اسلامی شریعت بلکہ دوسرے آسمانی ادیان کی خصوصیات کا مطالعہ کریں تومعلوم ہوتا ہے کہ ان سب کا مقصد انسان کو اس مادی دنیا سے ماورائے طبیعت کی طرف متوجہ کرنا ہے ۔ دنیا سے الگ ہونے اور پروردگار عالم تک پہنچنے کے حوالے سے لوگوں کے تین مرتبے ہیں :
پہلا گروہ : کامل صلاحیت اور مرتبہ کمال رکھنے والے انسان جو اپنے ارادے کے ساتھ اپنے اندر اس مادی دنیا سے الگ ہو سکتے ہیں اور کامل یقین اور معرفت الٰہی تک پہنچ کر ہر چیز کی قید سے آزادی حاصل کر سکتے ہیں اور حق تعالیٰ کے ساتھ مربوط ہو سکتے ہیں ۔ ایسا انسان اس مادی دنیا سے ماورا ءکو دیکھ سکتا ہے اور انوار الٰہی کا مشاہدہ کر سکتا ہے جیسے انبیاء (ع) ہیں ۔ (۱)
یہ وہ لوگ ہیں کہ قرآن مجید نے انہیں اس طرح یاد کیا ہے :
كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ ﴿٥﴾ لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ﴿٦﴾ ثُمَّ لَتَرَوُنَّھا عَيْنَ الْيَقِينِ ﴿٧﴾[ہرگز ، اگر علم الیقین تک پہنچ گئے تو یقینا جہنم کو دیکھ پاؤ گے پھر اسے عین الیقین کے ساتھ مشاہدہ کرو گے ۔] ( تکاثر / ٥ ۔ ٧ )
ظاہرا اس آیت شریفہ سے مراد قیامت کے برپا ہونے سے پہلے جہنم کا مشاہدہ ہےاور وہ بھی قلبی و باطنی مشاہدہ کی صورت میں جیسا کہ ایک دوسری آیت شریفہ میں آیا ہے:
وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاھيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْارْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ]اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی ملکوت دیکھاتے ہیں تاکہ وہ یقین تک پہنچنے والوں میں سے ہو جائے ۔ [( انعام / ٧٥ )
دوسرا گروہ : یہ گروہ ایسے انسانوں کا ہے جو کامل یقین کو حاصل کر چکے ہیں ۔ لیکن مادی وابستگی کی وجہ سے کامل انقطاع حاصل نہیں کر سکے ۔ یعنی مادی دنیا سے پوری طرح نہیں کٹ سکے اس لیے کہ مادی دنیا کی باقی ماندہ وابستگی اور اس دنیا کی محدودیت موجب بنتی ہے کہ مادی دنیا سے کامل آزادی ممکن نہیں ہوتی ۔
انسانوں کا یہ گروہ اپنے پروردگار کی اس طرح عبادت کرتا ہے کہ گویا اسے دیکھ رہا ہے ۔ ان کی عبادت اخلاص پر مبنی اور لغو و لعب سے دور ہوتی ہے ۔ وہ مادی حجاب سے پرے عالم غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور حقیقی نیکو کار ہیں ۔
جیسا کہ احسان اور نیکوکاری کے مفہوم کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا :
"أن تعبد اللہ كانك تراہ فانك إن لا تراہ فإنہ يراك”]نیکو کاری کہ خدا تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو ، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو( تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔(۲)
اس گروہ اور پہلے گروہ میں فرق وہی ہے جو ” انّ” [ بے شک ] اور ” کأنّ ” [ گویا ] کے درمیان پایا جاتا ہے ۔ یہ مرتبہ پیغمبر اکرم ﷺ کے مخلص اصحاب و چاہنے والوں کا ہے ۔
اسحاق بن عمار حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ایک دن رسول خدا ﷺ نے صبح کی نماز کے بعد مسجد میں ایک جوان کو دیکھا جس نے اپنا سر جھکایا ہوا اور کمزوری کی شدت کی وجہ سے اس کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔ اس کا جسم بہت دبلا اور آنکھیں اندر کودھنسی ہوئی تھیں ۔ ۔ پیغمبر خدا ﷺ نے اس سے پوچھا :تونے رات سے صبح کیسے کی؟
