مقالات و آراء

  • قدرتی حوادث کے وجود میں آنے میں مادی اسباب کا کردار(۱)

  • ممکن ہے یہ سوال ذہن میں آئے کہ اگر انسان کے نیک اور برے اعمال تمام مصیبتوں اور بلاؤں ، جیسے: جنگیں ، بد امنی کہ جن کا براہ راست انسان کے اعمال سے تعلق ہے ، یا ماحولیاتی تبدیلیاں اور زلزلہ , آندھی وغیرہ جن کا انسان کے اعمال سے براہ راست تعلق نہیں ہے ، کے نزول کا سبب ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قدرتی اورطبیعی عوامل کا ان حادثات کے رونما ہونے میں کوئی کردار نہیں ہے ؟
    اور یہ بات نہ صرف عقلی اور سائنسی اعتبار سے صحیح نہیں ہے ۔بلکہ اس بارے میں جو آیات ہیں ان کے ظاہری معنی کے ساتھ بھی تضاد رکھتی ہے ۔
    اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ اس سوچ کی بنیاد قرآنی آیات کو سمجھنے میں کج فہمی اور قرآنی مفاہیم کا درست ادراک نہ ہونا ہے ۔ اس لیے کہ جب ہم کہتے ہیں انسان کے نیک یا برے اعمال ، اچھے یا برے حوادث کے وجود میں آنے کا باعث ہیں تو اس سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ ان حوادث و واقعات کے رونما ہونے میں مادی علل و اسباب بھی شریک ہیں اور ہر ایک اپنی مخصوص تاثیر رکھتا ہے ۔ جیسا کہ مسلمان متکلمین کا وجود خالق کے اثبات سے مقصد قانون علیت کا انکار اور خلقت کو حادثاتی قرار دینا نہیں ہے اور وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ مادی اور طبیعی علل کو پروردگار کے کاموں میں شریک قرار دیں اور تاثیر کا کچھ حصہ ان علل و اسباب کے ساتھ مربوط کریں بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ علل و اسباب کی تاثیر کو طولی صورت میں اور معنوی علت کی تاثیر کو اِن مادی اسباب کی تاثیر سے مافوق ثابت کریں ۔ اس بات سے ثابت ہو جاتا ہے کہ مادی علل و اسباب اور معنوی علل و اسباب اپنی اپنی جگہ موثر ہیں اور دونوں بیک وقت اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں۔(1)
    قرآن مجید میں بھی اسی سے ملتا جلتا استناد کیا گیا ہے مثلا کبھی ” تدبیر ” اور خلقت کے نظام میں موجود ہم آہنگی کی خدا وند متعال کی طرف نسبت دی گئی ہے : يُدَبِّرُ الأمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلی الأرْضِ ( سجدہ / ٥ )وہ خدا آسمان سے زمین تک کے اُمور کی تدبیر کرتا ہے ۔
    ایک دوسری جگہ اسی کام کو ملائکہ کی طرف نسبت دی گئی ہے جہاں فرمایا : فَالْمُدَبِّرَاتِ أمْرًا (نازعات / ٥ )پھر (فرشتے) امور کا انتظام کرنے والے ہیں ۔
    اسی طرح انسان کی روح قبض کرنے کو کبھی خداوند متعال کے لیے ثابت کیا گیا ہے : اللَّہ يَتَوَفَّی الأنْفُسَ حِينَ مَوْتِھا ( زمر / ٤٢ )موت کے وقت اللہ روحوں کو قبض کرتا ہے ۔ دوسری جگہ فرشتوں کے متعلق فرمایا : قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِی وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَی رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ( سجدہ / ١١)کہ دیجئے: موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کرتا ہے پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔ اور تیسری جگہ اسی کام کی خدا کے بھیجے ہوؤں کہ جو فرشتے ہیں ،کی طرف نسبت دی گئی ہے : وَھوَ الْقَاہرُ فَوْقَ عِبَادِہ وَ يُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَۃ حَتَّی إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہ رُسُلُنَا وَھمْ لا يُفَرِّطُونَ ( انعام / ٦١ ) اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگہبانی کرنے والے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی ایک کو موت آ جائے تو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اس کی روح قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔
    یہ جو قرآن مجید میں جگہ جگہ کسی ایک موضوع کو متعدد بار اور مختلف نسبت دی گئی ہے تو اس سے مراد عرضی علل و اسباب کی تاثیر نہیں ہے بلکہ طولی علل و اسباب مد نظر ہیں ۔ اس طرح کہ نزدیک والی علت اُس واقعہ کے وجود میں آنے کی علت ہے اور دور والی علت اِس قریب والی علت کو وجود میں لاتی ہے ۔ ان علل کے سلسلے کو ایک مثال سے واضح کیا جاسکتا ہے لکھنے کا کام انسان اپنے ہاتھ سے اور قلم کے ذریعے انجام دیتا ہے ۔ یہاں ہم اس لکھنے کے عمل کو کبھی قلم کی طرف بھی نسبت دے سکتے ہیں اور آخرکار اس لکھنے کے عمل کو انسان نسبت دے سکتے ہیں کہ جس نے ہاتھ اور قلم کے ذریعے اس کام کو انجام دیا ہے ۔ حقیقت میں لکھنے کی اصل علت اور اصلی سبب انسان ہے جوکہ اس کام کی مستقل علت ہے لیکن لکھنے کے اس عمل کی انسان کی طرفنسبت اس چیز کے منافی نہیں ہے کہ اسے ہاتھ یا قلم کی طرف بھی نسبت دی جائے ۔(۲)
    ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید جہاں ان حوادث و واقعات اور ان کی مادی و طبیعی علل و اسباب کے درمیان رابطے کو ثابت کرتا ہے وہاں ان کی نسبت ملائکہ کی طرف بھی دیتا ہے جبکہ واضح ہے کہ یہ تمام طولی علل خداوند متعال کے ارادے سے الگ اور مستقل نہیں ہیں کہ جس کی وجہ سے ان کی نسبت خدا وند متعال کی طرف نہ دی جاسکے ۔ اس لیے کہ وہ ذات حقیقی علت ہے اور ہر علت کی علت ہے : وَاللَّہ مِنْ وَرَائِھمْ مُحِيطٌ ( بروج / ٢٠)
    اور اللہ نے ان کے پیچھے سے ان پر احاطہ کیا ہوا ہے۔
    یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے عقیدہ توحید کو بیان کرتے ہوئے بت پرستوں کے اس عقیدہ کی نفی کی ہے کہ خداوند متعال نے تدبیر امور جہان کو اپنے مقرب ملائکہ کے سپرد کر دیا ہے قرآن کریم نے موجودات میں سے کسی کے لیے بھی مستقل تاثیر کی نفی کی ہے ،ارشاد ہے :
    وَلا يَمْلِكُونَ لأنْفُسِھمْ ضَرًّا وَلا نَفْعًا وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلا حَيَاۃ وَلا نُشُورًا ( فرقان / ٣ )
    اور وہ اپنے لیے بھی کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتے اور وہ نہ موت کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ حیات کا اور نہ ہی اٹھائے جانے کا۔(۳)
    اسی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان حوادث کو مادی اسباب کی طرف نسبت دینا اس بات کے منافی نہیں ہے کہ ہم انہیں معنوی علل و اسباب اور انسانی اعمال "کہ جو ان علل کے طول میں ہیں” کی طرف نسبت دیں ۔ اسی طرح ان طولی علل و اسباب کا حوادث کے وجود میں آنے میں واسطہ بننا ان کی خدا کی طرف نسبت دینے کے ساتھ بھی منافات نہیں رکھتا ، اس لیے کہ توحید کے اصول کے تحت ہر چیز کی اصل علت تنہا اس کی ذات ہے ۔
    …………………………………………………………….
    1۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ٢ ، ص ١٨٣ ۔
    2۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ٢ ، ص ١٨٤ ۔
    3۔ المیزان فی تفسیر القرآن، ج۲ ، ص ١٨٤ ۔

    • تاریخ : 2018/06/25
    • صارفین کی تعداد : 1342

  • خصوصی ویڈیوز