مقالات و آراء

  • ’’معرفت اللہ‘‘ کے عنوان سے سلسلہ وار مباحث (9)

  • اگر آپ کو یاد ہو تو تعطیلات سے پہلے ہم نے کہا تھا کہ توحیدی معارف یا الٰہی معارف کا اہم ترین اور بنیادی ترین مسئلہ (ان لا حد لہ) ہے ۔ توحید سے مربوط مسائل نفیِ حد کے لوازمات اور آثار میں سے ہیں (ان اللہ لا حد لہ ، غیر محدود) لہذا ہمارے پاس روایات بھی ہیں : فمن حدہ فقد عدہ و من عدہ فقد ابطل ازلہ ،
    وہاں توحید کا مقام اس کے بعد ہے۔ لہذا الٰہی معارف کا پہلا مسئلہ توحید نہیں ہے بلکہ پہلا مسئلہ کیا ہے ؟ نفی حد ہے۔ اس کو ابھی اپنے ذہن میں رکھ لیں ؛ اس بنیاد پر آپ دیکھتے ہیں مسائل کو بطور کامل اس اساس پر ہونا چاہیے اور جہاں بھی اشتباہ ہو رہا ہے جیسے جسمیت یا مکان کی بات وغیرہ؛ سب کا منشا کیا ہے یا حد ہے یا عدم وجود حد ہے ، لہذا آپ دیکھتے ہیں کہ وہ تمام لوگ جو اس بات کے قائل ہوئے ہیں کہ خدا جسم ہے ، یا مکان رکھتا ہے وغیرہ یہ لوگ پہلے مرحلہ پر کس چیز کے قائل ہوئے ہیں؟! کہ خدا محدود ہے ۔
    ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ یہ بھی کہیں کہ خدا محدود نہیں ہے اور یہ بھی کہیں کہ خدا جسم رکھتا ہے یہ دونوں باہم جمع نہیں ہو سکتے۔۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ خداوند محدود تو نہیں ہے لیکن مکان رکھتا ہے یہ نہیں ہو سکتا . یہ امکان کب پیدا ہوتا ہے کہ وہ جسم رکھتا ہو، مکان رکھتا ہو؛ اس کیلئے پہلے مرحلے میں آپ کو کس بات کا قائل ہونا پڑے گا ؟ حد کا قائل ہونا پڑے گا۔
    لہذا اہل بیت(ع) نے کس چیز پر ہاتھ رکھا ؟ حد کے مسئلے پر! میں یہاں دوستوں کے لیے ایک اصل کو واضح کردوں؛ جناب! دیکھیے، ہمارے پاس موجود اہل بیت (ع) کی روایات میں یہ ہے کہ وہ بعض اوقات مسائل کو بطور حکم بیان کرتے ہیں اور کسی قسم کی دلیل قائم نہیں کرتے فقط حکم دیتے ہیں (انّ اللہ لا حد لہ) اور بس۔
    لیکن بعض اوقات…… جب مسئلے کو بطور حکم بیان نہیں کرتے تو اس کے لیے دلیل بھی پیش کرتے ہیں یعنی دوسرے الفاظ میں بعض اوقات آپ (ع) کی ابحاث توضیح المسائل کی طرح ہیں یعنی صرف حکم دیتے ہیں لیکن بعض اوقات کیا کرتے ہیں؟ استدلال کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے اہم ہے ۔ لہٰذا خصوصا آئمہ کے عقلی استدلالات؛ درست ہے کہ یہ روایات میں ذکر ہوئے ہیں لیکن نقلی دلیل نہیں ہیں؛ یہ دونوں باتیں باہم مخلوط نہ ہوں؛ جو بھی منقول ہو وہ نقلی دلیل نہیں ہے؛ بہت سے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ جو بھی منقول ہے وہ کون سی دلیل ہے؟۔۔۔ نہیں! ایسا نہیں ہے؛ اہل بیت (ع) کے بہت سے فرمودات اور اہل بیت (ع) کے بیانات سے قبل موجود بہت ساری قرآنی آیات؛ درست ہے کہ منقول ہیں لیکن خود کیا ہیں؟ عقلی برہان ہیں یعنی آپ جب اس فرمان خدا کو دیکھتے ہیں : لوکان فیھما آلھۃ الا اللہ لفسدتا
    یہ نقلی دلیل ہے یا عقلی ہے؟
    جواب: یہ بھی کہیں کہ نقلی ہے کیونکہ منقول ہے؛ کیونکہ قرآنی آیت ہے۔ آپ تعریف کریں کہ نقلی دلیل کیا ہے؟ دلیل نقلی یا آیت ہے یا روایت ہے لیکن اس نقلی دلیل کا مضمون کیا ہے ؟ عقلی برہان ہے ۔
