مقالات و آراء

  • حیات طیبہ، پاکیزہ زندگی

  • پروردگار عالم کا ارشاد ہے :
    مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَی وَھوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہ حَيَاۃً طَيِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّھمْ أَجْرَھمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ( نحل / ٩٧ )
    جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انہیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے۔
    مومن انسان کی زندگی نہ صرف عالم آخرت میں پاک و پاکیزہ ہوگی بلکہ اس دنیا میں بھی اس کی زندگی پاک و پاکیزہ ہ ہے ۔ علامہ طباطبائی( قدس سرّہ ) اس آیت شریفہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
    ” احیاء ” کا مطلب ہے کسی چیز کو حیات عطا کرنا ، اور اسے زندہ کرنا۔ اس آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ مومنین جو نیک اعمال انجام دیتے ہیں خداوند متعال ان پر اپنا لطف و کرم کرتے ہوئے انہیں نئی زندگی عطا کرے گا جو معمولی زندگی [ جس سے دوسرے لوگ بہرہ مند ہیں ] سے مختلف ہے ۔ یہ اس آیت شریفہ کے مشابہ ہے جو فرما رہی ہے :
    أَوَمَنْ كَانَ مَیْتًا فَأَحْیَیْنَاہ وَجَعَلْنَا لَہ نُورًا يَمْشِی بِہ فِی النَّاسِ ( انعام / ١٢٢ )
    کیا وہ جو ایک مردے سے زیادہ کچھ نہ تھا پس ہم نے اسے زندہ کیا ، اس کے لیے ہدایت کا نور قرار دیا تاکہ لوگوں کے درمیان اپنے لیے راہ مستقیم تلاش کر لے ۔ ۔ ۔ [ دوسرے افراد کے ساتھ برابر ہے ؟]
    اس نور سے مراد علم ہے کہ جس کے ذریعہ انسان نظری اور عملی طور پر حق تک پہنچنے کا راستہ تلاش کر پاتا ہے۔ جو علم و فہم عام لوگ نہیں رکھتے مومن ایسے علم و فہم سے مستفیض ہونے کے ساتھ ساتھ حق کو قائم کرنے اور باطل کو مٹانے کی خصوصی قوت سے بھی بہرہ مند ہوتا ہے کہ جس سے دیگر لوگ بے بہرہ ہوتے ہیں جیسا کہ خدا تبارک و تعالی نے فرمایا :
    كَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ (روم / ٤٧ )
    اور مومنین کی مدد کرنا ہمارے ذمے ہے۔
    ایسا علم اور قدرت جو تقویٰ کے نتیجے میں مومن کو حاصل ہوتے ہیں، اس کے لیے اس چیز کو ممکن بنا دیتے ہیں کہ وہ چیزوں کو جس طرح وہ ہیں اُسی طرح دیکھ سکے اور انہیں دو حصوں میں تقسیم کر سکے ، ایک باقی رہنے والا حق اور دوسرا مٹ جانے والا اور فنا ہو جانے والا باطل ۔ اس طرح مومن کا دل ، اس فنا پذیر باطل سے بیزارہو جاتا ہے ، یہ باطل و ہی دنیاوی زندگی ، اس کے دلکش زرو زیور ، دھوکہ دینے والی خوبصورتیاں اور اس دنیا کے سرگرم کر دینے والے کھیل تماشے ہیں ۔ مومن ان سب سے منہ موڑ کر اپنے پروردگار کی دی ہوئی عزت و عظمت سے بہرہ مند ہوتا ہے ۔ پھر شیطان کے وسوسے اس پر اثر انداز نہیں ہوتے کہ جن کی وجہ سے اس کے قدم لڑ کھڑا جائیں ۔ نہ ہوا و ہوس اور نہ نفسانی خواہشات اس پر غلبہ کر پاتی ہیں ۔ دنیا اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ بھی اسے فریب نہیں دے سکتی ، اس لیے کہ مومن اس کے باطل ہونے ، مال دنیا کے فانی ہونے اور اس میں موجود نعمات کے ختم ہو جانے کو دیکھ رہا ہوتا ہے ۔