اس نے عرض کیا : میں نے رات کو ایمان و یقین کی حالت میں صبح تک پہنچایا ہے ۔
رسول خدا ﷺحیران ہوئے [اس لیے کہ ایک نادر اور کم نذیر واقعہ پیش آیاتھا ] اوراس سے فرمایا : ہر یقین کی علامت اور اس کے آثار ہوتے ہیں ، تمہارے یقین کی علامت کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا : یقین نے میرے اندر معنوی غم و اندوہ کی ایک حالت پیدا کر دی ہے اور اس نے مجھے رات کو بیدار رہنے اور دن کو روزہ رکھنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ اس طرح کہ میں دنیاو ما فیھا سے بیزار ہو گیا ہوں ، گویا پروردگار کے عرش کو مشاہدہ کر رہا ہوں۔ (ایسا لگ رہا ہے ) جیسے قیامت کا دن آگیا ہے اور حساب کا وقت ہوگیا ہے اور بندوں کو حساب کے لیے محشور کردیاگیا ہے ۔ میں بھی ان کے درمیان ہوں ، گویا اہل بہشت کو دیکھ رہا ہوں کہ نعمات سے بہرہ مند ہیں اور تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں اور اہل جہنم کو دیکھ رہا ہوں کہ عذاب کی شدت کی وجہ سے فریاد کر رہے ہیں ۔ گویا آگ کے شعلوں کی بھڑکنے کی آواز سن رہا ہوں ،اور وہ میرے کانوں میں گونج رہی ہے ۔
رسول خدا ﷺ نے اپنے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : خدا تعالیٰ نے اس بندے کے دل کو نور ایمان سے روشن کر دیا ہے ۔ پھر آپ ﷺنے اس جوان سے فرمایا : اپنی اس حالت کو محفوظ رکھو ۔
جوان عرض کرنے لگا : یا رسول اللہ ! دعا فرمائیں کہ آپ ﷺ کی رکاب میں شہادت نصیب ہو ۔
رسول خدا ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی ۔ زیادہ عرصہ نہ گذرا تھا کہ وہ جوان رسول خدا ﷺ کے ہمراہ ایک جنگ میں شرکت کے لیے گیا ۔ میدان جہاد میں نو شہادتوں کے بعد دسواں شہید وہی جوان تھا ۔(۳)
یہ گروہ وہی ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے مشہور خطبہ ہمام میں ان کی یوں تعریف فرمائی ہے :
"فضیلت ان کے لیے ہے جو پرہیزگار ہیں کیونکہ ان کی گفتگو جچی تلی ہوئی ، پہناوا میانہ روی اور چال ڈھال عجز و فروتنی ہے ۔ اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے انہوں نے آنکھیں بند کر لیں اور فائدہ مند علم پر کان دھر لیے ہیں ۔ ان کے نفس زحمت و تکلیف میں بھی ویسے ہی رہتے ہیں جیسے آرام و آسائش میں اگر ( زندگی کی مقررہ) مدت نہ ہوتی جو اللہ نے ان کے لیے لکھ دی ہے تو ثواب کے شوق اور عتاب کے خوف سے ان کی روحیں ان کے جسموں میں چشم زدن کے لیے بھی نہ ٹھہرتیں ۔ خالق کی عظمت ان کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے ۔ اس لیے کہ اس کے ما سوا ہر چیز ان کی نظروں میں ذلیل و خوار ہے ، ان کو جنت کا ایسا ہی یقین ہے جیسے کسی کو آنکھوں دیکھی چیز کا ہوتا ہے ، تو گویا وہ اسی وقت جنت کی نعمتوں سے سرفراز ہیں اور دوزخ کا بھی ایسا ہی یقین ہے جیسے کہ وہ دیکھ رہے ہیں تو انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہاں کا عذاب ان کے گرد و پیش موجود ہے ان کے دل غمزدہ و محزون اور لوگ ان کے شر و ایذا سے محفوظ و مامون ہیں ان کے بدن لاغر ، ضروریات کم اور نفس نفسانی خواہشوں سے بری ہیں ۔ انہوں نے چند مختصر سے دنوں کی (تکلیفوں پر) صبر کیا جس کے نتیجہ میں دائمی آسائش حاصل کی ۔ یہ ایک فائدہ مند تجارت ہے جو اللہ نے ان کے لیے مہیا کی دنیا نے انہیں چاہا مگر انہوں نے دنیا کو نہ چاہا اس نے انہیں قیدی بنایا تو انہوں نے اپنے نفسوں کا فدیہ دے کر خود کو چھڑا لیا ۔ رات ہوتی ہے تو اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر قرآن کی آیتوں کی ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرتے ہیں ۔ جس سے اپنے دلوں میں غم و اندوہ تازہ کرتے ہیں اور اپنے مرض کا چارہ ڈھونڈھتے ہیں ۔” (۴) ( نہج البلاغہ ، خطبہ ١٩٣ )
تیسرا گروہ : عوام الناس اور عام لوگ ہیں ۔ اس گروہ میں جو لوگ معاند ہیں ، اور خدا اور روز جزا کا انکار کرتے ہیں ، ان کے علاوہ باقی تمام افراد خدا اور قیامت کے بارے میں سچا عقیدہ رکھ سکتے ہیں ۔ اپنے اس سچے اعتقاد کے مطابق نیک اعمال انجام دے سکتے ہیں ۔ ان کے اعمال بالکل ٹھیک ٹھیک عقیدے کے مطابق تو نہیں ہوتے لیکن کسی حد تک اس پر منطبق ہوتے ہیں۔
اس کی وجہ بھی مادی دنیا سے وابستگی ، ہوائے نفس کی پیروی اور حب دنیا ہے ۔ دنیا سے محبت اور دنیا کے ظواہر سے وابستگی باعث بنتی ہے کہ انسان اسی میں مشغول ہو جاتا ہے اور اسی کا حصول اس کے اعمال و کردار کا مقصد بن جاتا ہے۔ اس طرح انسان کی توجہ کا مرکز دنیا ہو جاتی ہے ۔ اورماورائے دنیا سے غافل ہو جاتا ہے اور جو اعمال ماورائے طبیعت اعتقادات کا لازمہ ہیں یہ بات موجب بنتی ہے کہ اس کے معنوی اعتقادات ، جمود کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور وہ اپنا ضروری اثر کھو بیٹھتے ہیں۔
ایسی حالت میں انسان کے تمام اعمال اور اس کی ساری کارکردگی اس کے مادی جسم کی ضروریات کو پورا کرنے کے گرد گھومتی ہے ۔ اس کا دل اور اس کی روح بے بہرہ رہتی ہے ۔بطور مثال ایسے شخص کی حالت کا تصوّر کریں جو کسی بادشاہ یا کسی بڑی شخصیت کے سامنے حاضر ہونا چاہتا ہے اور آپ تصوّر کریں کہ کس طرح اس کی حالت میں تبدیلی آتی ہے اور وہ اس کے اعمال و رفتار سے ظاہر ہوتی ہے ۔ اس کے رویے میں تواضع اور خشوع پیدا ہو جائے گا ۔ حتیٰ نماز میں بھی اس کی یہ حالت نہ ہوتی ہوگی ۔ جبکہ ہم نماز کے دوران پروردگار عالم کے سامنے حاضر ہوتے ہیں!!
اگر ایک اہم شخصیت یا کوئی سربراہ ہمارے اعمال پر نظر رکھے ہوئے ہو تو ہماری حرکات میں واضح طور پر فرق آ جائے گا ۔ جبکہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ خداوند متعال ہمیں دیکھ رہا ہے اور سن رہا ہے وہہماری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ ہم مادی علل و عوامل پر بھروسہ کرتے ہیں جو کہ ممکن ہے ہمیں نفع پہنچائیں اور ہوسکتا ہے ہمارے لیے نقصان دہ ہوں۔ دوسری طرف ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام امور خداوند متعال کے دست قدرت میں ہیں ،وہ جو کچھ چاہتا ہے انجام دیتا ہے ، اور جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے ۔
ہم ایک انسان کے وعدے پر اعتماد کرتے ہیں ، ایک مادی علت کی تاثیر پر خوش ہو جاتے ہیں ، اور موت کے بعد روز حساب اور روز قیامت کے بارے میں خدا کے وعد و وعید کے بارے میں اس کا سواں حصہ بھی خاطر میں نہیں لاتے ہمارے یقین و اعتقادات اور اعمال میں اس قسم کے بے شمار تضادات موجود ہیں ۔ یہ سب مادیات کی طرف رغبت اور دنیا سے وابستگی کی وجہ سے ہے۔