    اب میں نہیں جانتا کہ جو لوگ کہتے ہیں ہم عقل اور عقلی استدلال کو قبول نہیں کرتے وہ ان روایات کا کیا کرتے ہیں جو تمام کی تمام عقلی استدلالات پر مشتمل ہیں؛ کیونکہ بہت سارے مقامات پر آئمہ(ع) عقلی دلیل کو ذکر کرتے ہیں لیکن درست نتیجہ دینے کی غرض سے اس دلیل عقلی کیلئے ضروری ہے کہ آپ اس کے لیے کچھ مقدمات کی تاسیس کریں اگر وہ مقدمات نہ ہوں تو وہ دلیل عقلی بھی تام نہیں ہو گی۔
    جناب! اب اہل بیت (ع) نے حد کے مسئلے میں بھی ان دو روشوں سے استفادہ کیا ہے ۔ کچھ ایسے مقامات ہیں جہاں اہل بیت (ع) نے فقط فرمایا : "ان اللہ لا حد لہ” اور کچھ ایسے موارد بھی ہیں جہاں اہل بیت(ع) نے کیا کیا ؟ استدلال کیا ہے : "ان اللہ لا حد لہ” کیوں ؟! کس دلیل کی بنا پر؟
    جناب! میں یہاں پہلے کچھ روایت بیان کروں گا ( اب ان کی سند کو بیان نہیں کروں گا کیونکہ یہ عقلی برہان پر مشتمل ہیں؛ لہٰذا میں سندی بحث نہیں کروں گا؛ کیوں؟ کیونکہ حتی اگرروایت ضعیف بھی ہو لیکن اس وقت یہ روایت ہماری اسی عقلی دلیل کی مؤید اور اس پر شاہد ہو گی تب ضروری نہیں ہے کہ آپ سند پر نگاہ کریں کہ آیا اس کی سند معتبر ہے یا معتبر نہیں ہے ۔
    آئمہ اہل بیت (ع) کے کلمات میں ۔۔۔۔ اب اس روایت کو میں اس کتاب سے اس لیے پیش کر رہا ہوں کیونکہ یہ کتاب دوستوں کے پاس موجود ہے کتاب "التوحید عند الشیخ ابن التیمیہ” صفحہ ۱۰۴ و ۱۰۵: ما ورد عن الإمام علی علیہ افضل السلام و الصلاه؛ آپ (ع) نے فرمایا : اسے کسی حد میں شامل نہیں کیا جاسکتا اور نہ اس کے لیے کوئی ایسی حد ہے جو کسی حد پر تمام ہوتی ہو اسی طرح کسی چیز کے ساتھ اسے محدود نہیں کیا جاسکتا اور نہ وہ کسی تعریف کے دائرے میں آ سکتا ہے ….. اسی طرح امام رضا(ع) سے نقل ہوا ہے کہ عبادت خدا کی ابتدا اس کی معرفت ہے اوراس کی معرفت کی اصل۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ فرمایا : خدا محدود نہیں ہے ( جس کسی نے سوال کیا : میرے لیے خدا کی تعریف بیان کریں ، امام نے فرمایا : اس کی تعریف ممکن نہیں ہے ، تو اس نے کہا : کیوں ؟
    اب دیکھیے! یہاں برہان کی بحث شروع ہو گئی ہے اب ایسا نہیں ہے کہ صرف حکم ہو اگر آپ ایک اعتقادی رسالہ لکھنا چاہتے ہیں کہ میرے خیال میں واقعا بزرگ علما ، وہ لوگ جو اعتقادی مسائل میں مجتہد ہیں انہیں ایک رسالہ لکھنا چاہیے جیسا کہ پہلے یہ سنت رہی ہے شیخ صدوق کی کتاب "اعتقادنا” کیا ہے؟ یہ استدلالی کتاب نہیں تھی آپ نگاہ کریں البتہ امکان ہے کہ بعض مقامات پرانہوں نے کوئی آیت ذکر کی ہو لیکن وہ کس چیز کو بیان کر رہے ہیں؟ اپنے عقائدی فتاویٰ کو بیان کررہے ہیں اور یہ فتویٰ کی تعبیر ، یہ بھی آپ کو بتا دوں کہ ان گزشتہ کچھ صدیوں کے دوران فتویٰ کی تعبیر فقہی مسائل سے مخصوص ہو گئی ہے ورنہ واقعا اسلامی ثقافت میں اور بطور عموم شیعہ علماء کی ثقافت میں بنیادی طور پر فتویٰ، فقہی مسائل سے مخصوص نہیں رہا ۔