    ایسے حالات میں مومن اپنے دل کو پروردگار کی محبت کا اسیر بنا دیتا ہے کہ جس نے تمام حقائق کو اپنی نشانیوں کے ساتھ آشکار کر دیا ہے۔ وہ صرف پروردگار عالم کی مرضی کا طلبگار رہتا ہے۔ اس کے لیے قرب خدا کے علاوہ کوئی عشق نہیں ہوتا ۔ پروردگار کی دوری کے علاوہ کسی چیزسے نہیں ڈرتا اپنے لیے پاک ، ہمیشگی اور جاوادانی زندگی کا تصور کرتا ہے ۔ اپنے امور کی تدبیر کو سوائے غفور و رحیم پروردگار عالم کے کسی اور کے سپرد نہیں کرتا ۔ اسی وجہ سے زندگی کے راستے میں ہر چیز کو خوبصورت و زیبا دیکھتا ہے ۔ کیونکہ پروردگار عالم نے ہر چیز کو خوبصورت پیدا کیا ہے اور مومن کی نگاہ میں پروردگار عالم کی معصیت کے علاوہ کوئی برائی نہیں ہوتی ۔
    ایسے اثر سوائے حقیقی اور غیر مجازی زندگی کے کہیں تجلی نہیں کرتے ۔خدا تعالیٰ نے اس قسم کی حیات کو اپنے مومن اور نیک اعمال انجام دینے والے بندوں کے لیے مخصوص کیا ہے ۔ اصل میں یہ ایک طرح کی حقیقی اور جدید حیات ہے کہ جو پروردگار عالم نے اپنے مومن بندوں کو عطا فرمائی ہے ۔ البتہ یہ نئی زندگی اس کی پرانی زندگی کہ جس میں وہ عام انسانوں کے ساتھ مشترک تھا سے الگ نہیں ہے ۔ اگرچہ ان دو زندگیوں میں فرق پایا جاتا ہے لیکن ان دو طرح کی زندگیوں میں فرق ان کے رتبے کی وجہ سے ہے ، نہ ان کے متعدد ہونے میں یعنی نئی زندگی مل جانے کے بعد بھی وہ ایک ہی رہتا ہے ، وہ ایک فرد سے زیادہ نہیں ہے ۔ جیسا کہ ” روح قدسی ” کہ جسے پروردگار عالم نے پیغمبروں کے ساتھ مخصوص کیا ہے یہ صرف انبیا کے رتبے میں بلندی کا باعث بنتی ہے نہ یہ کہ کوئی دوسرا فرد وجود میں آجائے ۔(۱)
    یہ وہی روح ہے جس کی طرف سورہ مجادلہ میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    أُولَئِكَ كَتَبَ فِی قُلُوبِھمُ الإيمَانَ ( مجادلہ / ٢٢ )
    یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو ثبت کر دیا ہے۔
    اس آیت شریفہ کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کے پاس ایک معمولی روح اور جسم” وہ کہ جو ہر انسان کے پاس ہوتا ہے خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان ہو ” کے علاوہ بھی ایک روح ہوتی ہے جو اسے حیات نو عطا کرتی ہے ۔ جس کے ذریعے اس میں علم و قدرت پیدا ہو جاتی ہے ۔ جبکہ غیر مومن افراد اس روح سے بے بہرہ رہتے ہیں ۔
    ائمہ اطہار (ع) سے منقول بعض روایات بھی اس حقیقت کی تائید کرتی ہیں ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :
    انبیاء الٰہی اور ان کے اوصیاء کو روح کے پانچ مرتبے عطا کیے جاتے ہیں ۔ روح بدن ، روح القدس ، روح قوت ، روح شہوت اور روح ایمان ۔ جبکہ مومنین کے پاس روح کے چار مرتبے ہوتے ہیں : روح بدن ، روح قوت ، روح شہوت اور روح ایمان اور ان میں روح القدس موجود نہیں ہوتی ۔ کافروں کے پاس روح کے تین مرتبے پائے جاتے ہیں : روح بدن ، روح قوت اور روح شہوت ۔
