مقالات و آراء

  • ’’معرفت اللہ‘‘ کے عنوان سے سلسلہ وار مباحث (8)

  • میرا خیال یہ ہے کہ بنیادی طور پر تمام دینی تعلیمات کی اساس اگر توحیدی معارف پر نہ رکھی جائے تو نتیجہ خیز نہیں ہو گی۔ تمام تعلیمات کی اصل توحیدی معارف ہیں، یعنی اگر ہم توحیدی معارف کا اچھی طرح سے ادراک اور ان کی تشریح نہ کر پائے تو یقین کریں کہ آپ نبوت کی تعلیمات میں بھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ اسی طرح امامت کی تعلیمات میں بھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکیں۔ اور دوسرے لوگ جن خطاؤں سے دوچار ہوئے ہیں؛ یعنی نبوت میں ،امامت میں ، عام دینی تعلیمات میں ان کا بنیادی منشا وہ اشتباہات ہیں جو توحیدی معارف میں ان سے سرزد ہوئے۔ لہذا آپ دیکھتے ہیں کہ اہل بیت (ع) نے بھی اسی مسئلے پر توجہ دی ہے ۔
    یعنی میں نے روایات میں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی جو توحیدی معارف کی ہم پلہ ہو۔ ایسی کوئی چیز نہیں ہے، جو کچھ بھی ہے؛ توحیدی معارف کی جزئیات میں سے ہے ۔ حتی یہ کہ ہمارے مطالب صرف عقلی دلیل کے حامل نہ ہوں؛ اور ان افراد کو مدنظر رکھتے ہوئے جن کی روش روایت اور نقل والی ہے ہم عام طور پر نقلی دلیل کو بھی لاتے ہیں تاکہ وہ لوگ جو کہتے ہیں تاکہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ کس نے ایسا کہا ہے؟ ضروری ہے کہ اہل بیت (ع) نے ایسا کہا ہو، تو ہم ان کے سامنے اہل بیت(ع) کی روایت کو بھی پیش کر دیتے ہیں۔
    جو روایت اس مقام پر ہے، کتاب کافی میں نقل ہوئی ہے۔ جس "کافی” کا میں حوالہ دے رہا ہوں؛ یہ وہی "مرکز بحوث دار الحدیث” کی شائع کردہ ہے؛ یعنی وہی ۱۵ جلدوں والی نہ کہ ۸ جلدوں والی ۔ اور اگر ساتھیوں کے پاس ۸ جلدی بھی ہو تو میں اس کی طرف بھی اشارہ کروں گا اور اگر کہیں اشارہ نہ کیا تو مجھے یاددہانی کرا دیں تاکہ میں اسے بیان کردوں۔ اسی چھٹی جلد میں ، جلد ششم کے آغاز میں عنوان” کتاب صلاۃباب فضل الصلاۃ” کے ذیل میں، اور اس ۸ جلدی میں؛ جلد سوّم ، صفحہ 264 ۔ یہاں پر جلد ششم ، صفحہ 7 روایت کی سند کے اعتبار سے؛ آپ کو معلوم ہے کہ "آقا بہبودی” وسیع النظر نہیں ہیں، واقعا وہ سخت گیر ہیں وہ روایت کو صحیح قرار دیتے ہیں ، صحیح کافی ،جلد 1 ،صفحہ 255، اسی روایت کوصاحب مرآۃ العقول ، جلد 15 ، صفحہ5 ، پر صحیح قرار دیتے ہیں۔ پس سند کے اعتبار سے روایت صحیح ہے نہ فقط صحیح ہے بلکہ صحیح اعلائی بھی ہے۔
