بسم اللہ الرحمن الرحیم و بہ نستعین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا محمد و آلہ الطيبين الطاھرين
میزبان : السّلام علیکم ! اللہ تعالٰی آپ کو سیدۃ نساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا(ع) کا یوم شہادت منانے پر عظیم اجر عطا فرمائے۔
ہم نے پچھلے پروگراموں میں امام علی(ع) کے تاویل پر جہاد کے حوالے سے بات کی پھر ہم نے رسول اللہ(ص) کی ان تدابیر کے بارے میں بات کی جو آپ(ص) نے اموی ریشہ دوانیوں سے نمؕنے کیلئے اختیار کی تھیں، یہ اس موضوع سے دور نہیں ہو گا کہ آج ہم اہل سنت کے مصادر کی روشنی میں سیدہ فاطمہ زہرا(ع) کے مقام اور مظلومیت پر بات کریں۔
کیا کوئی ایسا تمہیدی اشارہ ہے جس سے اس بحث کا گزشتہ مباحث کے ساتھ ربط واضح ہو جائے، یعنی تاویل پر جہاد اور رسول اللہ(ص) کی اختیار کردہ تدابیر کے موضوع کے ساتھ؟!
علامہ حیدری: أعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم وبہ نستعین والصلاۃ و السلام علی محمّد و آلہ الطیبین الطاھرين، اللّھم صلّ علی محمّد و آل محمّد وعجّل فرجھم.
در حقیقت جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ سیدۃ نساء العالمین حضرت زہرا(ع) کے بارے میں گفتگو کے متعدد پہلو اور بُعد ہیں، رہی یہ بات کہ اس دستاویز کو کیوں پیش کیا جا رہا ہے جو اہل سنت مصادر میں حضرت زہرا(ع) کے مقام اور مظلومیت سے متعلق ہے اور یہ بحث اس موقع پر کیوں وارد ہوئی، یعنی ان ابحاث کے ضمن میں جو تأویل پر علی(ع) کے جہاد کے بارے میں تھیں اور اسی طرح جو ان نبوی تدابیر سے متعلق تھیں جنہیں نبی(ص) نے اسلام اور خلافت کے مستقبل کو انقلاب اور اموی سازشوں سے محفوظ رکھنے کیلئے اختیار کیا تھا؛ کیونکہ میرا یہ یقین ہے کہ حضرت زہرا(ع) اس عرصے میں ایک اساسی عنصر کی حیثیت رکھتی ہیں، بالخصوص ان مہینوں میں جو رسول اعظم(ص) کی رحلت سے متصل ہیں، یعنی اگر ہم اس دورانیے میں امام امیر المومنین(ع) کے موقف کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم حضرت زہرا(ع) کے موقف کو سمجھیں، اگر ہم کربلا کے واقعات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم ان اصولوں کا مطالعہ کریں جن پر حضرت زہرا(ع) اپنے بابا کی رحلت کے بعد قائم رہیں؛ یہ دستاویز یہ قضیہ اس مدت کو سمجھنے کے حوالے سے ایک اساسی محور ہے کہ جو پچیس سال سے زیادہ نہیں ہے کیونکہ ہم نے کہا ہے کہ جب تک ہم اس مدت کو نہیں سمجھیں گے جو ڈھائی عشروں اور پچیس سالوں سے زیادہ نہیں ہے اس وقت تک ہم مجموعی اسلامی تاریخ کو نہیں سمجھ سکتے؛
کیوں اور کیسے پچیس سال پہلے کے طلقاء رسول اللہ(ص) کے خلفاء بن گئے؟! کیونکر یہ توازن اس طریقے سے بگڑا؟!
ہم جانتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہ تبدیلیاں، مد و جزر اور سازشیں لمبے عرصے بعد کامیاب ہوتی ہیں یعنی جب لوگ درست انقلاب اور درست تحریک کے منبع سے دور ہو جاتے ہیں۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اعظم(ص) نے ایک صائب، باوقار اور پائیدار حکومت کی بنیاد رکھی ۔ ان پچیس برسوں میں وہ کیا کچھ ہوا کہ چالیس ہجری میں ہم اموی دور، مروانیوں اور سفیانیوں تک جا پہنچے، اس کے بعد بنو امیہ کی حکومت قائم ہوئی پھر بنی عباس کی پھر اس کے بعد آج تک کی صورتحال۔۔۔!!
