مقالات و آراء

  • علامہ حیدری کا مقاماتِ حضرت خاتم الانبیا(ص) کے بارے میں نظریہ

  • حضرت پيغمبر اکرم(ص) اور آئمہ اہل بيت(ع) کے مقامات کا اہم ترين پہلو يہ ہے کہ آپ(عليھم السّلام) فيض الہٰی کا واسطہ ہيں اور تمام وہ مقامات جو پيغمبر اکرم(ص) اور آئمہ (ع)کے ليے ذکر ہوئے ہيں اس اصلی مقام کی شاخيں ہيں. ورنہ اگر ہم حضرت خاتم الانبيا و المرسلين(ص) کے اس مقام کو ثابت نہ کر پائے تو بہت ساری ايسی چيزيں جو ان کی شان ميں ذکر ہوئی ہيں؛ قابل اثبات نہيں رہيں گی ۔ اگر يہ اصل ثابت ہو گئی کہ پيغمبر (ص)، قوسِ نزول ميں صادرِ اوّل ہيں يعنی خداوند متعال کی سب سے پہلی مخلوق، يہی مقدّس وجود اور نور تھا اور پھر اس نے ان سے ہر خير کو خلق کيا؛ اس معنی ميں کہ اس عالَم تک کوئی خير ، وجود اور وجودی کمال پہنچ ہی نہيں سکتے جب تک اس واسطے سے عبور نہ کرے۔
    اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ واسطے اور آلے ميں فرق ہے بے شک واسطہ ايک ارادی وسيلہ ہے ؛ ليکن آلہ يقيناً ايک غير ارادی وسيلہ ہے۔ واسطہ وسيلہ ہے ليکن ايک ارادی موجود ہے نہ کہ غير ارادی اور طبيعی موجود ، اسی وجہ سے علما واسطے اور آلے کے درميان فرق کے قائل ہيں ۔ البتہ يہ صرف نزول ميں نہيں ہے بلکہ صعود ميں بھی يہی ہے جيسا کہ قرآن کريم صراحت سے کہتا ہے ” : ہم تو اللہ ہی کے ہيں اور ہميں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے” ۔ کيونکہ جيسے خلقت کا خداوند متعال سےآغاز ہوا ہے،تو اسکی بارگاہ ميں واپس بھی جائے گی اور چونکہ ہم قوسِ صعود ميں ہيں "اچھے اور پاکيزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہوتے ہيں” ابھی ميں عقلی قواعد کی طرف نہيں جا رہا ليکن چونکہ قرآن کريم نے فرمايا ہے:”اور جس طرح اس نے تمہاری(خلقت کی) ابتدا کی اسی طرح تم (اس کے حضور) پلٹ کر جاؤ گے ” ، اس بنا پر وہی ترتيب جو قوسِ نزول ميں تھی ، وہی قوسِ صعود ميں بھی ہے پس اگر نزول ميں خاتم الانبياء کا وجود و نور اوّل تھا ، صعود ميں آخری ہوگا کيونکہ جس مقام سے آيا ہے ، بالضرورہ اسی کی طرف پلٹے گا اس مقام سے جو بلاشبہہ صادرِ اوّل ہے ، آيا ہے اور اسی کی طرف لوٹ بھی جائے گا۔ اسی وجہ سے کہا گيا ہے: بے شک غايتيں (انجام) سرِآغاز تک پہنچنے کا نام ہيں ہر موجود کی غايت(سرانجام) کيا ہے ؟ يہ ہے کہ وہ اپنے سرِآغاز تک پہنچ جائے اور چونکہ وہ صادرِ اوّل ہے، پس اس کا سرانجام بھی يہ ہے کہ اپنے سرآغاز جو صادر اوّل ہے؛ تک جا پہنچے ۔
    وہ خاتِم بھی ہيں اور خاتَم بھی يہ خاتميت کے معانی ميں سے ايک ہے اس کے معانی ميں سے ايک يہ ہے کہ آپ(ص) خاتم انبياء (انبياء ميں سے آخری) ہيں ۔ اس کے معانی ميں سے ايک يہ بھی ہے کہ آپ(ص) قوسِ صعود ميں تمام مقامات کے خاتم ہيں اور يہ کہ (بالآخر سب کو)آپ کے رب ہی کی طرف پہنچنا ہے نہ يہ کہ عاقبتِ کار ربّ العالمين کی طرف ہے ، بلکہ اے رسول اللہ (ص) ! عاقبتِ کار آپ(ص) کے پروردگار کی جانب ہے يہ ہے قرآن کريم ليکن افسوس ہے کہ ہم اس ميں تدبّر نہيں کرتے. قرآن کريم نہيں کہہ رہا کہ عاقبتِ کار رب العالمين کی طرف ہے بلکہ کہتا ہے : اے رسول خدا ! "عاقبتِ کار آپ کے رب ہی کی طرف ہے” ۔ اے رسول خدا(ص)! منتہائے مقامات آپ(ص) پر ہے ۔
