📋پانچواں مرحلہ:
نصوص کے مطابق نبی (ص) نے بتایا تھا کہ آپ (ص) کی اولاد میں سے حسن و حسین ہیں اور ایک تیسرے ہیں جو محسن یا مُحَسَّن ہیں، اس جنین یا اس تیسرے کا قضیہ کیا ہے؟ اصلا یہ موجود تھے یا موجود نہیں تھے ، یہ پیدا ہوئے یا پیدا نہیں ہوئے، ساقط ہوئے یا ساقط نہیں ہوئے؟
اس مسئلے کی کیا حقیقت ہے؟ اس کی تاریخ میں کوئی بنیاد ہے یا نہیں ہے، ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے پر کچھ گفتگوکریں تاکہ اس کی حقیقت سے واقف ہو سکیں۔
📋چھٹا مرحلہ:
یہ سیدہ نساء العالمین کی سیاسی جدوجہد کا آخری مرحلہ ہے، فرماتی ہیں کہ انہوں نے ارباب اقتدار کو اپنی نماز جنازہ میں شرکت سے منع کر دیا ہے اور حکم دیا کہ انہیں رازداری سے دفن کیا جائے اور حکم دیا کہ ان کا نشان قبر مٹا دیا جائے جو آج تک مخفی ہے۔ وہ کون سا پیغام ہے جو زہرا (ع) نے اپنی قبر کے ظاہر ہونے کے دن تک مسلمانوں کو پہنچانا چاہا؟! آخر وہ پیغام کیا ہے؟! میں ان مسائل کو عبث اور بے مقصد نہیں سمجھتا۔ یہ اساسی مراحل ہیں؛ کچھ دوسرے مراحل بھی ہیں؛ میں ان میں وارد نہیں ہونا چاہتا۔
وہ مثال کے طور پر اس عالم کے مابعد سے مربوط ہیں، زہرا (ع) کا حشرِ اکبر میں کیا مقام ہے؟! نصوص کیا کہتی ہیں؟! بھئی! انسان تعجب میں پڑ جاتا ہے جب نصوص کو پڑھتا ہے کہ رسول (ص) نے اپنی بیٹی کی شخصیت کے ہر پہلو پر بات کی ہے، وہ حشر میں کیسے وارد ہوں گی؛ رب العالمین کی بارگاہ میں کیسے تشریف لائیں گی؛ کس چیز کا تقاضا کریں گی؛ جنت میں کس شان سے داخل ہوں گی؛ جنت کے کس مرتبے میں داخل ہوں گی؛ جنت میں ان کا مقام کیا ہے؟
کیا وہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں….. یہ تفصیلات کیوں ہیں، اگر توفیق ہوئی تو ہم واقعا بعد میں ان مباحث کی طرف اشارہ کریں گے، مزید برآں یہ کہ نصوص اس عالم سے پہلے آپ (ص) کے وجود پر بات کرتی ہیں؛ اس پر عالم ملکوت کی اصطلاح کا اطلاق ہوتا ہے؛ اس عالم سے پہلے آپ (س) کا کیا مقام تھا؟ آپ (س) کا کیا کردار تھا اور اس طرح کی دیگر مباحث۔
پس عزیزو! حضرت زہرا بتول (ع) کی حیات کے مراحل پر اگر ہم بات کرنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں چند اقسام پر تقسیم کر سکتے ہیں:
👈پلا باب: حضرت زہرا (ع)اس عالم سے پہلے؛
👈دوسرا باب: حضرت زہرا (ع) اس عالم میں؛
👈تیسرا باب: حضرت زہرا (ع) اس عالم کے بعد؛
پھر جب ہم اس عالم کی بات کریں گے تو ہم ان اساسی مراحل کا جائزہ لیں گے جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔
میزبان: ہم پہلے مرحلے سے ابتدا کرتے ہیں۔ ہم حضرت زہرا بتول (ع) کو پہچاننا چاہتے ہیں؛ ان اقوال کی روشنی میں جو رسول انسانیت (ص) نے ارشاد فرمائے، ان ارشادات کی روشنی میں جو اس امت کے نبی سے صادر ہوئے، ان فرمودات کے تناظر میں جو خاتم المرسلین نے آپ (ع) کے حق میں بیان کیے اور آپ (ص) بی بی (ع) کے ساتھ کیسا سلوک فرمایا کرتے تھے۔
سید: یہ ایک اساسی نقطہ ہے، آگے چل کر یہی دوسری آراء کے جاننے اور دیگر آراء کی قدر و قیمت کو سمجھنے کا معیار اور ضابطہ قرار پائے گا، یعنی جب تک ہم زہرا (ع) کو ایک شخصیت کے عنوان سے نہ پہچانیں اس وقت تک ہم ان کی جدوجہد اور ان کے موقف کے سیاسی وزن اور قدر و قیمت کو نہیں پہچان پائیں گے۔
