مقالات و آراء

  • آئمہ اہل بیت (ع) کا دوسروں کے مقدسات کی توہین کے بارے میں موقف(۱)

  • دوسروں کے مقدسات کو گالی دينے اور ان کی توہين کے بارے میں آئمہ اہل بيت(ع) کا موقف اور نقطہ نظر جیسا موضوع درحقيقت ميرے خيال ميں نہ صرف يہ کہ پورے ايک پروگرام کو مختص کيے جانے کے لائق ہے بلکہ اس کے ليے کئی پروگراموں اور طولانی ساعتوں کی ضرورت ہے ۔اس وقت ہم ديکھ رہے ہيں کہ بعض چينل کہ جن کی طرف ہم اشارہ نہيں کرنا چاہتے ،خواہ سنی چينل ہوں يا شيعہ چينل ؛البتہ الحمدللہ يہ طرز تفکّر اہل سنت کے تمام دعويداروں يا تشيّع اور مکتب اہل بيت(ع) کی پيروی کا دعویٰ کرنے والے تمام افراد کا جلوہ نما اور ترجمان نہيں ہے ۔بلکہ بعض گنے چنے چينل گوشہ و کنار ميں کوشش کر رہے ہيں کہ اس ثقافت ، يعنی گالم گلوچ کی ثقافت ، توہين کی ثقافت ، تکفير کی ثقافت ، دوسروں کے انکار کی ثقافت ،دوسروں کو اسلام اور ملت اسلاميہ سے خارج کرنے کی ثقافت ، بغص و کينے کی ثقافت ، فتنے کی ثقافت اور بحران کی ثقافت کو ايجاد کريں ۔
    گزشہ ہفتے ميں نے کہا کہ يہی وہ موضوع ہے کہ جو اس وقت مسلمانوں کے درميان اختلاف اور فتنہ ڈالنے کے ليے دشمنانِ اسلام کا ہتھيار اور لائحہ عمل ہے۔اس بنا پر ميرے عزيزو! وہ چينل جنہيں ہم نے گزشتہ ہفتے فتنہ پرور اور بحران ساز چينلوں کا نام ديا تھا ؛الحمدللہ! انسان جس وقت ان چينلوں کو ديکھتا ہے تو درک کر ليتا ہے کہ ان کے مقررين ميں سے کوئی ايک بھی اہل علم نہيں ہے ۔ بلکہ کچھ غير معروف لوگوں کا ايک ٹولہ ہے کہ جن کا علم اور علمی قواعد کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی معروف ريکارڈ نہيں ہے ۔اور ان کے پاس نہ کسی کا اجازہ ہے اور نہ کسی نے ان کی تائيد کی ہے اور نہ ان کی کوئی حيثيت ہے۔ تمام مسلمان اور مومنين اپنے مراجع سے سوال کر سکتے ہيں ،تاکہ يہ ديکھ سکيں کہ کيا وہ ان افراد کی تائيد کرتے ہيں يا نہيں؟ آپ ديکھيں گے کہ اس حوالے سے اجماع پايا جاتا ہے۔ سوائے ان بعض اشخاص کے جو اشتعال انگيز، بحران ساز اور تکفيری فتووں کے حوالے سے مشہور ہيں کہ جنہيں اس وقت ہم سعودی عرب ، عراق ، شام اور شمالی افريقہ وغيرہ ميں ديکھ رہے ہيں۔
    لہذا ميرے عزيزو! اگر محترم ميزبان اور ناظرين اجازت ديں ميں کچھ منٹ اس مسئلے پر گفتگو کروں گا تاکہ يہ ديکھيں کہ بطور کلی آئمہ اہل بيت (ع) کی گفتار و کردار دوسروں کے مقدسات کی توہين کے بارے ميں کيا ہے؟! اب يہ توہين جس عنوان اور جس شکل ميں بھی ہو آيا مکتب اہل بيت(ع) کے پيروکاروں کو اجازت ہے کہ دوسروں کے مقدسات کی توہين کريں؟ سب سے پہلے مکتب اہل بيت(ع) کے پيروکاروں کو مخاطب کيا جا رہا ہے۔ ميں بھی انہی کے ساتھ بات کر رہا ہوں کيونکہ دوسروں کے اپنے مخصوص مراجع و علما ہيں ،ميرے مخاطب وہ لوگ ہيں جو ان بحران ساز اور نادان چينلوں کو ديکھتے ہيں۔ ميں صراحت کے ساتھ کہتا ہوں کہ آئيے اپنے آئمہ (ع) کے کردار پر نگاہ دوڑائيں ،يہاں ميری بحث اس طرز عمل کے جائز يا ناجائز ہونے کے بارے ميں نہيں ہے ، ميری گفتگو ايسے طرزِ عمل کے بارے ميں ہے جو دوسروں کے نزديک توہين، گالی، کيچڑ اچھالنے اور انکے مقدسات کی توہين کے زمرے ميں آتا ہے ۔ کيا ہم اس قسم کا طرز عمل اختيار کر سکتے ہيں يا نہيں ؟
    ميرے عزيزو! مل کر آئمہ اہل بيت(ع) کے کلام کو پڑھتے ہيں۔ پہلی حديث کو اصول کافی ، کتاب ” الروضۃ ” ميں اس روايت کو مرآۃ العقول سے علامہ مجلسی کی تشريحات کے ساتھ پيش کروں گا؛ پبلشرز "دار الکتب الاسلاميۃ”، پہلی روايت کتاب”الروضۃ” سے ہے۔ مقدمے میں یہ اشارہ ضروری ہے کہ علامہ مجلسی اس روايت کو سند کے لحاظ سے معتبر قرار ديتے ہيں۔البتہ اس کے راويوں ميں سے ايک يعنی "محمد بن سنان” ميں اشکال ہے اور محمد بن سنان کی بعض بڑے شيعہ علما جيسے "مامقانی” وغيرہ نے تائيد کی ہے۔ اور محمد بن سنان کی توثيق کے بارے ميں ميری ايک اہم رجالی تحقيق بھی ہے۔اس روايت ميں ہے کہ محمد بن يعقوب نے کہا: علی بن ابراہيم نے اپنے والد سے، انہوں نے ابن فضال سے اور انہوں نے حفص المؤذن سے، اور انہوں نے امام صادق(ع) سے اور دوسری سند ميں محمد بن اسماعيل بن بزيع سے انہوں نے محمد بن سنان سے، انہوں نے اسماعيل بن جابر سے اور انہوں نے ابو عبد اللہ امام صادق(ع) سے ميرے ليے نقل کيا ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنی کتاب کے حاشيہ ميں پہلی حديث کو تين اسناد کے ساتھ نقل کيا ہے کہ جن ميں سے پہلی مجہول ، دوسری ابن سنان کی وجہ سے اوروں کے نزديک ضعيف ہے ليکن ميرے نزديک معتبر ہے اور يہ صحيح ہے۔
    ليکن خط کا متن جس کو ميں پڑھنا چاہتا ہوں کيا ہے ؟ کہتے ہيں : امام صادق(ع) نے يہ خط اپنے اصحاب کے ليے لکھا ہے اور انہوں نے ان کو حکم ديا ہے کہ اس کو ياد کريں ، اس کو پڑھيں اور اس پر عمل کريں۔ پس وہ اس خط کو اپنی جائے نماز ميں رکھتے تھے اور جس وقت نماز سے فارغ ہوتے تھے اس کو ديکھتے تھے۔ يعنی ايک مکمل سماجی ، سياسی ، فکری اور عقائدی منشور؛ ايک ايسا منشور جو دوسروں کے ساتھ پيش آنے کے طريقہ کار کے بارے ميں ہے۔ لہٰذا يہ واضح ہو گيا ہے کہ يہ خط بہت زيادہ اہم ہے۔ اور ميں عزيزو کو نصيحت کرتا ہوں کہ اس خط کو پڑھيں ہم بھی ايک ساتھ اس خط کا کچھ حصّہ پڑھيں گے: صفحہ نمبر 16 پر امام صادق(ع) فرماتے ہيں: "خدا کے دشمنوں کو گالی دينے سے پرہيز کرو” یہ جملہ بلاقيد و شرط ہے ؛ مخالف، غير مخالف، شيعہ ، سنی ، عيسائی، آرتھوڈيکس اور بودائی کی بات نہيں ہے جو کوئی بھی ہو۔ پس کوئی يہ اعتراض نہ کرے کہ امام(ع) نے دشمنوں کے ساتھ کوئی قيد ذکر نہيں کی۔اتفاق ہے کہ دشمن کی تعبير استعمال کی ہے۔ دوسرے لفظوں ميں، امام ہميں سکھانا چاہتے ہيں کہ ہماری منطق گالی اور لعن وغيرہ کی منطق نہيں ہے۔ خدا کے دشمنوں کو گالی دينے سے پرہيز کرو جب وہ تمہيں سن رہے ہوں۔
