قرآن کریم کی طرف رجوع کرنے سے ہمیں ملتا ہے کہ اس میں ہدایت کی مختلف قسموں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے :
پہلی قسم : عام تکوینی ہدایت (فطری ہدایت)
یہ ہدایت ایسی ہدایت ہے جو تکوینی امور کے ساتھ تعلق رکھتی ہے جیسا کہ مختلف مخلوقات کی اس کمال کی طرف ہدایت جس کے لیے انہیں خلق کیا گیا ہے اور اسی طرح ان کاموں کی طرف ہدایت جو پہلے سے ان کے لیے مدنظر رکھے گئے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ ہدایت ہر مخلوق کی ان امور اور اجل کی طرف ہدایت سے عبارت ہے جنہیں اس کے لیے معین و مقرر کر دیا گیا ہے ۔
خداوند متعال نے قرآن کریم میں اس قسم کی ہدایت کی طرف اس انداز سے اشارہ فرماتا ہے :
ٱلَّذِی أَعۡطَىٰ كُلَّ شَيۡءٍ خَلۡقَہۥ ثُمَّ ھدَىٰ (طہ/۵۰)
[ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی] ۔
مذکورہ بالا آیت شریفہ میں ہدایت کرنے والا اور ہدایت حاصل کرنے والا بطور مطلق ذکر ہوا ہے ، اس سے قبل بھی اشیاء کی خلقت کے علاوہ کسی چیز کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا ہے ۔ آیت کا ظاہر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مراد ہر چیز کی ہدایت (جو کچھ آیت میں ذکر ہوا ہے اس کے مطابق ) اس کے ہدف کی طرف ہے اور ہدف وہی غایت ہے کہ جس کے ساتھ اس کا وجود مربوط اور اس پر اختتام پذیر ہوتا ہے اور وہ اس کے لیے خلق ہوا ہے اور اس کی طرف ہدایت یعنی اس تک پہنچنے کی غرض سے حرکت اور سیر۔ یوں یہ تمام اشیاء اور مخلوقات ایک دوسرے کے ساتھ مناسبت رکھتی ہیں۔
اس بنا پر ان معنوں میں ہدایت،کسی چیز میں مخفی توانائیوں اور صلاحیتوں کا ان کے آثار کے ساتھ ایک قسم کا رابطہ برقرار کرنے کو بیان کرتی ہے ۔ مثلا انسان کا جنین جو (ابتدا میں)انسانی صورت کا حامل نطفہ ہے،یہ ایسے اعضاء اور توانائیوں سے لیس ہے جو افعال اور آثار کے لحاظ سے اس کے جسمانی اور نفسانی کمال کے ساتھ ہم آہنگ ہیں ۔ انسانی نطفے کو خاص قسم کی صلاحیتیں دی گئی ہیں پھر ان توانائیوں اور اعضاء کے ساتھ جو اسے عطا کیے گئے ہیں اس کو معینہ ہدف کی طرف ہدایت اور حرکت دی جاتی ہے کہ یہ وہی انسانی وجود کا مقصد اور آخری کمال ہے جو اس نوع کے ساتھ مربوط ہے ۔
پس یہاں سے "ثم” کے ذریعے "ہدایت” کے "اعطی کل شیء خلقہ” پر عطف کا معنی مشخص ہو جاتا ہے کہ جس سے مراد رتبے میں مؤخر ہونا ہے؛ یعنی کسی چیز کی سیر اور حرکت(رتبے کے لحاظ سے) خلقت کے بعد ہے اور یہ تاخر جسمانی موجودات میں ایک قسم کے زمانی تدرّج (وقت کیساتھ ساتھ بتدریج) کی صورت میں ہوتا ہے ۔
