"اصل الوجود قبل المعرفۃ "(اصلِ وجود معرفت سے پہلے ہے ) ، جی ہاں مسلم ہے کيونکہ اصلِ وجود کان تامہ کے ساتھ مربوط ہے اور معرفت اللہ کا ربط کان ناقصہ کے ساتھ ہے ۔اور مسلّم ہے کہ ہر کان تامہ کان ناقصہ سے قبل ہے ۔ليکن قرآن نے خدا کے وجود کو فطری قرار ديا ہے ،اس ميں بحث کی کوئی ضرورت نہيں ہے۔ فرماتا ہے کہ کون ہے جو ميرا انکار کرے ؟ وہ جو ميرا منکر ہے ( خود ہی)مجھے ثابت کرنے والا ہے؛” قَالَتْ رُسُلُھُمْ أَفِي اللَّـہ شَکٌ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْض "(ان کے پيغمبروں نے کہا: کيا اللہ کے بارے ميں شک ہے جو آسمانوں اور زمين کا پيدا فرمانے والا ہے)، کيا کسی نے شک کيا ہے ؟
لہذا اصول دين کی ابتدا کہاں سے کی گئی ہے ؟ توحيد سے ، آپ کہيں گے کہ توحيد سے پہلے کيا ہے ؟! … يہی آپ کا سوال اب صرف يہيں پر تو پيدا نہيں ہوگا! اصول دين ميں بھی ہو گا ، جناب اصول دين کيا ہے ؟ کيا پہلی اصل وجودِ خدا کا اثبات ہے يا پہلی اصل توحيد ہے ؟ ميں کہہ رہا ہوں يہ مقدّمہ ہے ، اصل کيا ہے ؟ اصل وجودِ خدا کا اثبات نہيں ہے اصل توحيد ہے! اصل وجود، پہلے سے ثابت ہے۔ اس ليے ہم نے کتاب توحيد لکھی اور اس کے مقدّمے ميں بھی کہا ہے کہ آيا توحيد کے اثبات سے پہلے اصل وجود کو ثابت کرنا چاہئيے ؟
اس وقت ہماری ايک کتاب اشاعت کے مراحل ميں ہے تقريبا 250 صفحوں پر مشتمل ہے،”براھين اثبات وجود اللہ"۔ وہاں ہم نے ان تمام براھين کو ايک جگہ جمع کيا جنہيں ہم نے اپنی مختلف کتابوں ميں پيش کيا ہے۔ چونکہ اہل مغرب نے ان پر کام کيا ہے کہ فلاسفہ کے پاس وجودِ خدا کو ثابت کرنے کے ليے آٹھ برہان ہيں اور يہ آٹھ کے آٹھ برہان مصادرہ ہيں۔ اور انہوں نے ان تمام کو رد کيا ہے۔ آغا جوادی آملی کی ايک کتاب ہے ، يہ ان آٹھ براہين کے رد کا جواب ہے۔ اگر کوئی ان کا تفصيل سے مطالعہ کرنا چاہتا ہے تو برطانيہ سے شائع ہونے والے "اسلامی انسائيکلوپيڈيا” کی طرف رجوع کرے۔ انہوں نے ان تمام آٹھ براہين کو ذکر کرنے کے بعد سب کو رد کيا ہے۔ کہتے ہيں : آپ کے پاس وجودِ خدا کے اثبات کے ليے کوئی برہان نہيں ہے ۔ برہان نظم کو ہيوم نے رد کيا ہے، فلاں برہان کو مثلا کانٹ نے رد کيا ہے، برہان عليّت کو کسی دوسرے نے رد کيا سب نے ايک ايک کر کے ان کو رد کيا ہے۔ اب وہ ايک دوسری بحث ہے جس پر اس بحث سے پہلے کام کيا جانا چاہيے۔