    غور کيجئے! بعض کہتے ہيں کہ اس بنا پر امام صادق(ع) کی گفتگو کا معنی يہ ہے کہ سرعام گالی نہ دو ليکن بطور مخفی اور اپنے دل ميں يہ کام کر سکتے ہو۔ اب حتی اگر ہم اس نقطہ نظر کی تائيد کر ديں اگرچہ يہ درست نہيں ہے۔ پس تم کيوں امام صادق(ع) کی پيروی نہيں کرتے۔ آپ لوگ جو سيٹلائيٹ چينلوں پر کھلے عام گفتگو کر رہے ہو؟ مذکورہ نقطہ نظر کے مطابق تو تمہيں گھروں کو جانا چاہئيے۔ اس نقطہ نظر کی بنياد پر يہ شرط ہے کہ دشمن تمہاری آواز کو نہ سن پائيں؛ بہت خوب! يہ شرط لازم ہے ليکن ديکھيے کہ علامہ مجلسی کيا فرماتے ہيں اور ان کی بات درست ہے! وہ حاشيہ ميں فرماتے ہيں : لفظ "يسمعون” کو ياء پر ضمہ کے ساتھ بھی پڑھا جاسکتا ہے يعنی "يُسمعونکم” نہيں بلکہ "حيث يسمعون” ہے يہاں پر يہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ لغت ميں "يَسمع” اور "يُسمع” کے مابين کيا فرق ہے؟

    اس کا جواب کتاب مفردات الفاظ القرآن ميں ہے ، تاليف : علامہ راغب اصفھانی ، تحقيق : صفوان عدنان داؤودی ، کتاب مفردات جو معروف ہے۔ صفحہ نمبر 425 پر کہتے ہيں: أسمع گالی دينے کے معنی ميں ہے۔اگر آپ کسی کو گالی ديں تو کہيں گے:”أسمعت فلانا”اس بنا پر حديث کا معنی يہ ہوگا کہ اگر وہ تم کو گالی ديں ! يعنی آپ کو يہ حق نہيں ہے کہ خدا کے دشمنوں کو گالی ديں حتی کہ اگر وہ آپ کو برا بھلا کہيں تب بھی اور کہاں يہ کہ انہوں نے آپ کو گالی نہ دی ہو کيوں؟! کيونکہ ہم اس آيت پر عمل کرتے ہيں جو يہ فرماتی ہے کہ بری بات کے جواب ميں ايسی بات کہو جو نہايت اچھی ہو حکمت اور اچھی نصيحت کے ساتھ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت ديں۔ يہ ہے قرآن کی منطق و سرشت ، يہ ہے اہل بيت کی منطق و سرشت جو قرآن کے ہمتا و ہم پلہ ہيں۔اس وجہ سے علامہ مجلسی فرماتے ہيں اور اس کلمہ کو "يا” کے فتحہ کے ساتھ بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ اَسمعہ يعنی اس نے اسے گالی دی، يعنی اگر کسی نے تمہيں گالی دی ہے تو اس کے پيشواؤوں کو گالی مت دو ؛اور کہاں يہ کہ کوئی آپ کے مقدّسات کا احترام بھی کرتا ہو۔ آپ کو خدا کا واسطہ! اس منطق پر توجہ کريں اب کيوں ؟ اے فرزندِ رسول خدا! کيوں انہيں گالياں نہ ديں ؟ کيوں ان کی توہين نہ کريں ؟ کيا آپ کے فرمان کے مطابق وہ خدا کے دشمن نہيں ہيں ؟ کيا وہ ہماری توہين نہيں کرتے؟ عصر حاضر کے سلفيوں کی ايک برکت يہی ہے کہ انہوں نے اہل کتاب کو گالی دينے اور ان کی توہين کرنے کا آغاز کيا ہے۔ اور اب ہم ديکھ رہے ہيں کہ فلميں، کتابيں اور دوسرا مواد رسول اللہ(ص) کی توہين کيلئے تيار کيا جا رہا ہے! يہ ايک فطری نتيجہ ہے اور اسی وجہ سے امام صادق(ع) نے فرمايا: اگر يہ کام کرو گے تو وہ بھی دشمنی اور نادانی کی وجہ سے خدا کو برا بھلا کہيں گے۔