مختصر یہ کہ چار موقف ہیں:
پہلا موقف: سائنس اور دین کے مابین تعارض ذاتی ہے۔ جب تعارض ذاتی ہے تو دونوں کے مابین جمع نہیں ہو گا۔ لہٰذا خود کو زحمت میں ڈالنے کی ضروت نہیں ہے کیونکہ سائنس کی حقیقت ایک چیز ہے اور دین کی حقیقت ایک دوسری چیز ہے۔
ہمارے نزدیک ایسے لوگوں کو نظریہ تفکیک کا قائل ہو جانا چاہئیے۔ نظریہ تفکیک یہ ہے کہ سائنس کو اپنے ماحول میں رہ کر تحقیقات کرنے دیں اور دین کو اس کے تقاضوں کی روشنی میں تحقیق کرنے دیں مگر یہ جواب ناقص ہے چونکہ یہاں پر موضوع واحد ہے۔
بالفاظ دیگر سائنس کسی موضوع کو ’’الف‘‘ کہتی ہے اور دین اسی موضوع کو ’’ب‘‘ قرار دیتا ہے پس موضوع واحد اور محمول متعدد ہے جبکہ تفکیک کیلئے موضوعات کا متعدد ہونا ضروری ہے۔
پس معلوم ہوا کہ نظریہ تفکیک کے قائلین کیلئے مورد نزاع مشخص نہیں ہے اور وہ بنیادی طور پر’’تفکیک‘‘ کا معنی واضح نہیں کر پائے ہیں۔
پہلے موقف کا ذکر اس کتاب کے مقدمے میں ملتا ہے کہ ان دنوں جس چیز کا بہت زیادہ ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ دین اور سائنس کے مابین عداوت ہے ؛ یعنی دینی مزاج، سائنسی مزاج کی ضد ہے اور سائنسی مزاج دینی مزاج کی ضد ہے۔ مثال کے طور پر سائنس متغیر اور قابل ارتقا ہے جبکہ دین ایک ثابت امر ہے لہٰذا یہ دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔
دوسرا موقف: سائنسی نتائج کو دینی تعلیمات پر مقدم کیا جائے دینی تعلیمات کی تاویل کی جائے۔ لہٰذا سائنسی نتائج اور دینی نتائج میں تضاد کی صورت میں دین کے اندر تاویل کی جائے گی۔
جیسا کہ یہی عمل عقلی قواعد اور دینی نتائج میں تضاد کی صورت میں انجام دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی دعویٰ کرے کہ ظاہر قرآن تجسیم ہے مگر دلیل عقلی کہتی ہے کہ اللہ کا جسم ہونا محال ہے تو آپ قرآنی آیات میں تاویل کریں گے اور کہیں گے کہ’’بل یداہ مبسوطتان‘‘ سے مراد ’’ید قدرت‘‘ ہے تاکہ عقلی قاعدے کی رعایت کی جا سکے بالکل اسی طرح یہاں سائنسی قاعدے کو دینی معارف پر مقدم کیا جائے گا۔
علم نفسیات یہ کہتا ہے علم طبیعات یہ کہتا ہے علم تربیت یہ کہتا ہے یہ سارے علوم بشریات کے زمرے میں آتے ہیں۔ کیا بشریات کے نتائج کو دینی تعلیمات پر مقدم کریں؟ یا دینی معارف کو سائنسی نتائج پر مقدم کریں؟!
مثال کے طور پر علوم تربیت میں کہا جاتا ہے کہ بچے کو تربیتی مراحل کے دوران جسمانی سزا نہ دی جائے مگر تفاسیر میں ہے کہ بچوں کو مارا جائے بلکہ عورتوں کو بھی مارا جائے۔
جیسا کہ آیات کی تفسیر یہی کی گئی ہے۔ اب کیسی ہی تاویل کیوں نہ کی جائے آیت کا ظاہر ضرب پر دلالت کر رہا ہے۔
تو کیا ہم جدید بشریات کے نتائج کو مقدم کریں یا دینی تعلیمات کو مقدم کریں؟!
اس قول کی رو سے سائنسی نتائج کو دینی تعلیمات پر مقدم کیا جائے گا۔