عزیزو! اس سے قبل کہ میں اس مطلب کی طرف اشارہ کروں، میں چاہوں گا کہ آج کی رات لوگوں کو یا کم از کم ان لوگوں کو جنہیں معلوم نہیں ہے، میں ان کے سامنے ایک ایسی کتاب کا تعارف کرانا چاہتا ہوں، جو میرے نزدیک اس حوالے سے ایک بنیادی کتاب ہے، توجہ کیجئے، یہ ہے وہ کتاب، میں ان عزیزوں کو بڑی تاکید کرتا ہوں جو حق و حقیقت کی تلاش میں ہیں کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ کریں اور یہ مستدرک علی الصحیحین کے مصنف امام حافظ حاکم نیشاپوری متوفی ۴۰۵ھجری کی کتاب "فضائل فاطمۃ الزہراء” ہے، محقق نے ایک اسم ذکر کیا ہے، مجھے اس امر کا یقین نہیں ہے کہ یہ اس کا اصل نام ہو، میرے نزدیک یہ غلط بیانی ہے، میں غلط بیانی کا سبب بیان کروں گا؛
آگے چل کر کہتے ہیں، تحقیق: علی رضا ابن عبد اللہ بن علی رضا، واضح ہے کہ اس طرح کا نام حتی شیعہ کے یہاں بھی شاید اس طرح کا نام موجود نہیں ہے، اس لیے مجھے یقین نہیں ہے؛ شاید یہ نام درست ہو۔
اگر کسی شخص کو معلوم ہے کہ تحقیق کرنے والے محقق کا نام حقیقی ہے؛ تو وہ میری سائیٹ پر پیغام بھیجے یا مجھے فون کر کے میری بات کی تردید کر دے؛ یا خود محقق اگر زندہ ہے یا وہ شخص جو انہیں جانتا ہے وہ مجھ سے رابطہ کرے اور کہہ دے کہ نہیں، محقق کا نام اصل ہے؛
میں چاہتا ہوں کہ محترم ناظرین توجہ کریں کہ اس کتاب میں حاکم نیشاپوری نے حدیث نمبر ۲۳۲ کے تحت ایک روایت نقل کی ہے؛ زہرا (ع) کے مقام کے بارے میں؛ زہرا (ع) کے ساتھ نبی (ص) کے سلوک کے بارے میں، زہرا (ع) کی عبادت کے بارے میں …. ؛ یہ تمام روایات فاطمہ زہرا (ع) کے ساتھ مربوط ہیں۔
محقق نے سعی کی ہے؛ یہ مبالغہ نہیں ہو گا اگر میں کہوں کہ محقق کے بقول اَسی نوے فیصد روایات یا جعلی ہیں یا ضعیف ہیں ۔ اسی لیے اس نے کوشش کی ہے کہ ایک ایسا نام لکھ دے جس کو دیکھ کر پڑھنے والا کہے کہ یہ شیعہ ہے۔
عزیزو! کتاب کی پہلی طباعت ۱۴۲۹ھ کی ہے؛ ناشر: قاهرة دار الفرقان للنشر والتوزيع؛اس سے قبل کہ میں محشی اور اس کے اقوال کی طرف آؤں، میں حاکم نیشاپوری کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں؛انہوں نے کیا کہا ہے؟
حاکم نیشاپوری کے حوالے سے آپ کو معلوم ہے کہ بہت سی قابل استناد روایات یا حاکم نیشاپوری کی المستدرک علی الصحیحین میں وارد ہوئی ہیں یا اس کتاب (فضائل فاطمۃ الزھراء) میں وارد ہوئی ہیں اور اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ بہت سے تاریخی واقعات بھی حضرت فاطمہ زہرا (ع) کے فضائل میں وارد ہوئے ہیں یعنی ہم تاریخ کے واقعات کا بھی ان احادیث کے ضمن میں درست طور پر جائزہ لے سکتے ہیں۔
حاکم نیشاپوری کے بارے میں ہمارے دو بنیادی سوال ہیں:
👈1)کیا حاکم نیشاپوری شیعہ ہے یا اہل سنت علماء میں سے ہے۔
👈2) اگر بالفرض وہ علمائے اہل سنت میں سے ہے تو کیا احادیث پر ان کا حکم لگانا علماء کے نزدیک مورد اعتماد ہے؟ یا جس وقت وہ کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے تو حاکم نیشاپوری کی تشخیص کی کوئی حیثیت نہیں ہے؟!