    فتوے کی تعبیر عام ہے جو فقہی فتوے کو بھی شامل ہے اور عقائدی فتوے کو بھی ، لہذا آپ دیکھتے ہیں شیخ مفید نے کیا لکھا ؟ "تصحیح الاعتقاد” لکھی لہذا آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے بعد علماء آکر عقائدنا لکھتے ہیں ، آقا اگر آپ عقائدنا کو دیکھیں کہ ایک عقائدی توضیح المسائل ہے اور اس میں کسی قسم کا استدلال نہیں ہے اسی طرح عقیدتنا فی الامامیین ، عقیدتنا فی التوحیدین وغیرہ ، اس وقت کے بعض بڑے علماء نے بھی یہی کام کیا ہے؛ ملاحظہ کریں کہ انہوں نے یہ کام کیا ہے اور ان کی کتابیں بھی موجود ہیں ۔ لیکن افسوس ہے کہ یہ رواج ختم ہو رہا ہے؛ ضروری ہے کہ اس کا احیاء کیا جائے اور اس وقت پھر کسی اہل منبر کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ منبر پر جا کر ایک روایت پڑھے اور لوگوں کے اعتقاد کو بیان کرے اگر وہ لوگوں کے لیے ایک عقیدہ بیان کرنا چاہتا ہے اسے کہاں سے استناد کرنا چاہیے ؟ یعنی کیا اہل منبر کو یہ حق حاصل ہے کہ منبر پر جا کر کتاب وسائل الشیعہ سے فقہی مسائل کو بیان کریں؟ اگر وہ یہ کام کرے گا تو لوگ اسے رد کریں گے یا نہیں؟ کہیں گے: آقا یہ کیا ہے کہ آپ وسائل پڑھ رہے ہیں اس روایت کا معارض ہے ممکن ہے یہ روایت عام و خاص رکھتی ہو وغیرہ لیکن اس وقت منبر پر عقائد کے حوالے سے کیا ہو رہا ہے؟ اور جالب یہ ہے کہ ایک روایت کو نہ یہ کہ کافی سے پڑھتے ہیں بلکہ بحار سے پڑھتے ہیں جس کی کوئی اساس بھی نہیں ہوتی ۔
    ایسی روایات ہیں یہ نہیں کہہ رہے کہ بہت زیادہ؛ لیکن کچھ ایسی روایات ہیں کہ جن کا تمام زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے؛ ہم نے ان کا کھوج لگایا تو معلوم ہوا کہ نہیں آغا دوسری یا تسیری صدی میں بعض عرفا یا صوفیوں نے انہیں بیان کیا ہے لیکن بعد میں یہ حدیث کی کتابوں میں داخل ہوئیں اور روایت بن گئیں جیسے ؟! آپ کو یقین نہیں آئے گا جیسے : "الناس نیام اذا ماتوا انتبھوا” جناب! یہ روایت نہیں ہے ، آپ نے کس قدر اس کو منبر سے سنا ہے ہمارے بزرگ علما کہتے ہیں الناس نیّام ۔۔الناس نیّام ۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب یہ روایت نہیں ہے ایک صوفی نے یہ کہا تھا؛ اس کے بعد کسی بڑے عالم نے کہا کہ میرا احتمال ہے کہ یہ مضمون ، اہل بیت (ع) کا مضمون ہے ۔ آغا انہوں نے احتمال دیا اور بعد میں آنے والے نے کہہ دیا کہہ دیا : و قال الباقر(ع)؛ اور جب ہم نے بحار میں دیکھا تو اس کے ساتھ قال الباقر(ع) ، قال الرضا(ع) لکھا ہوا پایا جبکہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔
    جالب یہ ہے کہ میں نے بھی اپنی سابقہ کتابوں میں اسے ذکر کیا ہے اسی قول : ( الناس نیام ۔۔۔۔۔) کو؛ جی ہاں! میں نے ذکر کیا ہے کیوں ؟ اس بنیاد پر کہ یہ روایت بحار میں ہے۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ یہ روایت (كلما ميّزتموه بأدق معانيہ۔۔۔۔۔۔) خدا کے بارے میں ہے ، اور یہ روایت بھی یا امام باقر(ع) سے ہے یا امام رضا(ع) سے ہے ، امام باقر(ع) سے درست؟!آج کسی دوست نے مجھے فون کیا اور کہا کہ یہ روایت جسے آپ بیان کرتے ہیں آپ جانتے ہیں کہ یہ تیسری صدی کے ایک صوفی کا کلام ہے؟!اور سب سے پہلے جس نے کہا کہ یہ روایت ہے محقق طوسی تھے ، اس کے بعد امام باقر(ع) کی طرف منسوب ہو گئی اور بحار میں نقل ہوئی ، اصلا یہ روایت نہیں ہے ۔ میں نے ان سے کہا: اس پر مزید تحقیق کریں؛ کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے؛ کیونکہ ہم اس روایت سے بہت زیادہ استناد کرتے ہیں؛