امام اپنی بات کو مزيد واضح کرتے ہيں، ضروری ہے کہ ان کے خدا کو برا بھلا کہنے کی حدود کو سمجھيں وہ اس وقت تو خدا کو گالی نہيں دے رہے فرماتے ہيں: وہ اللہ کے اوليا کو برا بھلا کہتے ہيں اور اوليائے الہی کو گالی دينا،وہی خدا کو گالی دينا ہے۔ يعنی وہ رسول خدا (ص) کو گالی ديتے ہيں اور رسول خدا کو گالی دينا پيغمبر فرماتے ہيں: جس نے مجھے گالی دی اس نے خدا کو گالی دی۔ مزيد فرماتے ہيں: جو بھی اوليائے الہی کو گالی ديتا ہے وہ خدا کو گالی دينے کا مرتکب ہوا ہے اور خدا کے نزديک اس سے بڑا گناہ اور کيا ہو گا کہ کوئی خدا اور اس کے اوليا کی توہين کا باعث بنے يعنی اوليائے الٰہی کی شان ميں گستاخی کا سبب ہو۔
    اے لوگو! اے شيعو! ميرے عزيزو! جس وقت دوسروں کو گالی دينے اور ان کے مقدسات کی توہين کا اقدام کرتے ہو تو دوسری طرف سے بھی بعض نادان افراد سامنے آئيں گے اور دسويں محرم اور امام حسين (ع) کے يومِ شہادت پر عيد اور جشن منانے کا اعلان کريں گے کيوں؟ جب تم ان کے مقدسات کی توہين کرتے ہو تو فطری بات ہے کہ وہ بھی تمہاری مقدسات کی توہين کريں گے اور آپ اس کا باعث بنے ہيں امام صادق(ع) فرماتے ہيں: اور پروردگار کے نزديک اس سے بڑا گناہ اور کون سا ہے کہ کوئی خدا اور اوليا کی شان ميں گستاخی اور گالم گلوچ کا باعث ہو۔ پس صبر و حوصلے سے کام ليں يہ پہلا مورد تھا۔ دوسرا مورد ايک حديث ہے جو کتاب "عيون اخبار الرضا” تاليف : شيخ صدوق ، (متوفي : سال 381ھ) میں امام رضا (ع) سے نقل ہوئی ہے ، جلد اول ، صفحہ 272 ، باب 28 حديث 63 يہ روايت واقعا بڑی قيمتی ہے۔ ميں درخواست کرتا ہوں کہ اس پر توجہ کريں۔امام رضا (ع) کی اس حديث کو ہر جگہ پھيلائيں،اس روايت ميں ايک شخص امام (ع) سے سوال کرتا ہے: اے فرزند رسول اللہ (ص)! امير المؤمنين (ع) کے فضائل اور آپ (ع) اہل بيت (ع) کی فضيلت و منزلت کے بارے ميں متعدد احاديث ہيں جو آپ کے مخالفين کی طرف سے نقل کی گئی ہيں۔ ليکن خود آپ سے اس مورد ميں کچھ سننے کو نہيں ملا ہے آيا ہم ان روايات کو قبول کر ليں ؟ امام علی (ع)اور اہل بيت کے فضائل ميں بہت ساری روايات ايسی ہيں جو شيعہ کتابوں ميں موجود نہيں ہيں آيا ہم ان کو قبول کر سکتے ہيں اور ان کے ذريعے استدلال قائم کر سکتے ہيں ؟ امام(ع) نے جواب ميں فرمايا: اے پسر ابی محمود! ميرے والد بزرگوار نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے جد(ع) سے ہمارے ليے نقل کيا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمايا : جو بھی کسی بولنے والے کی بات پر کان لگاتا ہے تو وہ اس کی عبادت کرتا ہے۔ اور اگر اس بولنے والے کی گفتگو خداوند متعال کی طرف سے ہو تو اس نے خدا کی عبادت کی اور اگر اس کی گفتگو ابليس کی طرف سے ہو تو اس نے ابليس کی عبادت کی ہے ، يعنی اگر اس خطيب نے سيٹلائيٹ چينلوں ميں خدا کے بارے ميں گفتگو کی تو سننے والے نے بھی خدا کی عبادت کی ہے۔ اور اگر اس نے فتنہ پھيلانے والی بات کی ہے تو سننے والے نے بھی فتنے کی پيروی کی ہے۔