معرفت اللہ ايک عام عنوان ہے جيسے ميں آپ کو کہتا ہوں کہ آغا آپ کو فقہ کی معرفت ہونی چاہيے۔ آپ سوال کريں گے کہ کيا مطلب فقہ کی معرفت ہونی چاہيے ؟ يعنی فقہ کا علم ہونا چاہيے اب فقہ کيا ہے ؟ فقہ کتاب الاجتہاد و التقليد ہے ، کتاب صلاة ہے ، کتاب الزکاة ہے اور کتاب الخمس وغيرہ ہے ، يہ سب کيا ہيں ؟ علم فقہ کے مسائل ہيں ہم نے ابھی کہا ہے کہ معرفت اللہ وہ پہلا مسئلہ ہے جسے اسلامی تعليمات کے مسائل ميں سرفہرست ہونا چاہيے ۔
پھر ہم نے کہا کہ خود معرفت اللہ کے ذيل ميں کتنے مسائل ہيں؟ ہم نے کہا: اس کا پہلا مسئلہ کيا ہے ؟ توحيد نہيں ہے بلکہ اس کا پہلا مسئلہ نفی حد ہے ۔نفی حد ہميں کہاں تک لے جائے گی ؟ لہذا اہلبيت(ع) اور ان کے بعد تمام بزرگ علما ، فلاسفہ اور اہل کلام اور اخباريوں کی اس بات پر تاکيد ہے۔ يہ کتاب : "ھدايۃ الأمۃ إلی معارف الأئمۃ ” آغا خراسانی کی ہے کہ جنہيں آپ جانتے ہيں ۔”محمد جواد بن محسن بن حسين خراسانی” جو تفکيکی روش کے بڑے علما ميں سے ہيں ، آپ جانتے ہيں اور دوستوں نے کتاب کا مطالعہ کيا ہو گا۔ صفحہ نمبر 168 ، فرماتے ہيں : "فصل: و من ذلک أنّہ تعالی عندھم غير محدود ” ،عندھم يعنی آئمہ کے نزديک کيونکہ آئمہ(عليھم السلام) کے بارے ميں گفتگو چل رہی ہے۔”غير محدود و لا متناہ و ھذا الفصل کالاصل بالنسبۃ الی غيرہ” بنيادی طور پر معرفت اللہ کے تمام مسائل کی بنياد کيا ہے ؟ نفی عدّ نہيں ہے بلکہ نفی حد ہے۔
يہاں سے ہم کہاں جائيں گے ؟ نفی حد کا پہلا مسئلہ کيا ہو گا؟ توحيد ہے کہ جب ہم کہتے ہيں کہ اسے واحد ہونا چاہيے اور يہ وحدت کون سی ہے ؟ وحدت عددی نہيں ہے ، کيوں؟! کيونکہ اگر وحدت عددی ہو تو دوبارہ محدوديت کی طرف پلٹ جائے گی يعنی دوئيت لازم آئے گی۔ لہذا ہم نے اپنی کتاب "التوحيد” ميں لکھا ہے کہ ايسا نہيں ہے کہ خدا کا کوئی ثانی نہيں ہے۔ بلکہ محال ہے کہ خدا کا کوئی ثانی ہو۔ بہت زيادہ فرق ہےاس ميں کہ خدا کا کوئی ثانی نہيں ہے يعنی ثانی کا امکان ہے ليکن واقع نہيں ہوا،چونکہ امکان وقوع سے عام ہے۔ ہم نے کہا ہے کہ اثبات کريں چونکہ توحيد ميں وقوع کی نفی کرنا کافی نہيں ہے۔ کيونکہ وقوع کی نفی سے دوسری جانب ممتنع نہيں قرار پاتی، فقط کہتی ہے کہ واقع نہيں ہوا۔ اور آيا عدمِ وقوع امتناع پر دلالت کرتا ہے ؟ حتی آيا امتناعِ وقوع، ذاتی امتناع پر دلالت کرتا ہے ؟نہيں۔
جناب! ہم فلسفے ميں پڑھ چکے ہيں کہ ايک ذاتی امتناع ہوتا ہے اور ايک وقوعی امتناع ہے۔ ہميں يہ ثابت کرنا چاہيے کہ آيا ممکن ہے کہ خدا کا کوئی ثانی ہو؟ نہ يہ کہ ثانی نہيں ہے جيسے کہا جائے کہ خدا کا کوئی ثانی تو نہيں ہے ليکن فرض کيا جاسکتا ہے۔جيسے فرض کريں کہ آيا پيغمبر(ص) جو صادر اوّل ہيں ، دوّم رکھتے ہيں؟ نہيں ! نہيں رکھتے چونکہ خود صادر اوّل ہيں ان سے افضل يا مساوی ہو؟ نہيں وہ بھی نہيں ہے۔
