قرآن مجید نے بہت سی آیات میں جہاں آخرت میں تقویٰ کے نتائج و آثار کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن چونکہ ہماری بنا ابحاث کو بطور خلاصہ بیان کرنے پر ہے اس لیے کوشش کریں گے کہ اس بارے میں قرآن مجید میں ذکر تمام موضوعات کو مختصر انداز میں بیان کریں ۔ پروردگار عالم کا ارشاد ہے :
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَھرٍ * فِيمَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ ( قمر / ٥٤ ۔ ٥٥ )
اہل تقویٰ یقینا جنتوں اور نہروں میں ہوں گے ۔ سچی عزت کے مقام پر صاحب اقتدار بادشاہ کی بارگاہ میں۔
فخر رازی کہتے ہیں :
” فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ ” میں لفظ مقعد ٹھہرنے اور توقف پر دلالت کرتا ہے جبکہ لفظمجلس کے معنا میں یہ توقف اور ٹھہرنا نہیں ہے اور لگتا ہے ” قعود ” اور” جلوس ” میں کوئی فرق نہیں ہے جبکہ ان میں فرق پایا جاتا ہے لیکن اسے صرفآگاہ اور فہیم لوگ سمجھ سکتے ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ قعود میں جلوس [ بیٹھنا ] کی نسبتزیادہ توقف اور ٹھہرنا پایا جاتا ہے ۔
علامہ طباطبائی اس آیت شریفہ کے ذیل میں فرماتے ہیں :
” صدق ” سے مراد پرہیزگاروں کے ایمان لانے اور عمل صالح انجام دینے میں سچائی اور درستگی ہے ۔ اس لفظ کا ” مقعد ” کی طرف مضاف ہونا اس معنی میں ہے کہ اُن کی جگہ صدق و سچائی کے ہمراہ ہے جہاں جھوٹ کا کوئی شائبہ نہیں ہے ۔
لہذا انہیں وہ بغیر کسی وقفے کے دائمی حضور ، بغیر دوری کے ابدی قرب ،بغیر نقمت کے نعمت اور غم و اندوہ سے پاک خوشی اور فنا سے پاک بقا حاصل ہوگی ۔(1)
عبارت” عند ملیک مقتدر ” میں ملیک صیغہ مبالغہ ہے جوکہ ملک کے مادہ سے ہے ۔ اس کا معنی ہے ایسا حاکم جس کے سامنے کسی کو چون و چرا کا حق نہ ہو قدرت کا مالک جو کہ پروردگار عالم کی ذات ہے ۔
” عند ملیک مقتدر ” صاحب اقتدار بادشاہ کے پاس ۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ بادشاہ کے قرب میں ہونا لذت بخش ہے اور جس قدر بادشاہ کی شان و شوکت اور قدرت و اقتدار زیادہ ہوگا اسی قدر اس کے قرب میں لذت بھی زیادہ ہوگی ۔ اس آیت کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے قرب اور دیگر بادشاہوں کے قرب میں فرق کو بھی واضح کیا گیا ہے ۔ اس لیے کہ بادشاہ صرف اپنے پسندیدہ افراد کو اپنے قریب کرتے ہیں یا ایسے افراد کو اپنے قریب لاتے ہیں جن سے وہ ڈرتے ہوں۔ اس خوف سے کہ کہیں یہ لوگ بادشاہ کے خلاف بغاوت نہ کر دیں اور اس کے مد مقابل نہ کھڑے ہو جائیں ۔ یا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ دشمن کے ساتھ جا ملیں اور پھر اس کی حکومت پر غلبہ و تسلط قائم کر لیں ۔ جبکہ پروردگار عالم ایسا مقتدر ہے جو صرف اپنے فضل و کرم سے اپنے بندوں کو اپنے قریب کرتا ہے اور انہیں اپنا قرب عطا کرتا ہے۔ لہذا کوئی بھی اس مقام و منزلت تک نہیں پہنچ سکتا مگر یہ کہ پروردگار عالم اس سے محبت کرتا ہو اور اس کے علم و عمل کو پسند کرتا ہو ۔ (2)
مصباح الشریعہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے تقویٰ کے متعلق فرمایا :
” تقویٰ ہر عمل صالح کا نچوڑ ہے ۔ تقویٰ کے ذریعے اعلیٰ درجات تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے اور حیات طیبہ ، انس اور ہمیشہ کی الفت کو درک کیا جاسکتا ہے ۔ پروردگار عالم جلّ شانہ نے فرمایا ہے:
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَھرٍ * فِيمَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ ( قمر / ٥٤ ۔ ٥٥ )
اہل تقویٰ یقینا جنتوں اور نہروں میں ہوں گے ۔ سچی عزت کے مقام پر صاحب اقتدار بادشاہ کی بارگاہ میں۔(3)
کتاب "تاویل الآیات الظاہرۃ” میں آیا ہے :
” جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیں کہ ہم مسجد میں رسول خدا ﷺکی خدمت میں تھے کہ بعض صحابہ نے جنت کے بارے میں بات کی ۔ پیغمبر اکرم ﷺنے فرمایا : سب سے پہلا شخص جو جنت میں داخل ہوگا وہ علی ابن ابی طالبؑ ہیں ۔
جابر نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا ایسا ہے کہ جب تک آپ جنت میں داخل نہ ہونگے دوسرے انبیا پر جنت حرام ہے ؟ اور جب تک آپ ﷺ کی امت جنت میں داخل نہ ہوگی دوسری امتوں کا جنت میں داخل ہونا جائز نہیں ہے ؟
رسولخدا ﷺ نے فرمایا : ہاں ایسا ہی ہے ۔ اے جابر ! تم نہیں جانتے کہ خداوند متعال نے آسمانوں اور زمین کی خلقت سے ایک ہزار سال پہلے نور کا ایک پرچم اور ایک نورانی ستون خلق فرمایا ۔ اس پرچم پر لکھا ہے : لا الہ الا اللہ ، آل محمد تمام خلائق سے افضل ہیں ۔ اس پرچم کے مالک اور اسے اٹھانے والے علی ابن ابی طالبؑ ہیں جوکہ امت کے امام اور پیشوا ہیں ۔
اس موقع پر علی ابن ابی طالبؑ نے فرمایا : خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے آپﷺکے وسیلے سے ہماری ہدایت فرمائی اور ہمیں عزت بخشی ۔ رسول خداﷺ نے فرمایا : اے علیؑ ! آپ کو خوشخبری ہو جس شخص کے دل میں تمہاری محبت ہوگی ، قیامت کے روز پروردگار عالم اسے میرے ساتھ محشور کرے گا ۔
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا :
” اے علیؑ ! کیا تم نہیں جانتے کہ جو کوئی ہم سے محبت رکھے گا اور ہمارے دوستوں میں شامل ہوگا پروردگار عالم اسے[ جنت میں] ہمارے ساتھ جگہ دے گا ؟ اس کے بعد آپﷺ نے یہ آیت شریفہ تلاوت فرمائی :
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَھرٍ * فِيمَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ ( قمر / ٥٤ ۔ ٥٥ )
اہل تقویٰ یقینا جنتوں اور نہروں میں ہوں گے ۔ سچی عزت کے مقام پر صاحب اقتدار بادشاہ کی بارگاہ میں۔