تیسرے گروہ کے لوگ انقطاع الی اللہ حاصل نہیں کرسکتے۔ بلکہ یہ لوگ صرف ماورائے طبیعت کے بارے میں چند ایک کلی اعتقادات پیدا کر سکتے ہیں ،اور کچھ ظاہری اعمال کہ جو خدا تعالیٰ پر اعتقاد کا لازمہ ہیں کو عبادت کے قالب میں انجام دے سکتے ہیں اور یوں اس جہاں کی طرف ان کی اجمالی سی توجہ ہوتی ہے ۔
اس مذکورہ بالا گفتگو کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان تینوں گروہوں کی تربیت کے لیے ایک جیسے تربیتی احکام نہیں ہو سکتے یقینا ان کے درمیان فرق ہوگا ۔ بعض احکام تینوں گروہوں کے لیے ہیں اور بعض کسی ایک گروہ کے لیے خاص ہیں مشترکہ احکام جیسے : واجبات ، محرمات اور ایسے کلی اور عمومی احکام کہ جن سے کسی بھی فرد کو رخصت نہیں ہے ۔ اور ہر گروہ سے مخصوص ا حکام ہیں وہ ہیں جو کسی ایک گروہ کے لیے بیان ہوئے ہیں اور دوسرے گروہ کے لیے ان کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ جو احکام تیسرے گروہ کے لیے مباح ، مستحب یا مکروہ ہیں وہ پہلے گروہ کے لیے واجب یا حرام ہو ۔ حدیث شریف میں آیا ہے ” حسنات الابرار سیئات المقربین ” عام نیک مومنین کے بعض اعمال ، مقربان بارگاہ الٰہی کے لیے ناپسند وناشائستہ اعمال شمار ہوتے ہیں ۔
لہذا ممکن ہے کہ پہلے گروہ کے لیے ایسے احکام ہوں جو دوسرے اور تیسرے گروہ کے لیے نہیں ہیں اور دوسرے اور تیسرے گروہ کے لوگ اس میں سے کچھ حاصل نہ کر پائیں گے حتی وہ ان کاعمیق درک و فہم بھی حاصل نہ کر پائیں گے ۔ یہ سب پہلے گروہ کے بلند و بالا مرتبے کی بنیاد پر ہے اور اس امتیاز کی اصل وجہ ان کی خدا سے محبت اور عشق الٰہی ہے کہ جو اُن کے دلوں میں حب نفس کی جگہ جڑ پکڑ چکا ہے ۔ اس بنا پر ان کا دوسرے گروہوں کے ساتھ فرق اِن کے فہم و ادراک اور علم و آگاہی کی کیفیت کے لحاظ سے ہے نہ اس کے شدت و ضعف اور تاثیر و عدم تاثیر کے لحاظ سے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) طباطبائی ، رسالہ ولایت ، ص ١٧
(۲) رسالہ ولایت ، ص ١٨
(۳)الاصول من الکافی ، کتاب ایمان و کفر ، ج ٢ ، ص ٥٣ ، حدیث ٢
(۴) ا یک دن امیر المومنین علیہ السّلام کے اصحاب میں ایک شخص جس کا نام ” ہمام ” تھا ، آپ(ع) کی خدمت میں آیا ۔یہ عبادت گذار اور خدا شناس انسان تھا ، آکر عرض کرتا ہے: اے میرے مولا ! میرے لیے پرہیزگاروں کی صفات یوں بیان فرمائیے گویا میں انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں ۔ امام(ع) نے پہلے کچھ تأ مل فرمایا اور اس ایک جملے پر اکتفا کی کہ تقویٰ اختیار کرو اور نیک و صالح اعمال انجام دو کیونکہ ” انّ اللہ مع الذین اتقوا و الذین ھم محسنون ” خدا تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والوں اور نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔
ہمام اس بات پر قانع نہ ہوئے اور اصرار کرنے لگے اور آپ کو قسم دینے لگے ۔ امام(ع) نے جب یہ حالت دیکھی تو حمد پروردگار اور محمد و آل محمد(ع) پر دورد کے بعد پرہیزگاروں کی توصیف میں ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا ۔ امام(ع) نے پرہیزگاروں کی اتنی صفات بیان کیں کہ ہمام کی چیخ نکلی ، زمین پر گر پڑے اور جان ، جان آفرین کے حوالے کردی۔ امام (ع)نے فرمایا : خدا کی قسم میں اس کے بارے اسی انجام سے خوفزدہ تھا ۔ پھر فرمایا : حق بات اور موثر نصیحت اپنے اہل کے ساتھ ایسا ہی کرتی ہے ۔