مقالات و آراء

  • حضرت فاطمہ زہرا(ع) کا مقام اور مظلومیت مصادرِ اہل سنت کی روشنی میں1-3

  • بسم اللہ الرحمن الرحيم و بہ نستعين

    و الصلاة و السلام على سيدنا محمد و آلہ الطيبين الطاہرين

    میزبان: السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔

    میں عقائدی مباحث کے اس پروگرام میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں  جو خاص طور پر صدیقہ بتول حضرت فاطمہ زہراؑ کے یوم شہادت کے موقع پر پیش کیا جا رہا ہے، ہم نے گزشتہ دو پروگراموں میں حضرت فاطمہ زہراؑ کی شان اور مظلومیت پر ابتدائی گفتگو کی تھی،  اور ہم نے بعض احادیث پر بات کی جو آپ نے نقل کی ہیں،  کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ اس قسم کی بحثیں چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے جو فضائل حضرت زہراؑ اور آپؑ کی شان سے متعلق ہیں۔

    سید: أعوذ باللہ السميع العليم من الشيطان الرجيم، بسم اللہ الرحمن الرحيم وبہ نستعين والصلاة والسلام على محمّد وآلہ الطيبين الطاہرين.

    میں نے کل ذکر کیا کہ ایک تاریخی رجحان پایا جاتا ہے جو ان ہاتھوں پر ظاہر ہوا کہ جنہوں نے اہل بیت اور عترت طاہرہ کی سیرت و کردار کو مخفی کرنے کی کوشش کی اس (عمل) کی ابتدا حضرت زہراؑ سے ہوتی ہے اور پھر امیرالمومنینؑ سے ہوتے ہوئے باقی آئمہؑ تک جا پہنچتا ہے؛ بلکہ ان ہاتھوں اور اس روش اور اس تفکر نے یہ کوشش کی کہ اس ہستی اور ان ہستیوں اور اس گھر کو دور کر دیں؛ جس کے بارے میں قرآن کریم نے یہ تعبیر استعمال کی ہے؛ کہ یہ طاہر و مطہر ہیں؛ { وَيُطَھرَكُمْ تَطْھيرًا } ان لوگوں کا یہ عزم  تھا کہ اس امت کے ذہن سے ان ہستیوں کو محو کر دیں؛  اور میرا خیال ہے کہ اس تفکر اور اس فکر کے مظاہر عصر حاضر میں بھی موجود ہیں؛

    کوئی شخص کہ سکتا ہے: جناب سید! آپ کس بنیاد پر یہ کہہ رہے ہیں؟

    میں کہوں گا: کل آپ نے دیکھا کہ ایک ٹیلیفون کال کرنے والے صاحب نے؛ صرف یہ کہ ہم نے بعض صحیح اور واضح دلالت رکھنے والی اور علمائے مسلمین کی مورد اجماع روایات کا جائزہ لیا؛ جو سیدہ نساء العالمین کی شان اور مناقب کے بیان میں تھیں؛ وہ صاحب فوری آن پہنچے اور کہنے لگے کہ اس بات کو بڑا بنا کر کیوں پیش کیا جا رہا ہے؛  اور میرا خیال ہے کہ یہ (التھویل) کا لفظ اس پاکیزہ گھرانے کے ساتھ دشمنی اور ناصبیت کا خفیف لغت کیساتھ اظہار ہے؛

    میں اس بھائی پر تہمت نہیں لگا رہا؛ جس نے بات کی تھی؛ نہیں، نہیں بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس معاشرتی رجحان نے ان لوگوں کو یہ تلقین کی ہے؛ کہ صرف علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ و حسینؑ اصحاب کساء کا نام لینے سے؛ فوری ذہن میں یہ آتا ہے کہ گویا غلو کیا جا رہا ہے؛ ان لوگوں کے دلوں میں ایک قسم کی نفرت پیدا ہونے لگ جاتی ہے؛ کہ یہ لوگ اس امر پر کیوں اصرار کر رہے ہیں کوئی شخص دخل اندازی شروع کر دیتا ہے؛ یا کوئی دوسرا فون کرنے لگتا ہے۔

    اور آپ نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا کہ یہ جو فضائل آپ بیان کر رہے ہیں یہ فلاں خاتون میں موجود ہیں اور فلاں میں موجود ہیں! اس کے خیال میں گویا ہم یہاں دوسروں کی نفی کر رہے ہیں؛ مجھے نہیں معلوم کہ یہ چیز کیوں رائج ہے؟

