہیں؛ اس کا حساب جدا ہے۔

    جی ہاں! میں اچھی طرح جانتا ہوں؛ پھر آپ علی (ع) کے بارے میں کیا کہیں گے؛ میں کہتا ہوں کہ وہ بحث الگ ہے؛ جب علی امیر المومنین اور زہرا (ع) سیدہ نساء العالمین کے فضائل پر بات ہو گی تو اس میں کلام ہے؛ میں اس وقت اس میں داخل نہیں ہونا چاہتا ورنہ بحث لمبی ہو جائے گی؛ ہمارے پاس وارد ہونے والی نصوص کا واضح اشارہ ہے بلکہ صراحت کی گئی ہے کہ اگر علی (ع) نہ ہوتے تو فاطمہ (ع) کا کوئی ہم پلہ نہ تھا؛ اگر علی (ع) نہ ہوتے تو فاطمہ (ع) کیلئے کوئی کفو نہ تھا؛ ایسا نہیں ہے کہ اگر فاطمہ(ع) نہ ہوتیں تو علی (ع) کیلئے کفو نہ تھا؛ اور شاید اس پر شاہد وہ درود و سلام ہے جس کا میں نے ابتدا میں ورد کیا ہے؛ اللھم صل علی فاطمۃ و أبيھا وبعلھا وبنيھا

    عزیزو! یہ محوریت، کس چیز میں ہے اور کس چیز پر دلالت کر رہی ہے؛ واقعا ہمیں کئی نشستوں کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس مسئلے پر غور و خوض کر سکیں؛ پس عزیزو! یہ آپ کے ذہن نشین ہونا چاہئیے؛ یہ قضیہ اور یہ منقبت ناظرین کے ذہن نشین ہو جائے تاکہ جب ہم انشاء اللہ ابحاث میں داخل ہوں اور اس مقام پر ہمیں زیادہ وقت درکار ہو گا؛ ضروری ہے کہ ناظرین کے علم میں ہو؛ تاکہ جب ہم آپ (ع) کی مخالفت اور آپ (ع) کی جانب سے رسول اللہ (ص) کے بعد ظاہر ہونے والی حکومت سے مشروعیت سلب کرنے کی طرف آئیں؛ تو اس مخالفت کا وزن واضح ہو اور یہ کہ اس مخالفت کے نزدیک کوئی بھی دوسری مشروعیت نہیں پھٹک سکتی؛  خواہ وہ کسی سے بھی صادر ہوئی ہو؛ اور آپ لوگوں کا اجماع ہے؛ بعد میں واضح ہو جائے گا کہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ علی ابن ابی طالب (ع) نے بیعت نہیں کی جیسا کہ زہرا (ع) نے بیعت نہیں کی؛ علی (ع) نے بھی بیعت نہیں کی؛ یعنی شروع کے مہینوں میں ایک فرض کی بنا پر؛ اور ہم واقعا اسے قبول نہیں کرتے؛ میری رائے یہی ہے کہ میں اس کو قبول نہیں کرتا؛ اور یہ علمائے امامیہ کے جمہور محققین کی رائے ہے کہ علی ابن ابی طالب (ع) نے مطلوبہ شرعی بیعت نہیں کی؛ ہرگز ایسا نہیں ہے، ہرگز، اور بالفرض اگر ہم یہ کہیں کہ انہوں نے بیعت کر لی تھی؛ تو یہ اس کے چند مہینوں کے بعد کی بات ہے؛ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلیفہ اول کے دور کے ابتدائی مہینوں میں علی و فاطمہ (ع) نے ان کی بیعت کی یا نہیں کی؟ آپ باقی صحابہ کو چھوڑ دیں؛ آیا اصحاب کساء کے دو افراد نے بیعت کی یا نہیں کی؟میں نہیں جانتاکہ اگر علی و فاطمہ(علیھما السلام) نے  بیعت نہیں کی تو  پھر اس حکومت  اور اس حکومت کی مشروعیت کی حیثت ہو گی اس  پر بہت زیادہ گفتگو کی ضرورت  ہے۔۔۔۔!!!

    • تاریخ : 2018/01/16
    • صارفین کی تعداد : 1256

  • خصوصی ویڈیوز