لہٰذا عزیزو! یہ دستاویز یہ تینوں دستاویزات آپس میں مربوط اور مخلوط ہیں….میں اس دستاویز کو پیش کرنا چاہتا تھا البتہ آخر میں پیش کرنا چاہتا تھا لیکن اس اعتبار سے کہ اب مناسبت آن پہنچی ہے اور یہ ایام سیدہ نساء العالمین زہرا بتول(ع) کی شہادت کے ہیں، اس لیے میں نے اس دستاویز کا جائزہ لینا مناسب سمجھا، لہٰذا انشاء اللہ ہم اس موضوع پر تفصیل سے بات کریں گے جس قدر اس کے بنیادی نکات پر گفتگو ممکن ہو سکی، اور اس کے بعد ہم انشاء اللہ سابقہ موضوعات کی طرف پلٹ جائیں گے تاکہ رسول اعظم(ص) کے بعد کی ، رسول اللہ(ص) کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد کی صورتحال کے خدوخال واضح ہو جائیں اور اس کا ذرہ ذرہ روشن ہو جائے۔
میزبان: میرا خیال ہے کہ حضرت زہرا(ع) کا قضیہ نقطہ آغاز ہے، اس چیز کا جسے ہم بعض اوقات حکومت کے خلاف جدوجہد کا نام دیتے ہیں۔
علامہ حیدری: علوی جدوجہد کا آغاز یہیں سے ہوا، یہ پہلی آواز ہے جو(حکومت کی) عدم مشروعیت کے اثبات کیلئے بلند ہوئی۔
لہٰذا وہ پہلی آواز جو رسول اللہ(ص) کے بعد اور سقیفہ کے بعد کی صورتحال پر بلند ہوئی یہ آواز سیدہ نساء العالمین زہرائے بتول(ع) کی تھی۔
میزبان: اس نقطہ نظر اور صورتحال کی وضاحت کیلئے اور اس دوران پیش آنے والے واقعات کی وضاحت کیلئے حضرت زہرا(ع) کی شخصیت کی نمایاں خصوصیات کو پہچاننا ضروری ہے، اس اعتبار سے کہ یہ بنیادی عنصر ہے اور اس کا اس عمل میں کردار ہے، جدوجہد کے عمل میں، یہاں پر ایک سوال ہے کہ سیدۃ نساء العالمین حضرت زہرا(ع) کی زندگی کے اہم مراحل کون سے ہیں؟
علامہ حیدری: درحقیقت یہ پہلا نقطہ ہے جس پر ہمیں بات کرنی چاہئیے اور وہ یہ کہ وہ کون سے بنیادی مراحل ہیں؛ جن کا ہم پورا حق ادا کرنا چاہتے ہیں؛ شاید اس پر دو پروگرام درکار ہوں یا تین؛ میں نہیں جانتا؛ البتہ جس قدر وقت نے اجازت دی کیونکہ وقت تھوڑا ہے اور مباحث کا دائرہ وسیع ہے؛ ان میں کئی فروعات ہیں؛ ان کی تحقیق اور ان کے درمیان ربط کو بیان کرنا ضروری ہے؛ میرا مقصود یہ نہیں ہے کہ میں یہاں پر کچھ تاریخی واقعات کو نقل کر دوں یا امیر المومنین(ع) یا حضرت زہرا(ع) کے چند فضائل کو نقل کر دوں یا بعض تاریخی سوانح کو نقل کر دوں، میں ما بین السطور کے ذریعے سانحے کے پس پردہ محرّکات کا جائزہ لینا چاہتا ہوں، اور یہ محرکات کیا ہیں تاکہ ہم ان سانحات کی حقیقی تصویر تک پہنچ سکیں، میرے عزیزو! وہ تمام مراحل جن کی طرف میں اختصار کے ساتھ اشارہ کرنا چاہتا ہوں درج ذیل ہیں:
پہلا مرحلہ: ضروری ہے کہ ہم حضرت فاطمہ زہرا(س) کی شخصیت کو پہچانیں، وہ کون ہیں؟ تاکہ جب ہم یہ دیکھیں کہ انہوں نے یہ موقف اختیار کیا یا فلاں جدوجہد کی یا وہ بات کہی یا فلاں خطبہ ارشاد فرمایا یا فلاں اور فلاں کے بارے میں منفی رائے رکھتی تھیں، کیا وہ ایک اساسی شخصیت ہیں جیسا کہ رسول اللہ(ص) نے انہیں ہمارے سامنے متعارف کرایا یا نہیں بلکہ وہ ایک عارضی، معمولی اور ثانوی حیثیت کی حامل شخصیت ہیں، ان کا وہ وزن نہیں ہے بس یہی ہے کہ وہ رسول اللہ(ص) کی دختر ہیں، خاتم الانبیاء کی بیٹی ہیں جیسا کہ بعض لوگ اس معاملے کی ایک جذباتی اور احساساتی قضیہ کے عنوان سے تصویر کشی کرتے ہیں، بیٹے اور بیٹی کے قضیے کی حیثیت سے اور وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔
یہ اس امر کے برخلاف ہے جب وہ مثال کے طور پر جناب عائشہ کی طرف آتے ہیں تو وہ جناب عائشہ کا یہ تصور پیش نہیں کرتے کہ ان کی قدر و قیمت زوجہ ہونے کے عنوان سے ہے، نہیں! وہ چاہتے ہیں کہ انہیں صحابیات بلکہ رسول اللہ (ص) کے اصحاب میں سے سب سے بڑی عالمہ کہیں، اگرچہ ان کا مبلغ علم جو بھی ہو!!
