مقالات و آراء

  • "معرفت اللہ” کے عنوان سے سلسلہ وار دروس (۵)

  • فقط نہج البلاغہ میں توحید کے بارے میں پچاس خطبے ہیں۔ آپ ابھی آئمہ اہل بیت(ع) کے کلمات کو رہنے دیجئے ، ان میں سے ننانوے فیصد اہم ترین عقلی موازین کے ساتھ قابل اثبات ہیں ۔ننانوے فیصد آپ کیوں کہہ رہے ہیں؟! سو فیصد کیوں نہیں کہتے؟! کیونکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات ایک جملہ اس طرف سے یا اس طرف سے نقل بہ معنی ہوا ہو یا دقت کے ساتھ نقل نہ ہوا ہو تو اس سے مسئلہ پیدا ہو گیا ہو، ورنہ یہ ننانوے فیصد (خطبات) قرآنی شواہد کے موافق ہیں ۔لیکن اس پر کام نہیں ہوا امام (ع) فرماتے ہیں: "كل قائم فی سواہ فہو معلول”(اور جو دوسرے کے سہارے پر قائم ہے، وہ علت کا محتاج ہو گا) کیوں؟! اگر کوئی چیز معنی حرفی ہو گئی تو معلول ہو جائے گی کس بنیاد پر؟! ان دعووں کے برخلاف؛ کہ جناب علت و معلول کی بحثیں وغیرہ یہ سب ارسطو کی تھیں اور بعد میں وارد ہوئی ہیں نہیں! یہ خطبے فلسفہ یونانی کا ترجمہ ہونے سے پہلے کے ہیں اور امیر المومنین(ع)کے کلام میں علت و معلول موجود ہے پس دیکھیں! ہمیں چاہیے کہ اس اصل پر کام کریں۔
    لہٰذا ہم نے کتاب توحید کی جلد اوّل کو یہاں سے شروع کیا ہے”مفتاح جميع مفاتيح المعارف معرفۃ اللہ”(تمام معارف کی کنجی معرفت اللہ ہے)؛ یہ کہاں پر ہے؟ نفی حد کے مسئلہ میں قال : "و من عدہ فقد ابطل ازلہ و من قال كيف فقد استوصف”(جس نے اسے شمار کے قابل سمجھ ليا اس نے اس کی قدامت ہی سے انکار کر ديا اور جس نے يہ کہا کہ وہ کيسا ہے وہ اس کے ليے (الگ سے) صفتيں ڈھونڈھنے لگا) اب آپ دیکھیں! اس اصل کی دلیل کیا ہے؟ امام رضا (ع) ایک قاعدہ تاسیس فرما رہے ہیں؛ انشاء اللہ آپ صاحبان آج رات یا اس ہفتے میں اس کا مطالعہ کریں گے تاکہ ہم اگلے ہفتے اس پر بحث کر سکیں۔ اسی کتاب توحید شیخ صدوق کے صفحہ ۴۱ میں؛ امام (ع) يہ فرماتے ہيں:”فكل ما في الخلق لا يوجد في خالقہ”(پس جو خصوصيت مخلوق ميں ہے، وہ خالق ميں نہيں ہے )جو چیز بھی آپ مخلوق میں دیکھ رہے ہیں وہ اس کے خالق میں نہیں ہے ۔
    پس اس بنیاد پر ہر مخلوق محدود ہے پس خدا محدود نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر محدود ہو تو اس قاعدے کے منافی ہے جو امام (ع) تاسیس فرما رہے ہیں اور یہ قاعدہ بھی عقلی و قرآنی ہے: "فكل ما في الخلق لا يوجد في خالقہ؛ و كل ما يمكن فيہ يمتنع من صانعہ”(پس جو خصوصيت مخلوق ميں ہے، وہ خالق ميں نہيں ہے اور جو چيز مخلوق ميں ممکن ہے وہ صانع ميں ممتنع ہے)، پس جو کچھ بھی مخلوق میں ہے خالق میں نہیں پائی جاتی ؛ جو چیز بھی اس میں ممکن ہے وہ اللہ میں ممتنع ہے۔ پھر امام (ع) مصادیق کو ذکر فرما رہے ہیں؛ آپ یہاں پر حرکت و سکون کو دیکھ رہے ہیں؛ پس وہاں کیا؟ یہاں پر حد کو دیکھ رہے ہیں؛ تو وہاں کیا؟ وعلی ھذا القیاس، اگر ہم اس اصل کی بنیاد رکھ سکے؛ اس وقت ہمیں پتہ چلے گا کہ ( ليس کمثلہ شيئ)؛ کا کیا معنی ہے؟ "قال: و كيف يجري عليہ ما ہو اجراہ علی غيرہ”(بھلا جو چيز اس نے مخلوقات پر طاری کی ہو وہ اس پر کيونکر طاری ہو سکتی ہے)خدا نے حد کا موجودات پر اجرا کیا ہے؛ "فكيف يجري عليہ ما اجراہ علی خلقہ "(بھلا جو چيز اس نے مخلوقات پر طاری کی ہو وہ اس پر کيونکر طاری ہو سکتی ہے) پس دیکھئے! انشاﺀ اللہ ہم اگلے ہفتے اس پر ٹھریں گے کہ رفقا آج رات یا اس ہفتے جا کر "حد” کی بحث کا مطالعہ کریں؛ دیکھیں! کہ اہل سنت کیا کہتے ہیں؟ اور علمائے شیعہ کیا کہتے ہیں ؟ اور در نتیجہ ہم نفی حد کے ساتھ کہاں پہنچ سکتے ہیں؟ جو لوگ نفی حد کے قائل ہوئے ہیں؛ آخر وہ کیوں اس کے قائل ہوئے ہیں؟ اس پر توجہ کیجئے؛ یہ خیال نہ کریں کہ جو لوگ حد کے قائل ہوئے ہیں، انہیں یہ اچھا لگا ہے اور انہوں نے خواب دیکھا ہے ؛ کہتے ہیں: جناب! اگر ہم حد کے قائل نہ ہوں تو خالق اور مخلوق کے مابین بینونت حاصل نہیں ہو گی یا حلول ہو جائے گا یا اتحاد ہو جائے گا ۔پس ضروری ہوا کہ ہم خدا کیلئے ایک ایسی حد کے قائل ہوں جو تمام ہو جاتی ہے اس وقت میں جو ممکن ہو؛ اس کی ابتدا ہوتی ہے ورنہ اگر اس کی حد نہ ہو تو کیا پھر میں ہوں یا نہیں ہوں؟ اگر ہوں تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ ذاتِ خدا میں ہوں اور اگر نہ ہوں تو پھر انکار مخلوقات ہو جائے گا۔
    پس ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے سوائے یہ کہنے کے: بائن عن خلقہ و خلقہ بائن عنہ (وہ اپنی مخلوق سے جدا ہے اور اس کی مخلوق اس سے جدا ہے )اور اس بینونت کو بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا مگر حد کی بنیاد پر اس کے پاس بھی دلیل ہے؛ آپ خیال نہ کریں کہ اتنا ہی آسان ہے کہ آپ کہیں گے: جناب! حد نہیں ہے تو وہ کہے: ہمیں قبول ہے احسنتم و طيب اللہ، نہیں ایسا نہیں ہے۔ وہ کہے گا : جناب! اگر آپ حد کے نہ ہونے کے قائل ہیں تو کیا لازم آئے گا؟ اس پر توجہ کریں اگر ہم یہ فرض کریں کہ اس کو محدود قرار دیں تو کیا ہم فرض کر سکتے ہیں کہ یہ دوسرا پیدا ہو جائے؟ جی ہاں! کیونکہ یہ موجود یہاں پر ختم ہو گیا تو یہ دوسرا شروع ہو گیا۔ اگر فرض کریں کہ یہ موجود غیر متناہی ہے اور اس کی کوئی حد نہیں ہے تو پھر دوسرے کا فرض ہو گا یا نہیں؟ وہ کہاں تمام ہو رہا ہے کہ دوسرا شروع ہو سکے اصلا اس کیلئے جگہ ہی نہیں ہے ۔
    پس اگر دوسرے کو فرض کیا تو کیا کہیں یا یہ کہ پہلا محدود ہے یا یہ کہ وہ اس کی ذات میں ہو۔ لذا آپ دیکھتے ہیں کہ عرفا وحدت الوجود کے قائل ہو گئے؛ اس کا راز یہی ہے انہوں نے دیکھا: کہ یا ہم مخلوق کو فدا کریں یا حد خداوندی کو؟ انہوں نے کہا: نہیں! (خالق کی نہیں، بحث کیونکہ حد کے بارے میں ہے) کہنے لگے: نہیں! اس کی لا محدودیت اپنے مقام پر باقی رہے۔ جو مصیبت بھی نازل ہو؛ مخلوق پر نازل ہو اصلا کوئی چیز بھی نہ ہو؛ اصلا” لا” ہو جائے، لیکن وہ رہے! دیکھیں: ایک مشکل تھی جس کی وجہ سے ان کی بحث یہاں تک جا پہنچی ۔ ملا صدرا آئے انہوں نے کیا کام کیا؟ کہنے لگے: میں ایک اور کام کرتا ہوں؛ ہم ایک "معنی اسمی ترتیب” دیتے ہیں جو خدا میں ہے باقی سب کو کیا کرتے ہیں؟ "معنی حرفی "کہ جو (اس کے ساتھ) قائم ہے پس ہم نے اس کو بھی حفظ کر لیا اور اُس کو بھی۔ کیونکہ اگر ہم (کم از کم ساتھیوں نے بدایہ و نہایہ تو پڑھ لی ہے) سنیں! ملا صدرا کا اصرار ہے کہ ممکن کی ذات نہیں ہے ۔ معنی حرفی کا کیا مطلب ہے؟ وجود رابط یعنی کیا؟ یعنی وہ ذات رکھتا ہے یا نہیں؟ نہیں رکھتا ۔ وہ کیوں مصر ہے کہ مخلوق کی ذات کا انکار کرے؟ کیونکہ چاہتا ہے کہ اس کے لیے دوسرا نہ بن پائے۔ کیونکہ اگر دو ذات بنا دیں تو کیا ہو گا؟ محدودیت؛ پس ذات ایک ہی ہے اگر فلسفہ پڑھنا چاہتے ہیں تو اس طرح سے پڑھیں نہ کہ الفاظ کو ؟؟ تکرار کریں؛ یہ طریقہ ہے۔ کیوں ملا صدرا وہاں تک جا پہنچا؟ کیونکہ اس نے دیکھا کہ براہین عقلی و نقلی و قرآنی سارے کہتے ہیں کہ خدا محدود ہے یا نہیں؟ آپ کہیں گے کہ آپ قرآن سے کیسے سمجھے؟ صبر کریں جناب! اگلے ہفتے بطور کامل قرآن سے یہ مطالب آپ کے سامنے پیش کروں گا ۔ جی ہاں! آپ یہ توقع نہ رکھیں کہ قرآن کریم جب بات کرتا ہے تو آپ کی اصطلاحات کے مطابق گفتگو کرے قرآن کی اپنی اصطلاحات ہیں۔ آپ کہیں گے کہ قرآن میں کہاں پر حد و محدود کی بات ہے؟ کس نے کہا ہے کہ خداوند متعال جب بات کرنا چاہے تو وہ آپ کےکلامی مبانی کے مطابق بات کرے؟ یا آپ کی لفظی اصطلاحات کے ساتھ بات کرے؟! اس کی اپنی اصطلاحات ہیں ضروری ہے کہ آپ قرآنی اصطلاحات کو (درک کریں) لذا ہم نے "منطق فھم القرآن” میں کہا ہے: ان للقرآن لغۃ خاصۃ بہ (قرآن کریم کی ایک خاص لغت ہے )ضروری ہے کہ قرآن کی لغت کو سمجھیں ولا يكفي لمن فہم العربیۃ أن يفہم القرآن(اور صرف یہ کافی نہیں ہے کہ جو عربی سمجھ گیا وہ قرآن کو بھی سمجھ لے) کیونکہ قرآن کی اپنی لغت ہے لغت یعنی کیا؟ اس کی اپنی اصطلاحات ہیں۔ قرآنی اصطلاحات کو سمجھيں،خود قرآن کيا کہتا ہے؟ قرآن سےاس کا استخراج کريں گے اور روايات بھی شاھد بنيں گی؟ پس توجہ کريں! وہ کيا کہتے ہيں؟ نہ ہرگز نہيں! اس بينونت کو بچانے کا سب سے بہترين راستہ يہ ہے کہ ہم کہيں : وہ محدود ہے ؛بائن عن خلقہ و خلقہ بائن عنہ(وہ اپنی مخلوق سے جدا ہے اور اس کی مخلوق اس سے جدا ہے)۔
    اب آپ نے توجہ کی کہ ان کی مشکل کيا تھی؟ ايسا نہيں تھا کہ سب کے سب ہٹ دھرم تھے وغيرہ وغيرہ !! نہيں ايسا نہيں تھا بلکہ وہ مشکل سے دوچار ہوئے اور يہ مشکل حل ہوئی يا نہيں؟ حل نہيں ہوئی، راہ حل کي تلاش کے ليے کس طرف گئے؟ اہل بيت (ع) کی رہنمائی پر بھي اعتقاد نہيں رکھتا تھا کہ ثقل اہل بيت(ع) کی طرف رجوع کرتا اس نے ابو ہريرہ کي روايات يا پھر اپني عقل کي طرف رجوع کيا ، پس نتيجہ کيا نکلا ؟ وہي جس تک وہ پہنچا!!

    • تاریخ : 2016/10/09
    • صارفین کی تعداد : 1271

  • خصوصی ویڈیوز