مقالات و آراء

  • دنیا میں تقویٰ کے اثرات و نتائج

  • بعض لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ تقویٰ و پرہیزگاری کے اثرات صرف جہان آخرت میں ظاہر ہوں گے اور اس دنیا میں اس کے اثرات ظاہر نہیں ہوتے ۔ اس طرح کہ جو بھی اس دنیا میں خداوند متعال کے احکام پر عمل پیرا ہو ، ان کی اطاعت کرےاور معصیت نہ کرے وہ آخرت میں بہشت کے باغوں میں جگہ پائے گا جہاں نہریں جاری ہیں اور جو شخص اس دنیا میں تقویٰ اختیارنہیں کرے گا اور الٰہی حدود کو پھاند جائے گا اسےآخرت میں ایسی آگ میں ڈالا جائے گا جس کے دہکتے ہوئے شعلے اُسے نگل لیں گے ۔ اس بنا پر ان لوگوں کی نگاہ میں دنیا میں پرہیزگار اور فاسق کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔
    تقویٰ کے بارے میں یہ نظریہ قرآن مجید کی نظر سے مختلف ہے ۔ اس لیے کہ قرآن کریم تقویٰ کےاثرات کو انسان کے لیے صرف آخرت کی زندگی میں مخصوص قرار نہیں دیتا تقویٰ کے اثرات کو اخروی سزا و جزا میں منحصر نہیں کرتا ۔ بلکہ تقویٰ کے اثرات کو دنیا اور آخرت دونوں کے لیے بیان فرماتا ہے ۔ قرآن کریم میں بہت سی آیات اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ پرہیزگار اور فاسق برابر نہیں ہیں ۔ منجملہ ملاحظہ کیجئے :
    أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الأرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ ( ص / ٢٨ )
    کیا ہم ایمان لانے اور اعمال صالح بجا لانے والوں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کی طرح قرار دیں یا اہل تقویٰ کو بدکاروں کی طرح قرار دیں؟
    یا یہ آیت شریفہ
    أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَھمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاھمْ وَمَمَاتُھمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ ( جاثیہ / ٢١ )
    کیا وہ لوگ جنہوں نے گناہ سے اپنے دامن آلودہ کر لیے ہیں ، خیال کرتے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کو ایک جیسا بنائیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہو جائے؟ برا فیصلہ ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔!!
    یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ آیت شریفہ ایسے گناہگاروں کے خیال و تصور کو باطل قرار دے رہی ہے جو چاہتے ہیں کہ وہ زندگی اور موت میں ایمانداروں اور نیکو کاروں کی طرح ہوں ۔ گناہگار افراد تصور کرتے ہیں کہ ان کی زندگی اور موت ، مومنوں کی زندگی اور موت جیسی ہو گی ، اور ایمان اور نیک اعمال ، انسان کی زندگی اور موت پر کوئی اثر نہیں رکھتے ، ان کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے ۔
    اسی وجہ سے آیت شریفہ میں آیا ہے ” ساء ما یحکمون ” [ کیا برا گمان رکھتےہیں ] تاکہ یہ جواب ہو ان کے اس باطل تصور کا جو وہ اپنے ذہن میں پختہ کرتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گناہگار اور مومن کا مقام و مرتبہ یکساں ہے ۔
    اس بنا پر کہناپڑے گا کہ یہ دو گروہ نہ دنیا کی زندگی میں برابر ہیں اور نہ موت کے بعد والے عالم میں ۔ دنیا کی زندگی میں اس لیے برابر نہیں ہیں کہ ایماندار اور نیکوکار لوگ اپنی زندگی کا سفر پروردگار کی طرف سے عطا کردہ بصیرت ، آگاہی ،ہدایت اور رحمت کی بنیاد پر طے کرتے ہیں جیسا کہ پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے :
    ھذَا بَصَائِرُ لِلنَّاسِ وَھدًى وَرَحْمَۃ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ( جاثیہ / ٢٠ )
    یہ (قرآن) لوگوں کے لیے بصیرت افروز اور یقین رکھنے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔
    اس طرح گناہگار اس رحمت الہی اور بصیرت سے بے بہرہ اور محروم ہیں ۔ قرآن مجید میں خداوند متعال کا ارشاد گرامی ہے :
    وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَہ مَعِيشَۃ ضَنْكًا وَنَحْشُرُہ يَوْمَ الْقِيَامَۃ أَعْمَى ( طہ / ١٢٤ )
    جو کوئی میری یاد سے منہ موڑ لے اس کی زندگی تنگی اور دشواری کے ہمرا ہ ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔
    اسی طرح یہ دونوں گروہ موت اور موت کے بعد والے جہان میں بھی برابر نہیں ہیں ۔ کیونکہ واضح دلائل کے مطابق نیز منکروں کے تصورات کے بر خلاف ، موت انسان کی نابودی اور فنا کا نام نہیں ہے۔ بلکہ موت خداوند متعال کی طرف بازگشت اور دار دنیا سے اس جہان آخرت کی طرف منتقل ہونا ہے ۔ جو جہانِ بقا اور عالم جاودان ہے ۔ مومن اس میں سعادت مندی کے ساتھ بہشتی نعمات سے بہرہ مند ہوتا ہے، جبکہ دوسرے بد بختی اور عذاب میں گرفتار ہو جائیں گے ۔

    • تاریخ : 2018/01/06
    • صارفین کی تعداد : 1730

  • خصوصی ویڈیوز