پہلا نظريہ یہ ہے کہ پيغمبر اسلام (ص) اور آئمہ طاہرين (ع) کو ولايت تکوينی اور ولايت تشريعی نہيں دی گئی (ان معنوں ميں جن کی طرف اشارہ کروں گا، بلکہ رسول اکرم(ص) کو فقط ابلاغِ رسالت اور احکامِ الہی کے بيان کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی سوال کرے : پس يہ تمام معجزات جو ان کے وجود سے صادر ہوئے ہيں؛ کيا ہيں؟ ان کا جواب یہ ہے کہ يہ معجزات اور کرامات جو ظاہر ہوئے ہيں؛ صرف اللہ تعالی کا فعل ہے اور پيغمبر (ص) يا امام معصوم(ع) کی دعا کے وقت وقوع پذير ہوا ہے؛ يہ خود پيغمبر (ص) يا امام (ع) کا فعل نہيں ہے۔ يعنی جب ہم امام معصوم(ص) سے کسی کرامت کا مشاہدہ کريں يا پيغمبر(ص) سے معجزہ ديکھيں تو يہ معجزات اور کرامات باذن اللہ "ان کا فعل” نہيں ہے بلکہ "فعلِ خدا” ہے اور – الہی حکمت اور مصلحت سے – پيغمبر (ص) يا امام(ع) کی دعا سے ظاہر ہوا ہے۔ يہ پہلا نظريہ ہے!
اور دوسرے نظريے کے قائل افراد کا خيال ہے کہ پيغمبر (ص) اور آئمہ طاہرين (ع) ولايتِ تکوينی يا اسی ولايتِ حقيقی کے مالک ہيں۔ ولايتِ تکوينی کی اصطلاح جو عوام ميں اور حتی بعض خواص ميں رائج ہے اس معنی ميں ہے کہ ولايتِ تکوينی کا کلمہ سنتے ہی تيزی سے ان کے ذہنوں ميں مردوں کے زندہ ہونے (اور اس نوع کے ديگر خارق العادۃ امور) کا تصور پيدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ يعنی باہر کی دنيا اور کائنات ميں دخل و تصرّف( يہ ہے دوسرا نظريہ)۔ ليکن جب شيعہ علما کہتے ہيں کہ وہ پيغمبر (ص) اور آئمہ اطہار(ع)کی ولايت تکوينی کے قائل ہيں تو ولايت تکوينی سے ان کی مراد، ولايت تکوينی کے صرف اسی معنی تک محدود نہيں ہے بلکہ ان کے مد نظر ايک وسيع تر معنی ہے.
يہ معنی کيا ہے ؟
(بعض شيعہ علما) کا خيال ہے کہ پيغمبر (ص) اورآئمہ طاہرين (ع) فيضِ الہی کا واسطہ ہيں۔ فيضِ الہی کے واسطے کا کيا معنی ہے؟ يعنی وہ کائنات کی تمام مخلوقات کے پيدا ہونے کی علتوں کے مقام پر فائز ہيں۔ يہ امر تصرّفِ تکوينی سے ہٹ کر ہے (يعنی اس سے بھی بالاتر اور عميق تر ہے) چونکہ قرآن کی تصريح کے مطابق "جن” بھی (اذنِ الہی) سے تکوينی تصرّف کی طاقت رکھتے ہيں۔ جیسا کہ قرآن میں فرمانِ الہی ہے : جنّات ميں سے ايک قوی ہيکل جن نے کہا : کہ قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھيں ميں اس کو آپ کے پاس لاحاضر کرتا ہوں اور ميں اس (کے اٹھانے کی) طاقت رکھتا ہوں (اور) امانت دار ہوں (النمل:32)۔ يہ جن تو فيضِ الہی کا واسطہ نہيں ہے! اور مخلوقات کی عللِ پيدائش کے مرتبے پر فائز نہيں ہے، ليکن کائنات ميں تصرّف کی طاقت رکھتا ہے ۔ بالفاظ ديگر مذہب اماميہ کے محققين، عرفاء اور علماء قائل ہيں : پيغمبر (ص) اور آئمہ اطہار(ع)حقيقی ولايت يا وہی ولايت تکوينی کے حامل ہيں ۔ ان کی مراد ولايت تکوينی کا وہ معنی نہيں ہے جو اس جن کے پاس بھی تھا! اور اسی طرح يہ ولايت تکوينی جو اہل بيت (ع) کے ساتھ مختص ہے ولايت تکوينی کی اس قسم سے نہيں ہے جو "آصف بن برخيا” کے پاس تھی اور قرآن نے ان کے بارے ميں ذکر کيا ہے (کہ ان کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا) ! ہرگز نہیں بلکہ شيعہ علما کے اس گروہ کی ولايت تکوينی کی اس خاص قسم سے مراد يہ ہے کہ : "اس جہاں کی طرف کوئی چيز نازل نہيں ہوتی مگر چودہ معصومين(ع) کے واسطے سے اسی طرح، اس جہاں سے کوئی چيز بھی اللہ تعالی کی طرف بلند نہيں ہوتی مگر ان(عليھم السلام) کے واسطے سے ۔ اور اہل بيت(ع) کا اس جہاں ميں –عللِ فاعلی- ہونے کا معنی بھی يہی ہے اور اہل بيت(ع) کے -عللِ غائی- ہونے کا معنی بھی يہی ہے ۔ اب يہ کہ اس دعوے کی دليل کہاں ہے؟ ضروری ہے کہ اس کی اپنے مقام پر بحث کی جائے ۔ اس وقت ميں اپنے عقيدے کی طرف اشارہ کر رہا ہوں، ايک "فتوے” کے قالب ميں (ورنہ اس دعوے کی تفصيلی ادّلہ کو اس کے مقام پر ذکر کر چکا ہوں)۔ يہاں اس مطلب کی تائيد ميں آپ کے سامنے فقط ايک روايت پڑھ رہا ہوں يہ روايت بحار الانوار، جلد 15، ص 8 پر وارد ہوئی ہے۔ عبارت يہ ہے اور اس کی روايت طولانی ہے، ابوذر غفاری فرماتے ہيں کہ پيغمبر (ص) نے فرمايا : "جو کچھ بھی خداوند متعال کی طرف سے بھيجا گيا ہے وہ (پہلے) آپ پر نازل ہوتا ہے”۔
کيا نازل ہوا ہے؟ وہ امور نازل ہوئے ہيں جو يا حقيقتِ وجود سے مربوط ہيں (کان تامہ کا معنی) يا وجود کے کمالات سے مربوط ہيں ( کان ناقصہ کا معنی) ۔”اور جو کچھ خدا کی طرف بلند ہوتا ہے آپ کے واسطے سے بلند ہوتا ہے "۔ يہ مطلب وہی ہے جس کو آپ ہميشہ زيارت جامعہ کبيرہ ميں پڑھتے ہيں : "خدا نے آپ کے ذريعے آغاز کيا اور آپ ہی پر اختتام کرے گا” ۔ يہ ولايت(واسطہ فيض ہونا) اس ولايت سے کہيں زيادہ وسيع ہے کہ جس کے بارے ميں قرآن فرماتا ہے (ولايتِ تکوينی) ": پھر موسی نے بھی اپنا عصا ڈال ديا تو لوگوں نے اچانک کيا ديکھا کہ وہ سب کے جادو کو نگلے جارہا ہے” (شعراء: 45) ۔ يا اس کی ولايت جو مردے کو زندہ کرتا ہے نہيں ايسا نہيں ہے! جيسا کہ ميں نے کہا ہے کہ ولايت کی يہ قسم( موجودات عالم ميں دخل و تصرّف) تو ايک جن ميں بھی ہو سکتی ہے۔ ميں ان افراد ميں سے ہوں جو اہل بيت (ع) کے بارے ميں تيسرے نظريے (ولايت تکوينی کے حوالے سے دوسرے نقطہ نظر) -وہ بھی اس کے وسيع ترين ابعاد ميں- کے قائل ہيں۔ اب، اگر کوئی اس نظريے کو "غلو” سے تعبير کرے گا تو ميں بھی اس کے نقطہ نظر کو نظامِ ہستی ميں اہل بيت(ع) کے مقام کو سمجھنے ميں "قصور” اور "کوتاہی” سے تعبير کروں گا۔ اگر کوئی مجھے يہ کہے گا کہ تم "غالی” ہو تو ميں بھی اسے کہوں گا کہ تم "مقصّر” ہو! مگر يہ کہ وہ کہے: يہ ميری رائے ہے، ميں بھی کہوں گا: يہ ميری رائے ہے۔ ليکن اگر کوئی مجھ پر تہمت لگائے گا تو ميں بھی وہی سلوک کروں گا (يعنی تہمت کی بجائے، ضروری ہے کہ ہر کوئی اپنی دليل اور برہان پيش کرے تاکہ معلوم ہو جائے کہ حق کس کے ساتھ ہے)۔ اس دعوے (واسطہ فيض کے نظريے) پر بے شمار دليليں موجود ہيں، ہم قرآن کی رو سے کہہ رہے ہيں نہ کہ صرف روايات سے ۔ آپ کو پروردگار متعال کے اس قول سے کيا سمجھ آتا ہے: «تَنَزَّلُ المَلائِکَۃ وَ الرُّوحُ فِيہا بِإذنِ رَبِّہم مِن کُلِّ أَمرٍ»” اس (رات) ميں فرشتے اور روح الامين (جبرائيل) اپنے رب کے حکم سے (خير و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہيں” (قدر:4)۔ لفظ "کل أمر” تمام امور کو شامل ہے: زندگی، موت، صحت، رزق وغيرہ اور يہ تمام امور شب قدر ميں کس پر نازل ہونے چاہئيں؟ ہر صاحب الامر پر، اس زمانے کے امام پر اس بنا پر، جو بھی چاہتا ہے کہ "امامت” کی بحث کو مکمل کرے (اور اس کو بہترين انداز سے سيکھے) اس کيلئے سورہ قدر کو سمجھنا ضروری ہے۔ اور جو کوئی "توحيد” کی بحث کو اچھی طرح سمجھنا چاہتا ہے تو اس کيلئے سورہ توحيد کی تعليم ضروری ہے۔