    پھر آپ نے فرمایا : مومن جب تک گناہ کبیرہ کا مرتکب نہیں ہوتا اس وقت تک روح ایمان اس کے ہمراہ رہتی ہے۔ جونہی وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے روح ایمان اس سے جدا ہو جاتی ہے ۔ جس کے جسم میں روح القدس موجود ہو وہ [ پیغمبر اور امام ]ہرگز گناہ کبیرہ کا مرتکب نہیں ہوتا ۔(۲)
    ایک دوسری روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے :
    خداوند متعال اپنی جانب سے ایک روح کے ساتھ مومن کی تائید کرتا ہے ، جب مومن نیک و صالح اعمال انجام دیتا ہے اور تقویٰ اختیار کرتا ہے تو یہ روح اس کے پاس حاضر ہوتی ہے اور جب وہ گناہ انجام دیتا ہے یا کوئی معصیت کرتا ہے تو یہ روح غائب ہو جاتی ہے ۔ مومن کی طرف سے جب کوئی اچھا کام انجام دیا جاتا ہے تو یہ روح مسرور و شادمان ہوتی ہے ۔ لیکن جب وہ کوئی معصیت انجام دیتا ہے یا گناہ کرتا ہے تو یہ روح خاک میں چلی جاتی ہے ۔
    اے بندگان خدا ! اپنے نفس کی اصلاح کے ذریعے خدا وند متعال کی نعمات کا شکر ادا کرو اور اپنے سرمایہ یقین میں اضافے کے ساتھ بہترین اور قابل قدر نفع اور فائدہ کسب کرو ۔ خدا اس شخص پر رحمت نازل کرے کہ جسےعمل خیر کا موقع ملے تو اسے انجام دے ۔ اور جب کسی برائی کا سامنا ہو تو اس سے اپنے دامن کو بچا لے ۔(۳)
    ائمہ اطہار علیہم السلام سے منقول روایات میں روح کے ان مراتب میں سے ہر ایک کے کردار اور مقام کی وضاحت کی گئی ہے ۔ مفضل بن عمر ، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہتے ہیں میں نے امام سے سوال کیا : ائمہ (ع) کو کائنات کے حقائق سے کس طرح آگاہی ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر میں آرام سے ہوتے ہیں اور استراحت کر رہے ہوتے ہیں ؟
    امام علیہ السلام نے فرمایا : اے مفضل ! خدائے تبارک و تعالیٰ نے پیغمبر اکرم ﷺ میں پانچ روحیں قرار دی ہیں ۔ روح حیات کہ جس سے وہ زندہ ہوئے ہیں ۔ روح قوت کہ جس کی بنیاد پر آپ ﷺ نے قیام کیا اور جہاد کرتے رہے ۔ روح شہوت کہ جس کے ذریعے آپ ﷺ کھاتے پیتے اور عائلی زندگی کی ذمہ داریاں انجام دیا کرتے تھے ۔ روح ایمان کہ جس سے آپ ﷺ صاحب ایمان ہوئے اور عدل قائم کرتے رہے ۔ روح القدس : جس کے ذریعے آپ ﷺ نے نبوت کی ذمہ داریاں اٹھائیں اور جب رسالت مآب ﷺ نے رحلت فرمائی تو روح القدس امام میں منتقل ہوگئی ۔ روح القدس کو نیند نہیں آتی اور وہ غفلت کا شکار نہیں ہوتی ۔ لہو و لعب اور بے ہودہ امور اس میں رخنہ انداز نہیں ہو سکتے ۔ دوسری چار روحیں ایسی ہیں کہ ان میں نیند ، غفلت اور لہو و لعب پائے جاتے ہیں ۔ روح القدس ہمیشہ ، ہوشیار اور نگہبان رہتی ہے ۔(۴)
    یہ روح جو انسان کی مدد اور حمایت کے لیے آگے بڑھتی ہے ، دو باطنی آنکھیں اور دو کان رکھتی ہے چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ سے منقول ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
    ” ہر دل کی دو آنکھیں اور دو کان ہوتے ہیں ۔ اگر خدا تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کرنا چاہے تو اس کے دل کی آنکھوں کو کھول دیتا ہے تاکہ وہ اس کے ساتھ ملکوت اعلیٰ کو دیکھ سکے ۔(۵)