اور یہ کہ ان کا یہ مقام ہے اور یہ اور یہ…. یعنی وہ انہیں خاص حیثیت سے نوازتے ہیں جو ان کی شخصیت سے مربوط ہے نہ نبی(ص) کی زوجہ ہونے کے عنوان سے۔
میزبان: یہ بھی اموی اسلام کی سازشوں میں سے ایک ہے کہ انہوں نے تقابل اور موازنہ شروع کر دیا۔
علامہ حیدری: اس لیے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ ہم بقدر امکان پہچانیں، ضروری ہے کہ ہم حضرت زہرا(ع) کو ان اقوال کی روشنی میں پہچانیں جو رسول اللہ(ص) نے اپنی دختر حضرت زہرا(ع) کے بارے میں ارشاد فرمائے اور آپ(ص) ان کے ساتھ کیسے پیش آتے تھے اور آپ(ص) کا سلوک اور برتاؤ کیسا تھا اور اس کی کیفیت کیا تھی، یہ ساری چیزیں خصوصا جب ہم اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ {مَا ینطِقُ عَنِ الْھوَى إِنْ ھُوَ إِلَّا وَحْی يُوحَی} {النجم/3}
لہٰذا یہ قضیہ احساسات اور پدری محبت و عطوفت کے باب میں داخل نہیں ہو گا بلکہ یہ صرف اور صرف رسالت کی منطق اور منہج سے متعلق ہے …. لہٰذا پہلا محور یا مرحلہ حضرت زہرا(ع) کی شخصیت کو پہچاننا ہے لیکن قاعدے کی رو سے ہمیں صحیح، صریح، اجماعی اور علمائے مسلمین کے مابین متفق علیہ احادیث سے استدلال کرنا ہو گا، ہم اپنی بحار یا اصول کافی سے روایات کا جائزہ نہیں لیں گے اور نہ ہی ان کے نزدیک موجود روایات پر اکتفا کریں گے بلکہ ان دونوں کو جمع کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہ مرحلہ واضح ہو جانے کے بعد ہم دوسرے مرحلے کی طرف منتقل ہوں گے، آپ(ع) کا نقطہ نظر رسول اللہ(ص) کے بعد کی خلافت، رسول اللہ کے بعد کی حکومت اور رسول اللہ کے بعد سقیفہ کے بارے میں کیا تھا؟ کیا آپ(ع) کا نقطہ نظر مثبت تھا یا آپ(ع) کا نقطہ نظر منفی تھا،
دوسرا نقطہ: کیا آپ(ع) نے بیعت کی تھی یا نہیں کی؟
عزیزو! توجہ کیجئے، یہ نقطہ حائزِ اہمیت اور مرکزی ہے شاید اس کی صدر اسلام کی تاریخ میں کوئی نظیر بھی نہ ہو، کیوں؟! کیونکہ جب ہم علی(ع) کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ انہوں نے بیعت نہیں کی، تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ ابتدائی مہینوں میں بیعت نہ کرنے کی بات درست ہے لیکن اس کے بعد اسلام کی مصلحت کے پیش نظر یا کسی دوسرے سبب سے بیعت کر لی لیکن اس موقع پر ہم زہرا(ع) کے حوالے سے یہ علمی اور تاریخی چیلنج کر کے کہیں گے کہ کوئی یہ کہہ کر دکھائے کہ زہرا(ع) نے پہلے خلیفہ کی بیعت کی تھی!