تیسرا موقف: مکمل طور پر برعکس ہے۔۔۔۔ مثال کے طور پر علم طبیعات کہتا ہے کہ زمین کروی ہے تو اس موقف کا قائل کہے گا کہ نہیں! تم غلطی پر ہو کیونکہ روایات میں ہے کہ زمین ہموار ہے۔۔۔ ۔
آج کل کچھ ایسے مطالعات بھی انجام دئیے جا رہے ہیں کہ جو زمین کو ہموار ثابت کرنے کے درپے ہیں۔ اس نقطہ نظر کی جڑیں ان روایات میں ہیں جو زمین کو ہموار قرار دیتی ہیں۔
اسی طرح بعض روایات کے مطابق زمین بیل کے سینگ پر قائم ہے۔ موجودہ علوم طبیعات کے مطابق ایسی چیزیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دینی چاہئیں۔ اس کے جواب میں محدثین کا ایک اصولی موقف ہے کہ معتبر روایت کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔
ہم بخدا کسی کی تنقیص نہیں کرنا چاہتے بلکہ طرفین کے مابین
بحث و تمحیص کا ایک پل کھڑا کرنا چاہتے ہیں سکوں آپ جن کا عقیدہ یہ ہے ہیں کہ
روایت علوم طبیعات اور بشریات پر مقدم ہے تو
اس کے بعد میں آپ کیساتھ کلام کر سکتا ہوں یا نہیں کر سکتا کہ جب میرا مبنیٰ
دوسرا قول ہو بات کر سکتا ہوں یا نہیں گفتگو
کا باب بند ہو جائے گا ۔۔۔۔ بات ختم! گفتگو میں داخل ہونا بے معنی ہو جائے گا کیونکہ
آپ ایک عالم میں بات کر رہے ہیں اور میں دوسرے عالم میں بات کر رہا ہوں چوتھا قول:
عزیزو! ان دونوں (اقوال) کو جمع کرنے کی سعی اسی لیے آپ حکمت متعالیہ میں پڑھتے
ہیں مکتب حکمت متعالیہ کے اہم خصائص کیا
ہیں؟ جس کے ملا صدرا اور دیگر علما قائل ہیں جیسے ابن سینا اشارات میں یہ کیا ہے؟ کہتے
ہیں: اگر ایک طرف فلسفی نتائج ہوں اور دوسری طرف دینی نتائج ہوں اور ہم بظاہر
دونوں میں تعارض کا مشاہدہ کریں تو ہمارے لیے کیا کرنا ضروری ہے؟! والجمع اولی
(دونوں کو جمع کرنا اولیٰ ہے) ہم دونوں میں تصفیہ و مصالحت کریں گے عقل اور نقل
اور کشف کے درمیان جمع کریں گے یہی کہا جاتا ہے عزیزو! واضح ہو گیا؟ جو عزیز چاہتے
ہیں؛ عزیزو! ان اقوال کی طرف اجمالی صورت میں اس کتاب میں اشارہ کیا گیا ہے موسوعۃ الفلسفۃ العربیۃ؛ عزیزو! یہاں پر کہتے
ہیں دین اور سائنس کے درمیان تعلق میں
اختلاف کا منشا اولویت اور مرجعیت کا مسئلہ ہے؛ کیا کہتے ہیں؟ جب احکام میں ٹکراؤ
پیدا ہوتا ہے تو پہلا موقف یہ ہے کہ ایمان
یعنی دینی نتائج کو عیان یعنی سائنسی نتائج پر مقدم کیا جائے یہ ایک موقف ہے دوسرا
موقف: سائنسی نظریات اور تجربات کے نتائج کو ترجیح دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اس
کی بازگشت اس طرف ہے کہ بہت سے مسائل کہ جن میں ابتدائی تحقیق کرنے سے ایک دینی
عالم انکار کرتا ہے اس کے گمان میں اس سے دین کو نقصان پہنچے گا کیونکہ اس نے اسے
ہر چیز سے پہلے ایک ہمیشگی حقیقت کی طرح قبول کر لیا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ہم
سائنسی نتائج کو دینی مسائل پر مقدم کریں؛ (تیسری کاوش) یہ وہ ہے جس میں نظریہ
ارتقا و تطور اور دینی وحی کے درمیان مصالحت کی کوشش کی گئی ہے عزیزو! میری طرف
توجہ کیجئے؛ سب سے اہم عالم کہ جس نے اس کا ارادہ کیا ہے وہ یہ مرد ہے تفسیر جواہر
میں الجواھر فی تفسیر القرآن جس کی چھبیس
جلدیں ہیں طباعت بھی حجریہ ہے مجھے نہیں معلوم کہ نئی اشاعت آئی ہے یا نہیں الجواھر
عزیزو! وہ مقدمے میں واضح اور صریح صورت میں کہتے ہیں؛ بسم اللہ الرحمن الرحیم
(جلد اول) اما بعد، میں کائنات کے عجائب کا عاشق وفریفتہ ہو گیا اور طبیعت کے
شاہکاروں نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا، آسمان کے جمال کا شائق ہو گیا۔۔۔۔ ۔ تو
میں نے یہ کہنے کا ارادہ کیا کہ قرآن اس کے معارض ہے یا نہیں؟ تو میں نے قرآنی
آیات کو کس چیز کے بیان پر حمل کیا اس چیز کے مقدمے میں صراحت کرتے ہیں؛ جو
برادران اس بحث کی طرف مراجعہ کرنا چاہتے ہیں یعنی اس نقطہ نظر کی تشریح تو اس
کتاب میں ’’قراءۃ داروین فی الفکر العربی‘‘ ۱۸۶۰ (کہ جو اصل الانواع کے صدور کا وقت ہے) سے
۱۹۵۰ تک مؤلف: مروۃ الشاکری یہاں پر واضح طور پر یہ کہتی ہیں؛ میری طرف توجہ کیجئے
جی! صفحہ ۵۸۳ اس نے راستہ طے کیا (کس نے؟ یعنی اس نے، طنطاوی جوہری نے) میرے عزیز!
جواہری نہیں، بلکہ طنطاوی جوہری؛ اس کی تفسیر کا نام جواہری ہے وہ خود طنطاوی جوہری ہے جامعہ ازہر کے اساتذہ میں سے انہوں نے سائنس اور کتاب اللہ کے مابین ہم
آہنگی پر توجہ مرکوز رکھنے میں ثابت قدمی سے راستہ طے کیا ہے اور یہ وہ چیز ہے کہ
جس سے ان کی تفسیر واقعا دیگر تمام تفاسیر سے ممتاز ہو جاتی ہے وہ ہر سورہ کی
تفسیر میں (اسی امر کی طرف) دعوت دیتے ہیں ۔۔۔ ۔