    فرماتے ہيں کہ مخالفين کی کتابوں ميں نہ صرف ہمارے فضائل کے بارے ميں روايات وارد ہوئی ہي بلکہ ہمارے مخالفين يعنی وہ لوگ جو چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے درميان ہماری شخصيت کشی کريں کيونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر اہل بيت (ع) کی شخصيت حقيقی طور پر لوگوں کے سامنے پيش کی جاتی تو تمام لوگ ان کی پيروی کرتے۔ جيسا کہ امام فرماتے ہيں: "لوگوں کے سامنے ہمارے خوبصورت کلام کو بيان کرو کيونکہ اگر لوگ يہ کلام سن ليں تو بلاترديد ہماری پيروی کريں گے”، لہٰذا ان کے پاس معنوی اور فکری شخصيت کشی کے سوا دوسرا راستہ نہيں تھا امام رضا (ع) فرماتے ہيں: ہمارے مخالفين نے ہمارے فضائل ميں احاديث گھڑی ہيں انہوں نے اپنی کتابوں ميں جعل کی ہيں۔ ليکن وہ بتدريج شيعہ کتابوں ميں بھی منتقل ہو گئی ہيں اور يہ تين حصوں پر مشتمل ہيں؛ان کا ايک حصہ غلو ہے۔ فرماتے ہيں کہ غلو کی بعض روايات، ہمارے دشمنوں کے ذريعے گھڑی گئی ہيں۔ توجہ کيجئے!اے اہل بصيرت! آپ کی بصيرت کہاں ہے؟؟اور دوسرا حصہ ہمارے مقام و منزلت کو کم کرنے پر مشتمل ہے يعنی کہتے ہيں کہ آئمہ(ع)عالم نہيں تھے! جيسا کہ ابن تيميہ کے کلام ميں ہم ملاحظہ کرتے ہيں۔
    اور تيسرا حصہ جو ہمارا موردِ بحث ہے، ميرے عزيزو! دقت کریں اور اس کو ذہن نشين کر ليں اور تيسرا حصہ بصراحت ہمارے دشمنوں کے عيب اور ان کی برائيوں کے ذکر پر مشتمل ہے۔ يعنی انہوں نے کچھ احاديث کی آئمہ(ع) کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے کہ انہوں نے اپنے دشمنوں کے عيب اور برائيوں کو کھلم کھلا بيان کيا ہے۔ پس جس وقت لوگ ہمارے بارے ميں غلو سنتے ہيں تو ہمارے پيروکاروں اور شيعوں کو کافر کہتے ہيں۔ جيسا کہ اس وقت ہو رہا ہے صرف يہ کہ کوئی شخص شيعہ اور رافضی ہو؛اسے قتل کرڈالو اور خدا کا قرب حاصل کرو کيونکہ وہ مشرک ہے ، علوی ہے، نصيری ہے،شيعہ ہے، رافضی ہے، زيدی ہے۔ اس کو خدا کا قرب حاصل کرنے کے ليے قتل کر دو يعنی يہ جعلی روايات اہل بيت(ع) کے دشمنوں کی ہيں جو ان تلخ واقعات کا راستہ ہموار کرتی ہيں۔ ہمارے شيعوں کو کافر کہا جاتا ہے اور ان پر الزام تراشی کی جاتی ہے کہ وہ ہميں خدا مانتے ہيں۔ اور جس وقت ہمارے عيوب کے بارے ميں جھوٹی حديثيں سنتے ہيں تو ان پر يقين کر ليتے ہيں اور ہمارا دامن چھوڑ ديتے ہيں اور ہم سے لاپروائی اختيار کر ليتے ہيں۔ اور جس وقت نام کو ذکر کرنے کے ساتھ ہمارے دشمنوں کے عيب کو (ہماری نسبت سے)سنتے ہيں تو وہ نام لے کر ہماری توہين کرتے ہيں۔