    اب میں یہ نہیں کہتا؛ بلکہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوستو ممکن ہے کہ آپ کسی ایسی روایت سے استناد کریں جس کی بالکل کوئی اساس ہی نہ ہو۔ کوئی بنیاد ہی نہ ہو؛ نہ یہ کہ روایت ضعیف السند ہو؛ کیونکہ ضعیف السند روایت میں صدور کا احتمال تو ہے؛ جی ہاں! حجت نہیں ہے؛ جس کی سند ضعیف ہو اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ بالکل صادر ہی نہیں ہوئی بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ میں اس روایت سے استدلال یا استناد نہیں کرسکتا؛ لیکن بعض اوقات روایت کا وجود ہی نہیں ہوتا؛ لیکن اس وقت آپ منبر پر دیکھتے ہیں کہ عقائدی مسائل میں بزرگ علماء کے فتاویٰ سے استناد نہیں کیا جاتا ، کوئی بھی منبر پر آکرنہیں کہتا کہ قال الصدوق ، قال المفید ، قال العلامۃ المجلسی ، یہ نہیں کہتا بلکہ کہتا ہے: آقا یہ بحار کی روایت ہے، یہ کافی کی روایت ہے یہ فلاں فلاں کی روایت ہے ۔
    لیکن کوئی بھی جرأت نہیں کرتا کہ ایک فقہی مسئلے میں کہے کہ اس کی دلیل کہاں ہے ؟ تہذیب میں ہے ، یا وسائل الشیعۃ یا مستدرک میں ہے چونکہ لوگ کہیں گے کہ یہ تمہارا کام نہیں ہے ۔ یہ امر قابل افسوس ہے؛ ہمیں آگے بڑھ کر اس رواج کو روکنا چاہیے؛ جیسا کہ فقہی مسائل میں کس کی طرف رجوع کرنا چاہیے؟ فن کے ماہر لوگوں کی طرف ۔ آپ کو حق حاصل نہیں ہے کہ آپ یہ کہیں: یہ طاہر ہے یا نجس چونکہ روایت کہتی ہے طاہرۃ اہل الکتاب ! جی ہاں اگر وہ خود فن کا ماہر ہو اور کہے کہ میں طہارت کا قائل ہوں اور اس کی دلیل کیا ہے ؟ یہ روایت ۔ اگر کسی نے سوال کیا ہے کہ آقا ہمارے پاس نجاست کی روایت بھی ہے تو ہم کہیں گے کہ آئیں درس خارج کی بحث میں مشخص کرتے ہیں کہ کیوں ہم طہارت کی روایت کو قبول کرتے ہیں اور نجس ہونے کی روایت کو قبول نہیں کرتے ، یہ ایک الگ بحث ہے ۔ لیکن جو ماہر نہیں ہے؛ اسے کس کی طرف رجوع کرنا چاہیے ؟ کس کے قول کی طرف؟ اس فن کے مجتہد کی طرف کہ اگر آپ کر سکیں اور خاص طور پر الحمد للہ یقینا بعض دوست اہل منبر ہیں؛ منبر پر بھی جاتے ہیں لوگوں کو بتائیں کہ اہل منبر کو یہ حق نہیں ہے کہ آیت اور روایت سے استناد کرتے ہوئے اعتقادی مسائل کو بیان کرے مگر یہ کہ وہ خود مجتہد اور فن کا ماہر ہو تو اسے حق حاصل ہے کہ آقا میں یہ بات کر رہا ہوں ، ولایت تکوینی کا قائل ہوں ، کس دلیل کی بنا پر ؟ کیونکہ ہمارے فلاں فلاں عالم نے؛ ہمارے محققین نے کہا ہے ۔۔۔۔۔ میں وساطت فیض کا قائل ہوں فلاں فلاں دلیل کی بنا پر ۔۔۔۔۔ ۔

    • تاریخ : 2018/12/06
    • صارفین کی تعداد : 1820

  • خصوصی ویڈیوز