مقالات و آراء

  • حضرت فاطمہ زہرا(ع) کا مقام اور مظلومیت مصادرِ اہل سنت کی روشنی میں [سلسلہ وار مباحث(6)]

  • سلسلہ احادیث صحیحہ؛ محمد ناصر البانی؛ ساتویں جلد؛ قسم دوم صفحہ: 693، کہتے ہیں: اور "حریز بن عثمان” وہ رحبی اور حمصی ہے (ان کے سامنے تاریخ روشن ہے) حمصی، وہ ثقہ ہیں، بخاری کے رجال میں سے ہیں، لیکن وہ علی سے بغض رکھتا تھا.
    تلازم کو دیکھیں! اگر وہ علی(ع) سے بغض رکھنے والا ہو گیا تو وہ ثقہ ہے اور اس پر اعتماد کیا جائے گا؛ لطف کی بات یہ ہے کہ علامہ البانی اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ "ابغضہ اللہ”(اللہ اس پر اپنا غضب ڈھائے) عجیب ہے، اگر وہ ابغضہ اللہ ہو گیا تو پھر وہ ثقہ کس طرح ہو گیا؛ خدا کی قسم! مجھے نہیں معلوم؛ اگر یہ مورد غضب ہے، تو یہ منافق ہے؛ مگر یہ کہ آپ دائرہ اسلام سے نکل جائیں !!
    عزیزو واقعا جو اسلام کو قبول کرتا ہے اور جو رسول اللہ کو مانتا ہے جو فرماتے ہیں کہ تجھ سے صرف مومن ہی محبت رکھے گا؛ یا پھر یہ فرمان: مجھ سے صادق و امین کا عہد ہے کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت رکھے گا اور منافق بغض رکھے گا!!
    مگر یہ کہ تم رسول اللہ کی تکذیب کرو؛ مگر یہ کہ تم اسلام سے نکل جاؤ اور اسلام کو قبول نہ کرو؛ ورنہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ ثقہ ہو لیکن وہ ناصبی ہو اور بغض رکھنے والا ہو، منافق ہو؛ کیا اس مقام پر اس سے بڑی کوئی بات ہو سکتی ہے؟!
    لہٰذا میرے عزیزو! اب وضاحت ہو گئی؛ اب میں واپس آتا ہوں؛ ہم پہلے سوال میں تھے؛ وہ کون ہیں؟ (حاکم نیشاپوری) واضح ہو گیا کہ (حاکم نیشاپوری) یہ عظیم شخصیت علماء اہلسنت میں سے ہیں؛ اور بزرگ علمائے اشاعرہ میں سے ہیں۔ ان لوگوں میں سے ہیں جو کہتے ہیں کہ شیعہ بدعتی ہیں۔ لیکن اس پر سارا الزام اور اس کی ساری مصیبت یہ ہے کہ وہ علی(ع) سے محبت رکھتا ہے؛ اور انہیں صحابہ پر مقدّم کرتا ہے اور معاویہ سے منحرف تھا یعنی اسے "رضی اللہ” نہیں مانتا تھا اور شیعہ سے نقل کرتا تھا؛ یہ اس کا مسئلہ تھا۔
    رہی بات دوسرے سوال کی: وہ "معتمد الحدیث” ہیں؛ جب یہ بات قوم کے نزدیک ثابت ہو گئی کہ وہ حدیث کا امام ہے؛ میزان الاعتدال میں کہا ہے کہ وہ حدیث کے امام ہیں؛ جسے میں نے تھوڑی دیر پہلے پڑھا ہے؛ ان کی ایک عبارت ہے؛ اس کی تعبیرعجیب ہے؛ کہتے ہیں: وہ اپنی مستدرک میں ساقط احادیث کو صحیح قرار دیتے ہیں؛ اور بکثرت ایسا کرتے ہیں؛ مجھے نہیں معلوم کہ وہ ان پر مخفی رہ گئی تھیں؛ اگر جان بوجھ کر کیا تو یہ بڑی خیانت ہے۔
    یہاں پر علی رضا بن عبد اللہ بن رضا کا حاشیہ ہے؛ صفحہ نمبر 7 پر اس کا ایک اچھا حاشیہ ہے؛ میں ذھبی کا جواب نہیں دے رہا، وہ اس کا جواب دے رہا ہے؛ وہ اپنے حاشیہ میں ذھبی سے کہتا ہے؛ حاشیہ نمبر 2؛ ان کی عبارت (خيانة عظيمة) کو نقل کرنے کے بعد؛ ان سے کہتا ہے؛ کون کہتا ہے؟ علی رضا بن عبد اللہ بن علی رضا؛ کس سے؟ ذھبی سے؛ کہتا ہے:
    اے امام! ساقط احادیث کی تصحیح پر آپ کی اس کے ساتھ موافقت کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ اب، وہ کیا کہہ رہا ہے؟ بصورت مختصر؛ مستدرک پر امام ذہبی کا ایک حاشیہ اور تعلیقہ ہے۔ مستدرک کی اکثر احادیث یا ان میں سے بہت زیاہ احادیث جن کے بارے میں انہوں نے ساقط کی تعبیر استعمال کی ہے؛ انہیں ذہبی نے حاشیہ مستدرک میں صحیح قرار دیا ہے۔
    وہ کہتا ہے کہ اگر یہ ساقط ہیں تو آپ کیوں ان کو صحیح قرار دے رہے ہیں؛ اگر یہ کام عظیم خیانت ہے تو پھر آپ کس خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں؟!
    توجہ کریں؛ پس یہ دعویٰ واقعا اعتبار سے ساقط ہے اور وہ یہ کہ ذہبی جس پر وہ شیعہ ہونے کی تہمت لگا رہا ہے اور اس پر فلاں اور فلاں تہمت لگا رہا ہے لیکن وہ ان احادیث کو صحیح قرار دے رہا ہے جنہیں اس نے ذکر کیا ہے یا جن میں سے بکثرت احادیث انہوں نے مستدرک میں ذکر کی ہیں؛
    اسی لیے ہم کو ملتا ہے کہ وہ اس میدان میں یمن کے ایک معاصر عالم کی مانند ہے : کتاب "التنكيل بما في تانيب الكوثر من الاباطيل” مصنف :علامہ معلم يماني؛ تحقيق: محمّد ناصر الباني؛ طبع: رياض؛ مكتبة المعارف؛ جلد أول صفحہ: 495 ،کہتے ہیں: یاد رکھیں، ان کا حاکم کو تساہل سے ذکر کرنا ….. یہاں تک کہ کہتے ہیں: اگر یہ اس کی روایت میں قدح کی وجہ سے ہو(حاکم کی روایت میں) یا اس کے احکام میں؛ )وہ ان کی تضعیف کرنا چاہتے ہوں تو انہیں کہنا چاہئیے کہ جو اس نے حکم لگایا ہے؛ وہ درست نہیں ہے(اور اگر اس کی روایت میں قدح کی وجہ سے ہے یا اس کے احکام کی وجہ سے ہے(احادیث پر صحت و ضعف کے حوالے سے) ، جرح و تعدیل وغیرہ میں؛تو یہ بلا وجہ ہے!!
    (یعنی ممکن نہیں ہے کہ ان پر تسامح و تساہل کی تہمت لگائی جائے ہرگز ایسا نہیں ہے)؛ بلکہ ان کا حال اس امر میں دوسرے آئمہ عارفین کی طرح ہے؛ اگر ان سے خطا واقع ہو جائے تو یہ نادر ہے جیسا کہ اوروں سے بھی سرزد ہو جاتی ہے۔ اس میں حکم یہ ہے کہ اس کو چھوڑ دیا جائے جس کے خطا ہونے پر دلیل قائم ہو جائے ۔
    نہ یہ کہ ہم اس کی کتب کو مکمل طور پر ساقط قرار دیں۔ اسی لیے آپ کو ملے گا کہ ابن تیمیہ حاکم نیشاپوری کے ساتھ ساری ناانصافیاں کرنے کے باوجود ہم (مجموع فتاوى ابن تيمية) میں ملاحظہ کرتے ہیں؛جب وہ حاکم پر پہنچتا ہے تو انہیں اہل تساہل کہنے کے بعد کہتا ہے: اسی لیے حدیث کے اہل علم تنہا حاکم کی تصحیح پر اعتماد نہہیں کرتے ہیں اگرچہ وہ جن کو صحیح قرار دیتا ہے ان میں سے اکثر صحیح ہیں۔
    اس کی صحیح کردہ غالب روایات، صحیح ہیں؛ کون کہہ رہا ہے؟ ابن تیمیہ جو حاکم پر ظلم کرتا ہے؛ لیکن وہ ان مصححین میں سے ہے الی آخرہ ۔۔۔
    لہٰذا میرے عزیزو! یہ مرد جیسا کہ امام ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ؛ جلد نمبر 3؛ ناشر: مکتبہ ابن تیمیہ میں کہا ہے: بہت بڑے حافظ اور امام المحدثین ہیں.
    یہاں سے میرے عزیزو ہمارے لیے واضح ہو گا جب ہم اس کتاب میں وارد ہوں گے کہ اولا (حاکم نیشاپوری) آئمہ حدیث میں سے ایک ہیں، اور وہ سنی ہیں اور تمام روایات کی تصحیح میں وہ مورد اعتماد ہیں سوائے ان کے جن کا برخلاف، دلیل سے ثابت ہو جائے۔

    • تاریخ : 2017/08/05
    • صارفین کی تعداد : 1134

  • خصوصی ویڈیوز