    اور اللہ کے حضور اس سے بڑا گناہ اور کيا ہے يعنی تم نام لے کر ان کی توہين کرو اور وہ بھی نام لے کر توہين کريں شايد آج نام ليے بغير بےاحترامی کرے ليکن کل يہ کام انجام ديں گے اور تم اس کا باعث بنے ہو۔ امام صادق(ع) فرماتے ہيں: اس سے بڑا اور گناہ کون سا ہو گا کہ تم خدا اور اوليا کی شان ميں گستاخی اور اہانت کا باعث بنے ہو۔ اور جس وقت وہ ہمارے دشمنوں کی برائياں ان کا نام ليے جانے کے ساتھ سنتے ہيں تو وہ ہمارا نام لے کر ہماری توہين کرتے ہيں۔ خداوند عزوجل فرماتا ہے: جو لوگ غير خدا کی پرستش کرتے ہيں ان کو گالی نہ دو کہيں وہ بھی از روئے جہالت خدا کو گالی نہ ديں۔
    اے پسرِ ابی محمود! اگر لوگ دائيں بائيں ہو جائيں تو تم ہماری پيروی کرو کيونکہ جو بھی ہماری پيروی کرتا ہے ہم بھی اس کی طرف توجہ کرتے ہيں۔ اور جو بھی ہمارا دامن چھوڑ ديتا ہے ہم بھی اس کو چھوڑ ديتے ہيں، يعنی جو بھی دشمنوں کو ناسزا کہے اور گالياں دے کيا اس نے اہل بيت(ع) کی پيروی کی ہے ؟ يا ان کو چھوڑ ديا ہے ؟؟
    يہ امام رضا(ع) کا کلام ہے اور جو بھی نام لے کر گالی دے اور تکفير کرے شخصيت کشی کرے ، توہين کرے اور اپنے منہ سے ہر اول فول دوسروں کے مقدسات کے بارے ميں کہہ ڈالے؛ اس نے ہم اہل بيت(ع) کو چھوڑ ديا ہے اور کسی شخص کے ايمان سے خارج ہونے کی کمترين حد…. اس کے بعد فرماتے ہيں: اے پسرِ ابی محمود! جو کچھ ہم نے تم سے کہا ہے اس کو ذہن نشين کر لو! کيونکہ ہم نے تمہارے ليے دنيا و آخرت کی خير کو جمع کر ديا ہے۔ يہ دوسرا مورد تھا تيسرا مورد:امام امير المومنين (ع) کے کلام ميں سے ايک ہے کہ بہت سارے عزيزوں نے اس حديث کو جسے ميں پڑھنا چاہتا ہوں؛ سن رکھا ہے يہ حديث نہج البلاغہ ميں موجود ہے کہ جس کے اندر سيد رضی(رہ) نے امام علی (ع) کے خطبات و خطوط کو جمع کيا ہے۔ جو مخصوص اور منتخب ہيں اور امير المومنين(ع) کے کلام ميں سے ہيں۔ جس وقت امام (ع) نے اپنے بعض اصحاب کو سنا کہ وہ اہل شام کو گالياں دے رہے ہيں؛ يعنی معاويہ اور بنی اميّہ کو اور امام (ع) ان کو اس کام کی اجازت نہيں ديتے تھے۔
    توجہ کيجئے!وہ لوگ مسلمانوں کو گالياں نہيں دے رہے تھے بلکہ بنی اميّہ کو گالياں دے رہے تھے اس اہم نکتے پر توجہ کريں! کيونکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم عام مسلمانوں کو گالی نہيں ديتے بلکہ صرف آپ(عليھم السلام) کے دشمنوں کو جنہوں نے ان سے جنگ کی ہے؛گالی ديتے ہيں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہرگز يہ بات درست نہيں ہے، روايت ميں وارد ہوا ہے حضرت(ع) کے بعض اصحاب نے جنگ صفين کے دوران اہل شام کو گالياں ديں۔ امام (ع) نے ان سے فرمايا: مجھے پسند نہيں ہے کہ تمہارا شمار گالياں دینے والوں ميں سے ہو۔