    اسی طرح آنحضرت ؐ سے روایت ہے
    آپ ﷺ نے فرمایا : ” اگر شیاطین بنی آدم کے دلوں پر غلبہ و تسلط حاصل نہ کر پاتے تو انسان ملکوت کا مشاہدہ کر سکتے تھے ” (۶)
    یہ مطلب ابو ہریرہ کے توسط سے مسند احمد بن حنبل میں بھی آیا ہے کہ رسول خدا ﷺنے فرمایا : ” جس رات میں معراج پر گیا تھا ، اس رات جب میں دنیا کے آسمان تک پہنچا تو میں نے نیچے کی طرف دیکھا ۔ وہاں مجھے دھواں اور غبار اور شور و غوغا نظر آیا ۔ میں نے پوچھا : جبرائیل یہ کیا ہے ؟ جناب جبرائیل نے جواب دیا : یہ شیطانوں کا گروہ ہے جو بنی آدم کی آنکھوں پر پردے ڈالتا ہے تاکہ وہ آسمانوں اور زمین کے ملکوت کے بارے میں فکر نہ کریں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان خلقت کے عجائبات اور آفرینش کی حیران کر دینے والی رنگینیوں کا مشاہدہ کر سکتےتھے ۔ ” (۷)
    سلام بن مستتیر سے بھی اسی سے ملتا جلتا مضمون نقل ہوا ہے، کہتے ہیں :
    ایک دن میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ جناب حمران بن اعین حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ انہوں نے آپ (ع) سے بعض سوالات پوچھے ، جب وہاں سے اٹھنے لگے تو امام سے مخاطب ہو کر عرض کرتے ہیں : خدا وند متعال آپ کا سایہ ہمیشہ باقی رکھے اور ہمیں آپ کے وجود کی برکتوں سے مستفیض فرمائے۔ نہیں معلوم جب بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں تو میرا دل نرم ہو جاتا ہے اور میرا نفس دنیا سے دور اور بے پروا ہو جاتا ہے !! دوسرے لوگوں کے پاس جو دنیا کا مال و متاع ہے ، میری نظر میں وہ حقیر اور پست ہو جاتا ہے ۔ لیکن جب یہاں سے اٹھ کر باہر جاتا ہوں ، لوگوں سے ملتا ہوں ، تاجروں کے ساتھ مل کر بیٹھتا ہوں تو پھر سے دل میں حب الدنیا پیدا ہو جاتی ہے ؟ !! ایسا کیوں ہوتا ہے ؟
    حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے جواب میں ارشاد فرمایا : ” یہ دل کے کام ہیں ، دل کبھی نرم اور کبھی سخت ہو جاتے ہیں” ۔
    پھر فرمایا : ” کیا تم نے نہیں سنا کہ جب پیغمبر اکرم ﷺکے صحابہ نے حضور ؐ سے عرض کیا : یا رسول اللہ ؐ ہم اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں ہمارے دل میں نفاق جگہ نہ بنا لے ۔
    حضور ؐ نے پوچھا : ایسا کیوں سوچتے ہو ؟
    صحابہ نے عرض کیا: جب آپ ؐ کی خدمت میں ہوتے ہیں اور آپ ؐ ہمیں وعظ و نصیحت فرماتے ہیں اور آخرت کی یاد دلا تے ہیں تو ہمارے اندر ایک روحانی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور اس طرح زاہدوں کی طرح دنیا سے بیزار ہو جاتے ہیں اور یوں دنیا کو بھلا دیتے ہیں گویا ہم عالم آخرت اور جنت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ لیکن جب آپؐ کے محضر مبارک سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں اور اپنے گھر پہنچتے ہیں ، بچوں اور اہل و عیال کو دیکھتے ہیں ، ان سے ملتے ہیں تو جو حالت اور کیفیت آپؐ کی خدمت میں رہتے ہوئے پیدا ہوئی ہوتی ہے وہ ہاتھ سے جانے لگتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس قسم کی کوئی کیفیت اور حالت پیداہی نہ ہوئی تھی ۔ کیا اس بات کا خوف نہیں ہوتا کہ یہ حالت کہین نفاق اور دو رخی نہ ہو ؟