سوال : آيا خدا کا ثانی ہو سکتا ہے يا نہيں ؟ اس کو نفی حد کی بنياد پر درست کيا جا سکتا ہے۔ ليکن اگر آپ حد کے قائل ہو گئے تو ثانی کی نفی تو صرف يہی کہتی ہے کہ ہمارے پاس برہان ہے کہ اس کا کوئی ثانی نہيں ہے۔ ثانی کا نہ ہونا ايک مسئلہ ہے اور ہرگز نہيں ہو سکتا ايک دوسرا مسئلہ ہے۔
اور يہ کہ ہرگز نہيں ہو سکتا کس کے ساتھ مربوط ہے ؟ حد کی نفی کے ساتھ ۔ کيونکہ اگر محدود ہو گيا تو معدود ہو جائے گا۔ پس ديکھيے آغا! تمام تر مسائل کس طرف پلٹتے ہيں؟ نفی حد کی طرف لہذا جناب عرفاء کے مبانی ہوں يا حکما کے مبانی خواہ مشائی حکما ہوں يا حکمتِ متعاليہ کے حکما۔ ميرے نزديک اشراق، حکمت متعاليہ کے مبانی سے ہٹ کر کوئی نيا مبنی نہيں ہے ،اشراقيوں کے مبانی وہی حکمت متعاليہ والے ہيں۔اور ميں يہ بھی کہہ دوں کہ ميرا نہيں خيال کہ حکمت متعاليہ کے پاس بھی عرفا کے نظريہ "وحدتِ وجودِ شخصی” کے علاوہ کوئی نيا مبنی ہے۔ وہی مبنی ہے بس الفاظ بدل گئے ہيں۔ ملا صدرا نے وحدتِ وجود کے علاوہ کوئی نيا مبنی پيش نہيں کيا ہے ۔انہوں نے وہی سب باتيں کی ہيں جو وحدتِ وجود کے ماننے والے کرتے ہيں ليکن دوسرے الفاظ ميں۔
لہذا ميرے بزرگ اساتذہ جيسے آغا جوادی آملی ، آغا حسن زادہ آملی اور ديگر علما جو يہ کہتے ہيں کہ ہمارے پاس عرفان ہے ، حکمت ہے؛ حکمتِ مشائی ہے ، حکمتِ اشراقی ہے، حکمتِ متعاليہ ہے۔ ليکن ميرے خيال ميں ہمارے پاس يا مشائی فکر ہے يا عرفان ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ اور نہيں ہے !اب يا آپ مشائی بن جائيں يا وحدت وجود کے قائل ہو جائيں، اب اپنے ليے جو بھی نام انتخاب کر ليں ۔اور ميں نے اس مطلب پر اس کی مربوطہ بحث ميں برہان بھی قائم کيا ہے ۔
اب آپ پوچھيں گے کہ مشائی کس چيز کے قائل ہيں ؟ مشائی بينونت(جدائی) کے قائل ہوئے ہيں۔ لہذا وہ عددی وحدت کے قائل ہو گے۔ تمام مشائی خدا کی عددی وحدت کے قائل ہيں کيوں؟ کيونکہ اگر عددی وحدت نہ ہو تو بينونت حاصل نہيں ہو گی۔ وہی باتيں جو دوسروں نے کی ہيں متکلمين وغيرہ نے! اور میں ان کی عبارتيں بھی پيش کروں گا؛ ميرا مبنی يہ ہے کہ جب ميں کسی کی طرف کوئی نسبت ديتا ہوں تو حوالہ بھی ديتا ہوں۔
انشاء اللہ اگلے ہفتے ہم محدوديت اور برہان محدوديت کے مسئلے پر بحث کريں گے تا کہ اس کی بنياد پر آپ دوسرے مسائل کو خود جا کر حل کريں۔ کيونکہ اگر ہم ان ميں وارد ہو گئے تو پھر ديگر مطالب کو بھی پيش کرنا پڑے گا جس کيلئے بہت زيادہ وقت کی ضرورت ہے ۔