اس قسم کی ہدایت(عام ہدایت) کے مقابلے میں کوئی چیز قرار نہیں پاتی؛جیسا کہ رحمت کے مقابلے میں کوئی چیز قرار نہیں پاتی ؛ لہذا مشخص ہوجاتا ہے کہ اس قسم کی ہدایت اس ہدایت سے جدا ہے جو گمراہی کے مقابلے میں ہے(ہدایت خاص)۔ لہذا خدا نے خاص ہدایت کو بعض افراد کے لیے ثابت کیا ہے اور بعض افراد سے اس کی نفی کی ہے اور اس کی جگہ ان کے لیے گمراہی اور ضلالت کو قرار دیا ہے اور فرمایا: وَٱللَّہ لَا يَھدِی ٱلۡقَوۡمَ ٱلظَّلِمِينَ (جمعه/۵) [اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا]۔ اسی طرح فرمایا : وَٱللَّہ لَا يَھدِي ٱلۡقَوۡمَ ٱلۡفَٰسِقِينَ (الصف/۵) [اور اللہ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا]،اور اس قسم کی دیگر بہت ساری آیتیں جبکہ کسی بھی مخلوق سے عام ہدایت کی نفی نہیں کی گئی ہے ۔
اسی طرح مشخص ہوتا ہے کہ یہ ہدایت انسان کی عام ہدایت سے جدا ہے جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے ؛ جیسا کہ خدا نے فرمایا : إِنَّا ھدَيۡنَٰہ ٱلسَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرٗا وَإِمَّا كَفُورًا (الدهر/ ۳)[ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی خواہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکرا]۔ اور اس آیت میں بھی فرماتا ہے : وَأَمَّا ثَمُودُ فَھدَيْنَاھمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَىٰ عَلَى الْھُدَىٰ فَأَخَذَتْھُمْ صَاعِقَۃُ الْعَذَابِ الْھُونِ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ(فصلت/۱۷)[اور (ادھر) ثمود کو تو ہم نے راہ راست دکھا دی تھی مگر انہوں نے ہدایت کی جگہ اندھا رہنے کو پسند کیا]۔
ان دو آیتوں اور ان جیسی دیگر آیات میں جس ہدایت کا ذکر ہوا ہے ، وہ صرف اہل عقل و شعور کو شامل ہے [ یعنی تمام موجودات اور مخلوقات جو ظاہرا عقل وشعور نہیں رکھتے، کو شامل نہیں ہے جیسے حیوانات ، جمادات وغیرہ ] اب جب ہم نے جان لیا کہ جو کچھ آیت ٱلَّذِی أَعۡطَىٰ كُلَّ شَيۡءٍ خَلۡقَہۥ ثُمَّ ھدَىٰ (طہ/۵۰) [اس نے کہا: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی] میں آیا ہے اسی طرح سورہ مبارکہ الاعلی کی آیت نمبر ۲ اور ۳ میں آیا ہے: الَّذِی خَلَقَ فَسَوَّىٰ ﴿٢﴾ وَالَّذِي قَدَّرَ فَھدَىٰ ﴿٣﴾ (جس نے پیدا کیا اور توازن قائم کیا،اور جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی)غایت اور مصداق کے اعتبار سے عمومیت رکھتا ہے [یعنی ایک طرف تمام موجودات انسان اور غیر انسان کو شامل ہے اور دوسری طرف تمام انسانوں کو خواہ کافر ہوں یا مومن ، شامل ہے] ۔
اس بنا پر اس قسم کی ہدایت اہل عقل و شعور اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی شامل ہے ۔ عام تکوینی ہدایت سے مراد ہر چیز کی اس کے وجودی کمال کی طرف الٰہی رہنمائی اور اسے خلقت کے ہدف تک پہنچانا جس کے لیے اسے خلق کیا گیا ہے ، اور یہ وہی کسی چیز کا اپنی ضروریات کی طرف رغبت (جو ایجاد ، استکمال ، افعال ، حرکت وغیرہ کو شامل ہے) ہے ۔
نتیجۃً کہا جاسکتا ہے کہ قرآنی آیات نشاندہی کرتی ہیں کہ اشیاء اور موجودات ( بغیر کسی استثناء کے) اپنی غایت اور اجل کی طرف عام الٰہی ہدایت کے ذریعے حرکت اور تغیر وتبدل کی حالت میں ہیں، اور یہ ہدایت مطلوب و مقصود تک پہنچانے کے معنی میں ہے نہ کہ راستہ دکھانے(بطور تشریعی) کے معنی میں ۔