    اور یہاں میں اشارہ کرنا چاہتا ہوں؛ عزیزو! اس رجحان پر توجہ کریں : یہی لوگ کہ جب طلقاء کے بارے میں بات کی جائے؛ معاویہ کے بارے میں اور طلقاء کی اولادوں کے بارے میں بات کی جائے، یزید جیسوں کے بارے میں کہ جو شراب نوشی کیا کرتے تھے اور انبیاء کی اولاد کو قتل کرتے تھے اور خود کو امیر المومنین کہلواتے تھے؛ تو کوئی نہیں ہوتا کہ جو نکل کر کہے کہ یہ ’’تھویل‘‘(بڑا بنا کر پیش کرنا) کیوں ہے؟!

    میزبان: حتی یزید کے بارے میں!

    سید: ہاں! ہاں، کتابیں لکھی گئی ہیں کہ وہ امیر المومنین ہے، معاویہ کے بارے میں بھی ایسا ہے؛ کیا وہ طلیق اور ابن طلقاء نہیں ہے؟!  کیا اس نے اپنے امام وقت کے خلاف خروج نہیں کیا؟  کیا وہ وہی نہیں ہے جسے رسول اللہ ﷺنے باغی گروہ کہا؛ تم خدا کو حاضر ناظر جان کر بتاؤ ؛ اگر کوئی ایسی حدیث ہوتی خواہ ضعیف السند ، جس میں علیؑ کو باغی گروہ کا نام دیا گیا ہوتا تو کیا تم کچھ باقی رہنے دیتے؟!

    جبکہ ان کی شان میں یہ سب کچھ (فضائل)وارد ہوا ہے؛ اس کے باوجود تم ان سے بغض رکھتے ہو؛ تو تم کیا کرتے اگر ان کے بارے میں کوئی ایسی چیز وارد ہوئی ہوتی؛ مگر یہ بڑا بنا کر پیش کرنا نہیں ہے کہ طلقاء اور ان کی اولاد اور شراب نوشی کرنے والوں اور اولاد انبیاء کو قتل کرنے والوں کو امیر المومنین کہا جائے!

    عزیزو! میں اس سوال کا جواب ان مطالب کے ذریعے دینا چاہتا ہوں جسے علم حدیث کے ایک امام نے ذکر کیا ہے؛ اور وہ ہیں "حاکم نیشاپوری”۔

    حاکم نیشاپوری کہتے ہیں: ہم تیسری اور چوتھی صدی میں زندگی بسر کر رہے ہیں وہ اپنے آپ سے یہ سوال کرتے ہیں؛  کہ فاطمہ زہراؑ کے فضائل کا ذکر کیوں ہے؟! میں اس موضوع پر کیوں لکھوں؟ واقعا اس زمانے میں  یہ صورتحال تھی اور یہ جو میں کہہ رہا ہوں اس کے آثار زمانہ حاضر تک موجود ہیں۔

    عزیزو! توجہ کریں؛ کیا کہہ رہا ہے، یہ مرد اہل سنت کے بڑے علماء میں سے ایک ہے؛ دیکھیں! کیا کہہ رہا ہے، بعض کہتے ہیں کہ جناب سید! آپ فرق کیوں کرتے ہیں آپ علمائے اہل سنت اور اموی تفکر ابن تیمیہ، اس کے پیروکاروں، وہابیت اور سعودی عرب کے علماء کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں  آپ کہتے ہیں کہ یہ ایک جہت ہے اور وہ ایک دوسری جہت ہے عزیزو! توجہ کیجئے، یہ کتاب کے صفحہ (تیس اور اکتیس) پر کیا کہتے ہیں؛

     میں عزیزوں کا کچھ وقت لوں گا لیکن یہ اہم ہے؛

    کہتے ہیں: امام حاکم کہتے ہیں کہ میں اللہ کی حمد سے ابتدا کرتا ہوں اور اسی سے ہدایت کا طالب ہوں اور اس کی توفیق پر اکتفا کرتا ہوں اور میں صلوات بھیجتا ہوں محمدؐ پر جو نبی ہیں اور آپؐ کی آل پر، جب بھی ذکر کرنے والے ان کا ذکر کرتے ہیں اور غافل ان سے غافل ہوتے ہیں۔

    میزبان: اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس زمانے میں بھی غافل تھے؟!