جی ہاں! وہ احادیث نقل کرتے ہیں لیکن حدیث کو نقل کرنا ایک چیز ہے اور حدیث پر حکم لگانا کہ یہ صحیح ہے یا ضعیف ہے، مقبول ہے یا مردود ہے، موضوع ہے یا غیر موضوع؛ یہ ایک دوسری چیز ہے۔
لہٰذا میرے عزیزو! پہلا سوال جس کا جواب دینا ضروری ہے کہ کیا وہ شیعہ ہیں یا نہیں؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا احادیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کے بارے میں ان کے حکم پر اعتماد کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
میزبان: ان کا علمی مقام کیا ہے؟
سید: بہت خوب! رہی بات پہلے سوال کی؛ کچھ لوگوں نے کھل کر اور صراحت کے ساتھ حاکم نیشاپوری کو مطعون کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ شیعہ ہیں؛ ان کے بقول کہ وہ شیعہ اور خبیث ہے؛ (ملاحظہ کریں کہ ان کے نزدیک) یہ لازم اور ملزوم ہیں؛ اگر شیعہ ہو گیا تو ضرور ایسا ہی ہے؛ نہ یہ کہ شیعہ کی دو قسمیں ہوں؛ ایک خبیث اور دوسرا غیر خبیث؛ نہیں!!!یہ وضاحتی قید ہے احترازی قید نہیں ہے،جیسا کہ وہ لوگ قائل ہیں۔
توجہ کیجئے کتاب "میزان الاعتدال فی نقد الرجال؛ مؤلف: امام ذہبی متوفی ۷۴۸ھ؛ اس جلد کے محقق محمد برکات عمار ریحاوی ہیں؛ جلد چہارم، ناشر: الرسالۃ العالمیۃ؛ ترجمہ نمبر: سات ہزار تین سو ساٹھ”؛ ذہبی کہتے ہیں: محمد بن عبد اللہ نیشاپوری، حاکم، ابو عبد اللہ، حافظ، صاحب تصانیف؛ عبارت پر توجہ کریں: امام اور صدوق ہیں یا امام اور دوسرے درجہ پر صدوق ہیں لیکن وہ اپنی مستدرک میں ساقط احادیث کو صحیح قرار دیتے ہیں اور بکثرت ایسا کرتے ہیں یعنی کثرت سے ساقط احادیث کو صحیح قرار دیتے ہیں؛ مجھے پتہ نہیں کہ آیا وہ ان سے مخفی رہ گئی تھیں! کیونکہ وہ ان لوگوں میں سے تو نہیں ہیں جو ان سے جاہل ہوں (ذہبی کیلئے یہ کہنا ممکن نہیں کہ حاکم کو ان کا علم نہیں تھا) ،اوراگر انہیں معلوم تھا تو یہ بہت بڑی خیانت ہے!!
پس ذہبی بالواسطہ طریقے سے ان پر خیانت کی تہمت لگا رہے ہیں؛کیوں؟ کہ کہہ رہے ہیں کہ یا جاہل تھے؛
اگر تجھے علم نہیں تھا تو یہ مصیبت ہے؛
اور اگر تجھے علم تھا تو مصیبت اور بڑی ہے؛
یہ ماننا ممکن نہیں کہ وہ جاہل اور بے علم تھے کیونکہ وہ امام ہیں.
اور وہ شیعہ ہیں، ان کی شہرت اسی سے ہے؛ یہ کون کہہ رہا ہے؟! ذھبی
آگے چل کر کہتے ہیں: ابن طاہر کا کہنا ہے: میں نے ابو اسماعیل عبد اللہ انصاری سے حاکم کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: حدیث کا امام ہے، رافضی و خبیث ہے۔ اب پہلی تعبیر تھی؛ شیعہ ہونا؛ اب ان دونوں میں کیا فرق ہے آگے چل کر اشارہ کروں گا۔
میں کہتا ہوں: (یہ امام ذہبی کہہ رہے ہیں) اللہ کو انصاف پسند ہے، یہ مرد رافضی نہیں ہے بلکہ صرف شیعہ ہے۔
نہیں! اس پر رافضی ہونے کی تہمت درست نہیں ہے؛ ہمیں بس شیعہ کہنا پڑے گا؛
پھر کہتے ہیں : بہرحال اس کا بذات خود صادق ہونا اور اس کا اس امر یعنی حدیث کی معرفت رکھنا متفق علیہ ہے۔
یعنی یہ مرد علامہ ہے، امام المحدثین ہے، اس حوالے سے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اس مرد کے علم پر اعتراض کرے؛ یہ تعریف کس نے کی ہے؟
کسی عام انسان نے نہیں کی بلکہ حافظ ذہبی نے کی ہے؛
جاری ہے ……!!!