مقالات و آراء

  • ’’معرفت اللہ‘‘ کے عنوان سے سلسلہ وار مباحث (3)

  • از آیت اللہ العظمٰی السید کمال الحیدری مدّظلّہ العالی
    علامہ المیزان کی جلد ۴ صفحہ ۱۰۹ میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۲۰۰ کے ذیل میں کہتے ہیں اور ان کی یہ تعبیر انتہائی حائز اہمیت ہے اور اہم اصول ہے کہ جس پر آپ کئی دنوں تک بحث کر سکتے ہیں۔ کہتے ہیں:دین اسلام کے تمام اجزا، ارکان، فروع، اصول، اخلاق، فقہ اصغر، عقائد؛ دین اسلام کے تمام اجزا تحلیل ہو کر توحید کی طرف پلٹتے ہیں ان سب کی بازگشت توحید کی طرف ہے اور توحید ترکیب کے ساتھ اخلاق و اعمال کی شکل اختیار کر لیتی ہے پس اگر توحید کو کھولیں تو سارے دینی معارف میں بدل جائے گی اور اگر تمام دینی معارف کو جمع کریں تو یہ توحید ہو جائیں گے۔
    تمام دینی معارف کو ترکیب کے ساتھ، ایک اساس اور ایک اصول کی طرف پلٹائیں تو توحید ہو جاتی ہے اور اس توحید کو اگر کھولا جائے۔۔۔؛ فلسفے میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ اجمال و تفصیل؛ اجمال بساطہ نہ کہ وہ اجمال جو علم تفصیلی کے مقابلے میں ہے کیونکہ اجمال دو ہیں؛ ایک اجمال ابہام کے معنی میں ہے جو علم اجمالی و علم تفصیلی ہے اور یہ علم اصول کیلئے ہے اور ایک اجمال اور تفصیل فلسفے میں ہے؛ میں کہتا ہوں: علم خدا؛ علم اجمالي في عين الكشف التفصيلي (علم خدا علم اجمالی ہے اور بعینہ کشف تفصیلی ہے) یہ اجمالی ابہامی نہیں ہے؛ یعنی تفصیل و ترکیب کے مقابلے میں بسیط نہیں ہے۔
    لہٰذا ان کی تعبیر یہ ہے: فلو نزل التوحيد لكان ہی یہ توحید اگر تنزل کرے تو ان دینی معارف میں بدل جائے گی اگر معارف کا درجہ اوپر ہو جائے تو وہ توحید ہے۔ بڑی جالب تعبیر ہے، ان سارے مطالب کو آغا نے اس جملہ میں بیان فرمایا ہے: معلوم نہیں کہ رفقا کیلئے میں نے پہلے اسے بیان کیا ہے یا نہیں؟ ہمارے استاد آغا جوادی فرماتے تھے: بنیادی طور پر میزان کی پہلی چار پانچ جلدیں حوزات علمیہ میں تدریس کی جانی چاہئیں ‘‘فلو نزل لكان ہي ولو صعدت لكان ھو’’ کا کیا مطلب ہے؟ وہ کہنا چاہتے ہیں کہ توحید ہی سب کچھ ہے اجمالاً وبساطۃ وإحكاماً۔
    تمام دینی تعلیمات کیا ہیں؟ اب اگر آپ فقہ کو اچھی طرح سمجھنا چاہتے ہیں تو پہلے کس چیز کو سمجھنا ضروری ہے؟ اب یہ روش ہمارے حوزات علمیہ میں ہے یا نہیں؟ کہتے ہیں: نہیں! آغا آپ اصول میں دقت کریں گے تو مجتہد بن جائیں گے لہٰذا ہم اس اصول کو نہیں مانتے، ہم عرض کریں گے: اچھا! آپ کیلئے پہلے کس چیز میں مجتہد بننا ضروری ہے؟ توحید میں۔ ہاں! دیگر عقائد اس کے لوازمات میں سے ہیں اور کوئی شخص اس وقت تک توحید میں مجتہد نہیں بن سکتا جب تک قرآن کو نہ سمجھے کیونکہ اعلٰی ترین توحیدی تعلیمات قرآن میں وارد ہوئی ہیں۔ سابقہ کتب میں بھی اس درجے کی توحید نہیں ہے یعنی میں کہنا چاہتا ہوں کہ پہلوں کی کتابیں؛ انجیل، تورات، زبور، ابراہیمی صحیفے یہ سب کی سب ان سب کو جمع کر لیں تب بھی قرآن کے مقام تک نہیں پہنچ سکتیں اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ توحید و توحیدی تعلیمات کو درک کریں تو کہاں کا رخ کریں؟ اسی لیے ہم نے کہا ہے کہ جو فقیہ بننا چاہتا ہو اس کیلئے ضروری ہے کہ علم کلام سے واقف ہو جو شخص علم کلام کو نہیں جانتا وہ فقہی مسائل کی طرف اچھی طرح متوجہ نہیں ہو سکتا، علم کلام کو اچھی طرح درک نہیں کر سکیں گے مگر یہ کہ توحیدی معارف کو سمجھیں، توحیدی تعلیمات کی طرف اچھی طرح متوجہ نہیں ہو سکیں گے اور انہیں درک نہیں کر سکیں گے مگر یہ کہ توحید کی طرف متوجہ ہوں توحید بھی دقیق طور پر حاصل نہیں ہو سکتی سوائے قرآن کے۔ اس لیے فقیہ کا فقیہ ہونا ممکن نہیں ہے مگر یہ کہ مفسر ہو اب آپ متوجہ ہوئے ہیں کہ اجتہاد میں بندے کا مبنٰی کیا ہے؟ یہ ہے مبنٰی، یہ مبنٰی ہے اب کیا آپ کا یہ کہنا ممکن ہے کہ میں اس مبنٰی کو تسلیم نہیں کرتا! جیسے اخباری اصولی کو کہتا ہے کہ میں اس کے مبنٰی کو نہیں مانتا، اچھا! اس کا یہ حق ہے اصولی بھی اخباری کو کہتا ہے کہ وہ اس کے مبنٰی کو قبول نہیں کرتا، یہ اس کو کہتا ہے کہ تم مجتہد نہیں ہو، وہ اس کو کہتا ہے کہ تم مجتہد نہیں ہو، یہ علمی بحث ہے؛ کوئی بات نہیں۔
    میری رائے یہ ہے کہ اجتہاد کا کیا مطلب ہے؟ یعنی یہ کہ وہ پہلے مفسر ہو اگر مفسر نہ ہو اور قرآن کے مبانی اس کے پاس نہ ہوں تو کلامی مبانی اس کی دسترس میں نہیں ہو سکتے اور اگر اعتقادی مبانی اس کے ہاتھ میں نہ ہوں؛ اب بعد میں مشخص کروں گا اگر دوست وقت نکال کر اس نشست میں حاضر ہوں تو میں مشخص کروں گا کہ کیسے ہو سکتا ہے اگر ان کے پاس اعتقادی مبانی اور توحید نہ ہو تو وہ فقہی مسائل میں بھی پیچھے رہ جائیں گے یعنی کیا کہے گا کہ جو وحدت وجود کا قائل ہے وہ مسلمان ہے یا کافر؟ وہ کون ہے؟ آپ اب فتویٰ دینا چاہتے ہیں، فتویٰ صادر بھی کر رہے ہیں، آپ کو اس کا حق بھی ہے لیکن بینی و بین اللہ پہلے جائیے اور دیکھیے کہ وحدت کیا ہے یہ وحدت وجود توحید ہے اور توحید بھی کلامی مسئلہ ہے یا فقہی مسئلہ؟ کلامی ہے کلامی ہے، اگر آپ نے کلامی مبانی اور توحید کو اچھی طرح درک نہیں کیا تو کیسے فتویٰ دیں گے؟ ایک کو کافر بنا دیں گے جو کافر نہیں ہے اور ایک کو مسلمان و موحد بنا دیں گے جو موحد نہیں ہے یہ ایک مورد ہے۔