    جب آپ سند کو دیکھیں تو وہ یہ ہے:” قال محمد بن یعقوب الکلینی مصنف ھذہ الکتاب حدثنی محمد بن یحیی عن احمد بن محمد بن عیسی عن الحسن بن المحبوب عن معاویہ بن وھب قال سئلت أبی عبداللہ صادق (ع) عَن اَفضَل ما یتَقرّبُ بِہ العِباد اِلی رَبِھم”وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابا عبد اللہ امام صادق(ع) سے اس بہترین چیز کے بارے میں سوال کیا جس کے ذریعے بندے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ روایت بہت واضح ہے : وہ بہترین چیز جس کے ذریعے بندے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کیا ہے ؟ اللہ کے نزدیک سب سے افضل اور محبوب ترین ؟ روایت اور اس میں موجود دقت کو ملاحظہ کریں، پس امام(ع) نے فرمایا: "میں معرفت کے بعد کسی بھی چیز کو اس نماز سے افضل نہیں سمجھتا”، اس معرفت سے میری مراد ، وہی معرفت ہے جو دوسری روایات میں بیان ہوئی ہے۔ دین کی ابتدا اللہ کی معرفت ہے ، اس میں باقی معارف بھی شامل ہیں۔ لیکن ان کی ابتدا کہاں سے ہے؟ ان کی ابتدا توحیدی معارف سے ہے ۔"ما أعلَمُ شیئً بعد المعرفۃ أفضل من ھذہ الصلاۃ "میں معرفت کے بعد کسی چیز کو بھی اس نماز سے افضل نہیں سمجھتا ۔
    اب ان نکات کو آپ روایات میں دیکھیں، اہل بیت(ع) فقط حکم بیان نہیں کرتے بعض جگہ حکم بیان کرتے ہیں لیکن بہت ساری جگہوں پر جب مسئلے کی وضاحت کرتے ہیں تو استدلال بھی پیش کرتے ہیں۔ عزیزان ! روایات سے ان نکات کو سیکھیں ۔ اہل بیت(ع) عام طور پر جب کسی مطلب کو بیان کرتے ہیں تو اس کی دلیل بھی لاتے ہیں اور عموما دلیل بھی قرآن سے لے کر آتے ہیں ۔”…الا تری ان العبد الصالح عیسی بن مریم قال : وَ أَوْصانِي بِالصَّلاۃ وَ الزَّكاۃ ما دُمْتُ حَيًّا ” کیا تم نہیں دیکھتے کہ عبد صالح عیسٰی بن مریم نے کہا : "اور میں جب تک (بھی) زندہ ہوں اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم فرمایا ہے”۔ معرفت کا مسئلہ تو مسلّم ہے ؛ اب آپ کس وجہ سے فرما رہے ہیں کہ نماز، معرفت کے بعد ہے؟ فرماتے ہیں: دیکھیے! عیسٰی فرما رہے ہیں کہ مجھے نماز کا حکم دیا ہے جب تک میں زندہ ہوں۔ اور اس باب کی دیگر روایات بھی اس امر پر شاہد ہیں جیسا کہ تیسری جلد میں بھی ایک روایت ہے کہ افسوس میں وہ کتاب ہمراہ نہیں لایا۔ جلد سوم، صفحہ 90 و 91 پر یہ روایت موجود ہے ۔ لیکن ممکن ہے کہ وہاں اس کی سنّد پر اشکال ہو لیکن اس کا مضمون یہی مضمون ہے۔ قرب خدا کے لیے بہترین چیز کیا ہے؟ توحید ہے ، توحیدی معارف ہیں۔ وہ روایت، اس روایت سے زیادہ واضح ہے ، میں نے اس روایت کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ اس کی سند اس روایت سے بہتر ہے۔