    يہ خاتم الانبيا کے بارے ميں ميرا عقيدہ ہے. ميں خاتم الانبيا و المرسلين(ص) کے مقامات کے بارے ميں اس عقيدے پر ايمان رکھتا ہوں ۔ قرآن کريم اس حوالے سے صراحت کے ساتھ بيان کر رہا ہے ، البتہ ميں اپنی فہم کے مطابق صريح کہہ رہا ہوں؛ شايد کوئی دوسرا شخص کہے کہ نہيں ! يہ اس چيز پر بالکل دلالت ہی نہيں کر رہا وہ اظہار رائے ميں آزاد ہے ۔ ميں يہ دعوی نہيں کرتا کہ ان مسائل ميں کسی قسم کی بحث و تحقيق کی گنجائش نہيں ہے ، ميں کہتا ہوں کہ ميرا عقيدہ ، فہم ، اجتہاد اور نظريہ يہ ہے قرآن کريم کو ديکھيے ، اس حوالے سے جن اہم ترين آيات سے استدلال کيا جا سکتا ہے ان ميں سے ايک سورہ مبارکہ بقرہ کی آيت نمبر ۳۰ ہے ، جو آيہ خلافت کے عنوان سے مشہور ہے فرماتا ہے :”اور (وہ وقت ياد کريں) جب آپ کے ربّ نے فرشتوں سے فرمايا کہ ميں ـ ـ ـ ـ "، يہاں علمائے لغت اور مفسرين ميں ايک بحث ہے کہ کس وجہ سے خداوند قرآن کريم ميں کبھی فرماتا ہے : «إنّي» (ميں) اور کبھی فرماتا ہے : «إنّا» (ہم) "بے شک ہم نے خود اس قرآن کو نازل کيا ہے اور يقينا ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہيں "شايد انہوں نے استقرا کی بنياد پر کہا ہے کہ جہاں واسطہ نہ ہو وہاں «إنّي» (ميں) کی تعبير کو استعمال کيا گيا ہے اور جہاں واسطہ ہو، جمع کا لفظ استعمال کيا ہے : «إنّا» (ہم) اور چونکہ يہاں «إنّي» (ميں) کی تعبير لائی گئی ہے اور ديگر شواہد بھی موجود ہيں ، پس يہ فعل اس کا براہ راست فعل تھا ، يہ کہ قرآن کريم ميں آيا ہے : "اپنے دست قدرت کے ساتھ” "ميں زمين ميں اپنا نائب مقرر کرنے والا ہوں” اب يہ تقرّری کس قسم کی ہے ؟ البتہ ميری ايک کتاب ہے "الاسم الأعظم حقيقتہ و مظاہرہ” ۔ فرمان الہٰی ہے : اور اللہ نے آدم (عليہ السّلام) کو تمام (اشياء کے) نام سکھا ديئے” ہم نے اس کتاب ميں واضح کر ديا ہے کہ يہاں آدم سے مراد ابوالبشر حضرت آدم(ع) نہيں ہيں ۔ ہم نے اس کتاب ميں واضح کر ديا ہے کہ يہاں آدم سے مراد ابو البشر حضرت آدم(ع) نہيں ہيں وہ صادر اوّل ہے ، کس قرينہ کی بنياد پر؟ ” اور اللہ نے آدم (عليہ السلام) کو تمام (اشياء کے) نام سکھا ديئے پھر انہيں فرشتوں کے سامنے پيش کيا….” يہاں تک کہ فرمايا : اے آدم! (اب تم) انہيں (فرشتوں کو) ان اشياء کے ناموں سے آگاہ کرو ۔
    در نتيجہ فرشتوں نے خدا سے براہ راست ليا ہے يا اس آدم کے ذريعے؟ الملائکۃ کا الف لام بھی جمعِ محلّی بالالف و اللام(جمع پر داخل ہونے والا الف لام) ہے۔ يعنی تمام فرشتے خدا سے واسطے کے ذريعے ليتے ہيں يا بلا واسطہ ؟ واسطے سے واسطہ کون تھا ؟ يہ آدم ليکن جب آدم تک پہنچا ، واسطے اور امينِ وحی وغيرہ کی بات نہيں تھی ، فرمايا : آدم (عليہ السلام) کو تمام (اشياء کے) نام سکھا ديئے ” معلم کون تھا ؟ خود خدا ، پس ايک ايسا قرآنی موجود ہے جس نے بغير واسطہ کے خدا سے تعليم حاصل کی ہے اور سب نے اس کے واسطے سے سيکھا ہے ۔ اور ممکن نہيں ہے کہ وہ موجود ابو البشر آدم(ع) ہوں کيونکہ اس کا لازمہ يہ ہے کہ حضرت خاتم (ص) نے بھی ايسے آدم سے سيکھا جو اولوالعزم انبيا ميں سے نہيں تھے ۔ "اور ہم نے ان(آدم) ميں عزم و ثبات نہيں پايا” يعنی خاتم الانبيا اور تمام اولوالعزم انبيا(ع) کا معلم کون ہو گا ؟ وہ پيغمبر جو خود اولوالعزم پيغمبروں ميں سے نہيں تھا کوئی بھی اس کو قبول نہيں کر سکتا.

    • تاریخ : 2016/02/10
    • صارفین کی تعداد : 1112

  • خصوصی ویڈیوز