    دوسرا مورد(کچھ موارد ہیں کہ جن میں سے صرف دو کو ذکر کروں گا) دوسرا مورد میزان کی دسویں جلد ص ۱۳۵ سورہ ھود کی پہلی آیت میں وہ مسئلہ کو بہت کھول رہے ہیں یہاں سے اجمالی طور پر گزر گئے ہیں تمام معارف اگر صعود کریں تو وہ توحید ہے اور اگر توحید نزول کرے تو سارے معارف ہیں؛ یہ علامہ کا جملہ ہے۔ پس قرآنی آیات الٰہی معارف اور حقائق حقہ کی حامل ہونے کے باوجود حقیقت واحدہ پر اعتماد کرتی ہیں وہ اصل ہے اور یہ اس کی فروع ہیں اور وہ ایسی اساس ہے جس پر دین کی بنیاد رکھی گئی ہے اور وہ ہے ذات باری کی توحید ہے، اسلام کی توحید ہے اور یہ ایسی اصل ہے جس کی طرف علی الاجمال تمام قرآنی مطالب کی تفاصیل پلٹتی ہیں خواہ وہ اس کے معارف ہوں یا شرائع ہوں بالتحلیل اور وہ(توحید) ان تفصیلات کی طرف پلٹتی ہے بالترکیب؛ جو میں قرآنی بحث اور توحیدی معارف کی اہمیت کو آپ کیلئے بیان کرنا چاہتا تھا؛ یہ اس کا خلاصہ ہے۔
    آغا حیدری! اب قرآن کی بنیاد پر تطبیق کیجئے، قرآن نے کہاں پر کہا ہے: اگر توحید نہ ہو تو نبوت کو بھی نہیں سمجھیں گے اگر توحید نہ ہو تو معاد کو بھی نہیں سمجھیں گے کیونکہ ہمارے پاس تین کلی اصول ہیں؛ توحید و نبوت و معاد، یہ دین کے اصلی اصول ہیں؛ انہیں کہاں پر بیان کیا ہے؟!
    سورہ انعام، یہ جو میں نے بیان کیا ہے کہ اب سند میرے لیے اہم ہے یا نہیں ہے؟ اہم نہیں ہے، کیوں؟ کیونکہ اس کی اصل یہاں پر قرآنی آیت میں وارد ہوئی ہے، سورہ انعام: آیت ۹۱ اور انہوں نے اللہ کی وہ قدر نہ جانی جيسی قدر جاننا چاہيے تھی انہوں نے خدا کو اچھی طرح پہچانا یا نہیں پہچانا؟ نہیں پہچانا اور انہوں نے اللہ کی وہ قدر نہ جانی جيسی قدر جاننا چاہيے تھی جب انہوں نے يہ کہہ ديا کہ اللہ نے کسی آدمی پر کوئی چيز نہيں اتاری۔ انہوں نے کہہ ڈالا: نبوت کا کیا مطلب؟
    اللہ تعالٰی فرماتا ہے: جن لوگوں نے نبوت کے ساتھ یہ سلوک کیا(اس کا انکار کر دیا)، انہوں نے میری شناخت حاصل کی یا نہیں؟ انہوں نے خدا کو نہیں پہچانا، پس ان کا مسئلہ توحید و معرفت اللہ ہے اور کچھ نہیں ہے: (وَمَا قَدَرُوا اللَّہ حَقَّ قَدْرِہ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّہ عَلَی بَشَرٍ مِنْ شَيْءٍ) اور انہوں نے اللہ کی وہ قدر نہ جانی جيسی قدر جاننا چاہئيے تھی جب انہوں نے يہ کہہ ديا کہ اللہ نے کسی آدمی پر کوئی چيز نہيں اتاری (قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِہ مُوسَی) آپ فرما ديجئے: وہ کتاب کس نے اتاری تھی جو موسٰی لے کر آئے تھے۔
    جو لوگوں کے لئے روشني اور ہدايت تھي؟ یہ اصول نبوت ہے پس اگر آپ توحیدی معارف نہ رکھتے ہوں؛ تو کیا نبوت تک پہنچ سکتے ہو یا نہیں؟ نہیں پہنچ سکتے۔
    ‘‘اللہم عرفنی نفسك فانك ان لم تعرفنی نفسك لم اعرف نبيك’’ موسٰی اس کے مصداق ہیں اور بے شک اس کا پہلا جملہ نبوت عامہ ہے۔