    سید: توجہ کیجئے، (جب بھی ذکر کرنے والے ان کا ذکر کرتے ہیں اور غفلت کرنے والے ان سے غافل ہوتے ہیں) یہ امر منشا ہے کہ انہوں نے حضرت فاطمہ زہراؑ کے فضائل کے بارے میں لکھنا شروع کیا۔

    ہمارے زمانے نے ہمیں ایسے حکمرانوں کے دور میں لاکھڑا کیا ہے کہ لوگ آل رسول کے بغض کے ذریعے ان کا قرب حاصل کرتے ہیں۔

    عزیزو!  تیسری اور چوتھی صدی میں یہ ایک رجحان تھا اور میں نے کہا کہ اس کے اثرات ابھی تک موجود ہیں جو بھی انہیں کوئی درخواست پیش کرتا ہے تو وہ آل کے بارے میں ایسی باتیں ذکر کر کے درخواست کرتا ہے کہ جن سے اللہ نے انہیں پاک اور بری رکھا ہے اور ہر فضیلت کہ جو ان کے فضائل میں ذکر کی جاتی ہے، کا انکار کر کے درخواست کرتا ہے۔

    کہتے ہیں: بنیادی طور پر ایک مکتب فکر تھا کہ جس چیز کا تعلق بھی اہل بیتؑ کے فضائل سے ہو اسے بالضرور امت کی یادداشت سے محو کر دیا جائے (اس پر اللہ سے مدد طلب کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ محمد وآل محمد پر درود بھیجے اور خوارج کے بدلے ہمیں بہتر حاکم عطا فرمائے) خوارج سے ان کا مقصود نواصب ہے، ان کی مراد اصطلاحی خوارج نہیں ہے۔

    (جو چیزیں اس رسالے کی تحریر کا باعث بنی) سبب! کہ یہ رسالہ میں نے لکھا؛

    آپ فضائل میں کیوں لکھ رہے ہیں؟کیا کوئی ایسا بھی ہے جو آپ سلام اللہ علیھا کے فضائل کا انکار کرتا ہو کہ آپ کو کچھ لکھنا پڑے؟

    کہتے ہیں: میں ایک محفل میں حاضر ہوا کہ جہاں بڑے بڑے فقہا، قاضی اور معتبر لوگ تشریف فرما تھے پس یہ محفل کس کی تھی؟ علم، فقہ، قضاوت اور بہترین تعبیر کے مطابق ممتاز علمی شخصیات کی محفل تھی۔ (ان کے سامنے امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ کا تذکرہ ہوا تو ایک بڑے فقیہ نے اعتراض اٹھایا کہ علیؑ کو قرآن حفظ نہیں تھا) یہ چیز مسلمات میں سے ہے؛ علیؑ کا  قرآن سے کیا تعلق ہے !

    وہ علیؑ جو قرآن سے جدا نہیں ہیں اور قرآن ان سے جدا نہیں ہے؛ وہ علی جن کے بارے میں رسول اللہؐ نے فرمایا ہے: «تركت فيكم كتاب الله وعترتي» اور علیؑ ان میں سے ہیں ؛ یہ دونوں جدا ہرگز جدا نہیں ہوں گے انہیں قرآن حفظ نہیں ہے ؟!

    اور اس شعبی نے اس کی تصریح کی ہے ؛ شعبی کے بارے میں کیا مشہور ہے؟

    میزبان: کہ وہ ناصبی ہے؛

    سید: بہرحال وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: شعبی کے علاوہ کچھ اور نے بھی ایسا کہا ہے مگر صحابہ جو شعبی سے زیادہ اس امر کے بارے میں علم رکھتے تھے انہوں نے آپؑ کے حفظ قرآن کی شہادت دی ہے اور تابعین کے سید القراء ابو عبد الرحمن سلمی نے آپؑ کی خدمت میں قرآن کی قرائت پیش کی ۔

     پھر اسی مجلس میں بنات نبیؐ کا تذکرہ شروع ہو گیا؛ زینب، رقیہ، ام کلثوم؛ بعض نے کہا: راوی منکر ہیں کہ یہ خدیجہؑ کی رسول اللہؐ سے بیٹیاں تھیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں مشہور یہی تھا کہ یہ رسول اللہﷺ کی بیٹیاں نہیں ہیں؛ اور یہی امر درست ہے؛

    حاکم کہتے ہیں : وہ بھی خدیجہ کے بطن سے آپؐ کی بیٹیاں ہیں مگر فاطمہؑ کا ذکر روایات میں زیادہ مشہور ہے اور ان کے روایات میں فضائل بہت زیادہ ہیں۔

    ایک شخص نے میری بات کاٹ دی کہ جو پہلے میرے پاس (حصول علم کیلئے) آیا کرتا تھا وہ حاکم کا شاگرد تھا اور ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا عرصہ دراز تک میری صحبت میں رہا۔

    وہ فوری طور پر محفل میں کھڑا ہو گیا اور میری بات کاٹ دی!