    يہاں پر شايد کوئی يہ کہے کہ "کراہت(ناپسنديدگی)” حرمت کے معنی ميں نہيں ہے بلکہ جواز(کا مفہوم دے رہی) ہے۔ تو ہم جواب ديں گے بہت خوب! ليکن مشخص تو ہو گيا ہے کہ يہ کام مستحب نہيں ہے مکروہ ہے۔ رجحان رکھتا ہے يا عدم رجحان؟ دوسری جانب سے امام(ع) فرماتے ہيں کہ مجھے آپ کا يہ کام پسند نہيں ہے۔ آپ کس طرح آسانی سے ايسا کام کرتے ہيں جس سے آپ(ع) کے امام راضی نہيں ہيں؟ امام (ع) مزيد فرماتے ہيں : ليکن اگر آپ ان کے کرتوتوں کو بيان کريں… اے امام الموحدين! آپ پر خدا کا سلام ہو! فرماتے ہيں :اگر ان کے کرتوتوں کو برملا کرو۔ اب آپ ان کے کرتوتوں کا پردہ چاک کريں بتائيں کہ وہ لوگ شام ، عراق اور شمالی افريقہ ميں کيا گل کھلا رہے ہيں۔ خدا کی قسم! اگر شيعوں کی گفتگو؛حسن کلام و حسن دعوت کی بنياد پر اور حکمت و نصيحت کی بنياد پر ہو ؛جیسا کہ خدا اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے :”ان کے ساتھ اچھے طريقے سے بحث و مباحثہ کرو”، تو يقين کيجئے کہ يہ اپنے مدعا کی طرف دعوت دينے کی ايک بہترين روش ہے۔ امام (ع) فرماتے ہيں : اگر ان کے کرتوتوں کا پردہ چاک کرتے اور ان کے کردار کی حقيقت کو آشکار کرتے تو يہ کام گفتار کے لحاط سے بہتر اور ہدف کے لحاظ سے مفيدتر ہوتا اور انکو برا بھلا کہنے کے بجائے يہ کہتے کہ خدايا! ہماری اور ان کی جانوں کی حفاظت فرما اور ہمارے اور انکے درميان صلح کو برقرار فرما اور ان کو ان کی گمراہی سے باہر نکال تاکہ جو بھی حق کو نہيں جانتا وہ جان لے اور جسے دشمنی اور کينہ توزی کی عادت ہے؛ وہ اس سے اجتناب کرے۔
    جو کچھ ميں نے پڑھا ہے وہ نہج البلاغہ سے تھا جو امير المومنين (ع) کے منتخب کلام کا مجموعہ ہے۔ ليکن جو عزيزان مکمل خطبے کا مطالعہ کرنا چاہتے ہيں وہ کتاب "نہج البلاغہ” تحقيق ، تکميل و ترتيب : سيد صادق الموسوی انتشارات موسسۃ الاعلمی؛ جلد 5 کی طرف مراجعہ کر سکتے ہيں۔ اس کتاب کے مؤلف نے يہ سعی کی ہے کہ منتخب و ملخّص کلام کو جو نہج البلاغہ ميں وارد ہوئے ہيں، انہيں بطورِ کامل لايا جائے اور يہ بہت اہم موضوع ہے۔ اس خطبے کے مقدمے پر توجہ کريں جسے شريف رضی نے نقل نہيں کيا ہے۔ روايت ميں وارد ہوا کہ امام امیر المومنین علی(ع) نے سنا کہ ان کے بعض اصحاب اہل شام کو ناسزا کہہ رہے ہيں۔ آپ(ع) نے ان کو پيغام ديا کہ اس کام سے اجتناب کرو! وہ امام(ع) کے پاس آئے اور عرض کی: اے اميرالمومنين(ع)!کيا ہم حق پر نہيں ہيں؟ فرمايا: ہاں ایسا ہی ہے۔ انہوں نے کہا : کيا ہمارے مخالفين، اہل باطل نہيں ہيں؟ فرمايا : غلاف پوش کعبہ کے خدا کی قسم!ايسا ہی ہے۔ کہنے لگے: پھر ہميں ان کی توہين اور ان پر نفرين کرنے سے کيوں روک رہے ہيں؟ توجہ کيجئيے!يہ عبارتيں نہج البلاغہ ميں نہيں ہيں۔ امام عليہ السلام نے فرمايا : مجھے پسند نہيں ہے کہ تم گالی دينے والے اور نفرين کرنے والے بنو ليکن اگر تم ان کے غلط کاموں پر روشنی ڈالتے…. يعنی ممکن ہے کہ انہوں نے کچھ اچھے کام بھی کيے ہوں انہيں بھی ان کے برے کاموں کے ساتھ بيان کرو يہ عبارتيں اس مشہور کتاب "نہج البلاغہ” ميں نہيں ہيں اور ان کی حالت اور ان کی رفتار پر روشنی ڈالتے۔ يہ کام گفتار کے اعتبار سے بہتر اور ہدف تک پہنچنے کے ليے مفيد تر ہے۔ اور اگر گالی دينے ، نفرين کرنے اور ان سے بيزاری اختيار کرنے کی بجائے تم يہ کہتے کہ خدايا! ہماری جانوں کی حفاظت فرما… افسوس کے ساتھ شريف رضی(رہ) نے اس جملے کو ذکر نہيں کيا ہے۔ مجھے يہ کام زيادہ پسند ہے اور يہ تمہارے ليے بھی بہتر ہوتا يعنی نہ صرف يہ کہ ميں تمہاری ناسزا گوئی کو پسند نہيں کرتا۔
    اے امير المومنين (ع) کے پيروکارو اور آپ (ع) سے محبت کرنے والو! اور آپ جو علی (ع) کے پيروکار ہونے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کا دعوٰی کرتے ہيں اور ان کی پیروی کرنا چاہتے ہيں اور ان کا پيغام پہنچانا چاہتے ہيں۔ جو کوئی بھی ہماری پيروی کرتا ہے ہم اس کی طرف توجہ کرتے ہيں اور جو کوئی بھی ہميں چھوڑ ديتا ہے ہم بھی اس کو چھوڑ ديتے ہيں۔ اب ممکن ہے کہ کوئی يہ کہے کہ يہ کلام کراہت کے معنی ميں ہے۔ آپ کو ايک جملے ميں جواب ديتا ہوں: علامہ ابن ميثم بحرانی(رہ) اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ کی چوتھی جلد ميں کہتے ہيں: واضح اور صريح انداز سے امام عليہ السلام نے ناسزاگوئی سے اپنی نارضايتی کے اظہار اور اس سے روکنے کے ليے اس قسم کے عمل کی حرمت کی طرف اشارہ فرمايا ہے۔ جی ہاں! بعض علما کی رائے يہ ہے کہ امام (ع) کا يہ منع کرنا کراہت کے معنی ميں نہيں ہے بلکہ حرمت کے معنی ميں ہے۔
    مزيد برآں يہ کہ يہ مسئلہ ايک فقہی مسئلہ ہے اور ممکن ہے کہ انسان کے قتل کا باعث بن جائے لہذا ہر مومن اور دين دار انسان کو اپنے مرجع تقليد سے سوال کرنا چاہئيے کہ اس حوالے سے ان کی رائے کيا ہے؟ آيا وہ توہين کی اجازت ديتے ہيں؟ آيا گالم گلوچ اور ناسزا گوئی کی اجازت ديتے ہيں يا نہيں ؟ اگر اس کو اجازت مل جائے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ ميرے مرجع نے اس طرح کہا ہے۔ ليکن اس کو حق حاصل نہيں ہے کہ مختلف چينلوں سے نشر ہونی والی باتوں پر اعتماد کرے اور ان کی پيروی کرے۔
    ميری نظر ميں عصر حاضر کے تمام بڑے مراجع عظام جو مکتبِ تشيّع کی نظر ميں حقيقی مرجعيت کے حامل ہيں نجف سے لے کر قم ، ديگر شہروں اور شيعہ حوزات علميہ تک ان سے سوال کريں اگر وہ آپ کو اجازت ديتے ہيں کہ آپ عصر حاضر ميں يا کسی اور زمانے ميں دوسروں کے مقدّسات کی توہين کر سکتے ہيں تو اس وقت آپ جو چاہيں؛ کريں۔

    • تاریخ : 2016/06/13
    • صارفین کی تعداد : 1811

  • خصوصی ویڈیوز