    {وَمَا قَدَرُوا اللَّہ حَقَّ قَدْرِہ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّہ عَلَی بَشَرٍ مِنْ شَيْءٍ} سے مراد ہر نبی ہے {قُلْ مَنْ أَنزَلَ} جی ہاں! یہ نبوت خاصہ ہے، یہ مصداق کا بیان ہے؛ میری مراد جملہ اول و سطر اول ہی ہے کیونکہ قرآن کے قواعد ہیں اور اس کے قواعد سے آپ میں استعداد پیدا ہو جاتی ہے؛ ہم نے کتاب ‘‘منطق فھم قرآن’’ میں بیان کیا ہے اور کہا ہے ہمارے آئمہ نے بیان کیا ہے کہ ساری کی ساری آیت کو اکٹھا سمجھا جا سکتا ہے آیت کو پانچ حصوں میں تقسیم بھی کر سکتے ہیں اور ہر حصے کو علیٰحدہ سمجھ سکتے ہیں اور آیات کو ۲۰ کلموں میں بھی تقسیم کر سکتے ہیں اور ہر کلمے کو جدا سمجھا جا سکتا ہے اسی طرح ہر کلمے کو ۵ حرفوں میں تقسیم کر سکتے ہیں اور ہر حرف کو مستقل طور پر سمجھ سکتے ہیں اور یہ اہل بیت (ع) کے بیانات میں سے ہے کیونکہ اگر یہ چیز انہوں نے نہ فرمائی ہوتی تو ہم ایسا نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ جانتے ہیں۔
    لہٰذا یہ آیات حرف بحرف معنی رکھتی ہیں، کلمہ بکلمہ معنی رکھتی ہیں جملہ بجملہ معنی رکھتی ہیں اور آیہ بہ آیہ معنی رکھتی ہیں اور آیات کے مجموعے کا معنی ہے اور ہر ہر سورہ کا معنی ہے یہ فہم قرآن کے قواعد میں سے ہے کہ جن کی جائے بحث جدا ہے منطق فہم قرآن میں؛ واقعا اسے ایک درسی کتاب ہونا چاہئیے؛ میں نے منطق فہم قرآن کی جلد اول کو اس انداز سے لکھا ہے کہ یہ کتاب درسی ہو ابھی یہ مسئلہ نبوت میں ایک مورد پیش کیا؛ آئیے مسئلہ معاد میں مسئلہ معاد میں، سورہ مومنون کی آیت: ۱۱۵ (أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثاً وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لا تُرْجَعُونَ) سو کیا تم نے یہ خیال کر لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار (و بے مقصد) پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے۔
    پس معاد کے اثبات کی حد اوسط کیا ہے؟ کیا تم نے یہ خیال کر لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار (و بے مقصد) پیدا کیا ہے یعنی تم نے چونکہ گمان کر لیا ہے کہ ہمارا فعل عبث ہے پس معاد نہیں ہے پس ہم کہاں پر پہلے خدا کو پہچانیں کہ خدا حکیم ہے، اس کی حکمت سے معاد تک پہنچیں پس نبوت کی اساس توحیدی تعلیمات ہیں؛ ‘‘اول الدين معرفتہ’’ معاد کی بھی اصل توحیدی تعلیمات ہیں؛ یہ پہلا اصول ہے پس ہم ایک جملہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام دینی تعلیمات کی جڑ معرفت اللہ میں ہے کیونکہ اب کچھ لوگوں کے ذہن میں توحید ہے؛ نہیں! توحید بھی معرفت اللہ کی ایک شاخ ہے۔ افسوس ہے کہ اسے شیخ صدوق اور ان کے بعد کے تمام بزرگ توحید لکھتے تھے حالانکہ توحید معرفت اللہ کی ایک شاخ ہے بلکہ توحید بھی معرفت اللہ کی فروعات میں سے ہے اور اس کی ایک شاخ ہے۔ یہ واضح ہو جانے کے بعد ہم دوسری اصل پر بحث کریں گے۔

    • تاریخ : 2016/07/20
    • صارفین کی تعداد : 1088

  • خصوصی ویڈیوز