    حاکم کہتے ہیں: اس کا سبب یہ تھا کہ وہ ناصبیت دکھا کر بعض حاضرین کا قرب حاصل کرنا چاہتا تھا۔

    سید: یہ علمی محافل تھیں، یہ کن لوگوں کی محفلیں ہوا کرتی تھیں؟

    میزبان: پڑھی لکھی اور ممتاز شخصیات کی؛

    سید: حکومت کی برجستہ و نمایاں شخصیات؛ جیسا کہ آج ہمارے یہاں سیٹلائیٹ ٹی وی چینلز پر ایسے لوگ ظاہر ہوتے ہیں کہ جن کی داڑھیاں اس طور ہوتی ہیں، پگڑیاں یوں ہوتی ہیں اور ان کے القاب میں (نام سے) پہلے پچاس کلمے اور بعد میں تیس کلمے ہوتے ہیں؛ انہیں آپ کیا پائیں گے؟! یہ بالکل ویسے ہی لوگ ہیں مگر دوسری روشوں کیساتھ اور دوسرے عناوین کیساتھ جن عناوین کو ذکر کیا جاتا ہے کہ جناب! اتنا بڑا بنا کر کیوں پیش کیا جا رہا ہے؟!دختر مصطفیٰ کی بیٹی کی اتنی تعظیم کیوں؟!

    حالانکہ ہم اپنی جانب سے تعظیم نہیں کرتے ؛ انہی چیزوں کو ذکر کرتے ہیں کہ جنہیں سید کونینﷺ نے ذکر کیا ہے۔

    کہتے ہیں: میرے پاس طولانی مدت تک حاضر ہونے والے ایک طالب علم نے میری بات کاٹ دی تاکہ وہ ناصبیت کا اظہار کر کے بعض حاضرین کا قرب حاصل کر سکے اور کہنے لگا کہ محمد بن اسماعیل بخاری نے کہا ہے جنہوں نے جامع صحیح میں عروۃ بن زبیر کی حدیث نقل کی ہے،انہوں نے اسامہ بن زید سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: میری سب سے بہتر بیٹی زینب ہے!

    میزبان: پس فاطمہؑ کا یہ مقام نہیں ہے اب تم کیوں شور مچا رہے ہو ہماری عراقی تعبیر کے مطابق ’’خابصین فاطمۃ‘‘  یعنی اب کیوں، فاطمہؑ فاطمہؑ کر رہے ہو؟

    یہاں سے وہ ایک مفصل بحث میں داخل ہوتے ہیں!

    حاکم نیشا پوری کہتے ہیں: میں نے اس سے بحث کی کہ خوب! بخاری نے کہاں پر کہا ہے؟! معلوم ہوا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے؛ بخاری پر جھوٹ باندھ رہے ہیں؛ بخاری کی طرف جھوٹی نسبت دے رہے ہیں تاکہ فاطمہؑ پر طعن کر سکیں

    میرے عزیزو! یہ ابحاث ٹھوس قرآنی عقائد اور ٹھوس دینی عقائد میں سے شمار ہوتی ہیں کہ ہم شخصیات کو پہچانیں؛ کیا آپ سب مسلمان اصرار نہیں کرتے کہ ان نمایاں لوگوں کو پہچانیں جو رسول اللہؐ کے اردگرد تھے؛ کیا رسول اللہ کے اہل بیتؑ سے زیادہ ان کے کوئی قریب تھا؟ کہ جن سے اللہ نے رجس کو دور رکھا اور انہیں پاک و پاکیزہ رکھا۔

    اور یہ امر ان مباحث کو شروع کرنے کی دلیل ہے!

    • تاریخ : 2019/03/18
    • صارفین کی تعداد : 2598

  • خصوصی ویڈیوز