    شیخ انصاری کتاب فرائد ،مجموعہ "تراث الشیخ الاعظم” کی، جلد اول ، صفحہ 559 پر اس روایت کے ذیل میں فرماتے ہیں :"نعم یمکن أن یقال إن مقتضی عموم وجوب المعرفۃ مثل قولہ و ما خلقت الجن و الإنس الا لیعبدون” البتہ یہ کہنا ممکن ہے کہ وجوبِ معرفت کی عام ادلہ؛ جیسے ارشاد ہے: وَ ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلاَّ لِيَعْبُدُونِ (ذاریات:56)۔ جناب! اس مسئلے کی کیفیت کیا ہے؟ یہ آیت عبادت سے مربوط ہے، وہ معرفت کے وجوب پر استدلال کرنا چاہتے ہیں! فرماتے ہیں: (لیعبدون أی لیعرفون) "تاکہ عبادت کریں یعنی تاکہ معرفت حاصل کریں؛ "لیعبدون” کا مطلب "لیعرفون” ہے اس حوالے سے ایک روایت ہے؛ جو ظاہرا امام سجاد(ع) سے ہونی چاہئیے؛ فرماتے ہیں:” وَ ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلاَّ لِیعْبُدُونِ أی لِیعرِفون” کا مطلب یہ ہے ” لِیعرِفون” تاکہ میری معرفت حاصل کریں۔
    ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ عبادت کا مقدّمہ کیا ہے ؟ معرفت ہے ! ورنہ وہ شخص جو معرفت نہیں رکھتا ممکن ہے کہ اس کی عبادت جس قدر زیادہ ہو "لاَ یزِیدُہ سُرْعَۃ اَلسَّیرِ إِلاَّ بُعْدا "سیر و سلوک کی سرعت سے اس کی دوری مزید بڑھ جاتی ہے ۔ کیونکہ اگر ہدایت؛ درست علم اور صحیح معرفت کی بنیاد پر نہ ہو تو سیروسلوک میں سرعت سے انسان کسی نتیجے تک نہیں پہنچتا ۔"ما أعلم شیئا بعد المعرفۃ افضل من ھذہ الصلوٰۃ الخمس”میں معرفت کے بعد کسی چیز کو ان پانچ نمازوں سے افضل نہیں سمجھتا۔ اب اس روایت کہ جسے ہم نے پڑھا ہے؛ اب اس کا محل شاہد ؛” بناء عَلی أن الأفضلیۃ من الواجب خصوصاً مثل الصلاۃ تستلزم الوجوب ایضا” اس بنا پر کہ واجب (بالخصوص نماز جیسے) سے افضل ہونا؛ وجوب کو ضروری قرار دیتا ہے۔ اگر کوئی چیز واجب سے افضل ہو جائے تو وہ مستحب نہیں رہے گی۔ آیا ممکن ہے کہ مستحب واجب سے افضل ہو ؟ خصوصا وہ بھی کون سا واجب؟ نماز جیسا واجب "التی ھی عمود دینکم إن قبلت قبل ما سواھا”جو آپ کے دین کا ستون ہے اگر قبول ہو گئی تو ہر عمل قبول ہو جائے گا ۔ جب کوئی چیز دین کے ستون سے بھی افضل ہوجائے تو پھر وہ ایک مستحب امر نہیں ہو سکتی ۔ پس وہ کیا ہے؟ پس اگر اس کا واجب ہونا، اہم نہ ہو تو پھر بھی حد اقل نماز کے وجوب سے کم نہیں ہو گا۔” بناءً علی أن الأفضلیۃ من الواجب خصوصاً مثل الصلاۃ تستلزم الوجوب و کذا عمومات وجوب تفقہ فی الدین لیتفقہ فی الدین” اس بنا پر کہ واجب، بالخصوص نماز جیسے؛ سے افضلیت، وجوب کو ضروری قرار دیتی ہے اور اسی طرح وجوبِ "تفقّہ فی الدین” کے عمومات؛ (لیتفقھوا فی الدین)۔
    پس یہ تفقہ جو آیت میں ذکر ہوا ہے یہ فقہ اصغر میں تفقہ نہیں ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں: اسی طرح "تفقہ فی الدین” جو معارف کو شامل ہے؛ کے وجوب کی عام ادلہ تمام معارف کو شامل ہے ، نہ وہ جو فقہ اصغر یعنی حلال و حرام اور رسالہ عملیہ کے ساتھ مخصوص ہے، ایسا نہیں ہے۔ کس قرینہ کی وجہ سے؟ اب شیخ انصاری نے خارجی قرینے کا سہارا لیا ہے۔ میرے نزدیک خارجی قرینے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ یہ "تفقہ فی الدین” پر مشتمل ہے اور دین کے بارے میں کسی نے نہیں کہا کہ یہ "فقہ اصغر” کے مساوی ہے۔ سوائے حوزے کی اصطلاح کے، حوزے کی اصطلاح میں دین، فقہ اصغر کے مساوی ہو چکا ہے۔ ورنہ قرآنی ادّلہ کی بنیاد پر دین میں تفقہ، اعتقادی و ایمانی تعلیمات، عملی معارف اور فقہ اصغر کو شامل ہے۔ اب یہاں پر فرما رہے ہیں: ہم خارجی قرینے کا سہارا لے رہے ہیں :” استشھاد الامام بالآیۃ لوجوب النفر لمعرفۃ الامام” امام کی جانب سے آیت کے ذریعے استدلال کہ معرفت امام کے لیے "نفر” واجب ہے۔ کہتے ہیں کہ یقینا مسئلہ امامت بھی فقہ اصغر کے مسائل میں سے نہیں ہے بلکہ عقائد کے مسائل میں سے ہے ۔ "بعد موت الامام السابق علیہ السلام ، و عمومات طلب العلم ھو وجوب معرفۃ اللہ جل ذكرہ” سابق امام کی موت کے بعد؛ اور حصول علم کی عام ادلہ؛ (ان سب ادّلہ) کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی معرفت واجب ہے ۔ "و معرفۃ النبی و معرفۃ الامام و معرفۃ ما جاء بہ النبی” نبی کی معرفت واجب ہے، امام کی معرفت واجب ہے اور جو کچھ نبی لے کر آئے ہیں؛ اس کی معرفت واجب ہے ۔ ” علی كل قادر یتمكن من تحصیل العلم”ہر اس شائستہ شخص پر جو علم حاصل کر سکتا ہو۔
    اب جو شخص علم حاصل نہیں کر سکتا تو اسے کیا کرنا چاہیے ؟ یہ ایک الگ بحث ہے کہ آیا اس کے لیے تقلید جائز ہے یا تقلید جائز نہیں ہے؟! اسی مقام پر بعض اوقات کہا جاتا ہے :"إن الاشتغال بالعلم المتكفل لمعرفۃ اللہ و معرفۃ أولیائہ” کہ اس علم میں مشغول ہونا جو خدا اور اس کے اولیاء کی معرفت کا ضامن ہو ،” أھم من الاشتغال بعلم المسائل العَملیۃ”عملی مسائل کے علم میں مشغول ہونے سے اہم ہے۔ کیونکہ افضل کی تعبیر استعمال کی گئی ہے پس عقائد کی تعلیمات، عملی معارف پر مقدّم اور ان سے اہم ہیں ” بل ھو المتعین” بلکہ یہ متعین ہے۔ نہ صرف یہ کہ افضل ہے بلکہ متعین ہے۔” لان العمل یصح عن تقلید” کیونکہ عمل، تو تقلید کے ساتھ صحیح ہے۔ ” فلا یكون الاشتغال بعلمہ إلا كفائیاً بخلاف المعارف” پس اس کے علم میں مشغول ہونا؛ واجب کفائی ہے، اور یہ معارف کے برعکس ہے۔ توضیح المسائل کی ابتدا میں کیا ہے ؟ آیا ان میں تقلید جائز ہے یا جائز نہیں ہے؟ جائز نہیں ہے ۔
    البتہ ہم اس کے قائل نہیں ہیں، یہ ہمارے علما کے درمیان مشہور ہے، وہ کہتے ہیں کہ جائز نہیں ہے ۔ میرے نزدیک تقلید جائز ہے بلکہ واجب ہے۔ کیونکہ جو لوگ فروعی مسائل میں اجتہاد نہیں کر سکتے؛ کیا وہ عقائد کے مسائل میں اجتہاد کر سکتے ہیں ؟بنیادی طور پر عملی مسائل اور فقہ اصغر میں تقلید کی ضرورت پر علما کی اہم ترین ادّلہ میں سے ایک یہ ہے؛ کیونکہ سب کے سب لوگ مجتہد نہیں بن سکتے ! فقہ اصغر میں تو انہیں کیا کرنا چاہیے ؟ یا بلا تکلیف رہیں کہ جو ضرورت کے برخلاف ہے ۔ یا ضروری ہے کہ تقلید کریں یا احتیاط کریں اور چونکہ احتیاط بھی عملی نہیں ہے؛ پس امر دائر ہے کہ یا اجتہاد یا تقلید یا احتیاط اگر احتیاط اور اجتہاد ممکن نہ ہو تو کیا باقی رہ جائے گا؟ یہ حصر عقلی ہے۔ اب یا یہ ہے یا یہ یا پھر یہ۔ تو یہ رہ جائے گا ۔خوب! اسی استدلال کو کہاں لے جائیں؟ عقائد کے مسائل میں کیا لوگ یہ توانائی رکھتے ہیں؟ اوّلا عقائدی مسائل میں احتیاط کا معنی نہیں بنتا یہ قصراور اتمام کی مانند نہیں ہیں کہ انہیں جمع کر دیا جائے ، یہ پہلی چیز اب دو راستے باقی ہیں، یا تقلید ہے یا اجتہاد! کیا عقائد کے مسائل میں تمام لوگ مجتہد بن سکتے ہیں؟ توحید میں ، نبوت میں ، معاد میں مجتہد ہو سکتے ہیں؟جو لوگ فروع میں مجتہد نہیں بن سکتے کیا عقائد میں مجتہد ہو سکتے ہیں؟ پس ہم نے ان کو بھی ان کے مقام پر مورد بحث قرار دیا ہے ۔
    بہت جالب ہے، وہ کہتے ہیں جو بھی عقائد کے مسائل میں مجتہد بننا چاہتا ہے ضروری ہے کہ وہ عقلی مسائل میں بھی مجتہد ہو اور نقلی مسائل میں بھی مجتہد ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر وہ اخباری ہو گیا اور نقلی مسائل میں مجتہد ہو گیا تو عقائدی مسائل کو بھی حل کر سکتا ہے ، نہ نہیں کر سکتا؛ اس کے پاس دونوں کا ہونا ضروری ہے۔
    "ولكن الانصاف عمن جانب الاعتساف یقتضی الاذعان” لیکن کج روی سے دور شخص کے انصاف کا تقاضا اس امر پر یقین رکھنا ہے، "بعدم التمكن من ذلك إلا للأوحدي من الناس”کہ یہ صلاحیت صرف چیدہ افراد میں ہی ہے؛عملی مسائل میں اجتہاد بہت ہے لیکن عقائدی مسائل میں اجتہاد کس کے لیے ہے ؟ لوگوں میں سے گنے چنے افراد کے لیے ۔ یقول : ” لأنّ المعرفۃ المذكورۃ لا تحصل إلا بعد تحصیل قوۃ استنباط المطالب من الأخبار” کہتے ہیں : کیونکہ مذکورہ معرفت اس وقت تک میسر نہیں ہوتی جب تک روایات سے مطالب کے استنباط کی صلاحیت حاصل نہ کی ہو؛ روایات میں مجتہد ہو۔
    "و قوۃ نظریۃ أخرى لئلا یأخذ بالأخبار المخالفۃ للبراھین العقلیۃ” اور جب تک ایک دوسری نظری قوت کو حاصل نہ کیا ہو تاکہ ان روایات کو اخذ نہ کر بیٹھے جو عقلی براہین کی مخالف ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کہے کہ روایات یہ کہتی ہیں لیکن (دوسری طرف سے) عقلی برہان اسے محال قرار دیتا ہو ایسا نہ ہو؛ ان صفات کا حامل شخص فروع میں قطعا مجتہد ہے پس اس پر تقلید کرنا حرام ہے اس کو ہم درس خارج میں ذکر کر چکے ہیں؛ یہ عبارت بہت جالب عبارت ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ وہ شخص جو فروع میں مجتہد ہے، عقائد میں بھی مجتہد ہوان دو چیزوں کے مابین کوئی لازمہ نہیں ہے۔

    • تاریخ : 2017/04/16
    • صارفین کی تعداد : 1604

  • خصوصی ویڈیوز