    رسول خدا ﷺنے فرمایا : نہیں یہ نفاق نہیں ہے بلکہ شیطانی وسوسے ہیں جو تمہیں دنیا طلبی کی طرف کھینچتے ہیں ۔ خدا کی قسم ! اگر وہ حالت اور کیفیت جو تم نے بیان کی ہے ، اس پر باقی رہتے اور اس کی حفاظت کرتے [تو ایسے روحانی کمالات اور مقامات حاصل کر لیتے ]کہ ملائکہ آپ کے ہم نشین ہوتے اور پھر آپ لوگ پانی پر چل سکتے ” (۸) ۔
    قرآن کریم نے اس فہم و ادراک کو ” بصیرت ” یا ” چشم بصیرت ” کہا ہے ۔
    قُلْ ھذِہ سَبِيلِی أَدْعُو إِلَی اللَّہ عَلَی بَصِیرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِی وَ سُبْحَانَ اللَّہ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ( یوسف / ١٠٨ )
    کہدیجیے:یہی میرا راستہ ہے، میں اور میرے پیروکار، پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور پاکیزہ ہے اللہ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
    یہ [بصیرت ] ظاہری نظر کے مقابلے میں ایک اور طرح کی نظر ہے ۔ ” بصر ” ظاہری آنکھ کے ذریعے ہوتا ہے اور اسے عالم مادہ اور دنیاوی چیزوں کے مشاہدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ارشاد ہے :
    وَاللَّہ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّھاتِكُمْ لا تَعْلَمُونَ شَیْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالأبْصَارَ وَالأفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (نحل / ٧٨)
    خدا تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے شکم سے باہر نکالا ، اس حالت میں کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے ۔ اس نے تمہارے لیے کان ، آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر کرو ۔
    چشم بصیرت ، وہی آنکھ ہے جو گناہ و معصیت کی وجہ سے اندھی اور نابینا ہو جاتی ہے ۔ پروردگار عالم فرماتا ہے :
    كَلا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِھمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ( مطففین / ١٤ )
    انہوں نے جو ناروا کام انجام دیئے ہیں ان کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے۔
    فَإِنَّھا لا تَعْمَی الأبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِی فِی الصُّدُورِ( حج / ٤٦ )
    حقیقتاً آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔
    حاصل کلام یہ ہے کہ خدا کا لطف و کرم جس کے شامل حال ہو جائے ، اور پروردگار عالم روح القدس کے توسط سے اس کی تائید اور اس کے لیے نور ہدایت مقرر فرما دے کہ جس کے ذریعے وہ لوگوں کے درمیان اپنا راستہ تلاش کر لے تو وہ ایسے حقائق کا مشاہدہ کرتا ہے جنہیں دوسرے لوگ نہیں دیکھ پاتے ۔ وہ چیزیں سنتا ہے جو دوسرے نہیں سن پاتے ۔ وہ کچھ جو دوسرے نہیں سمجھ سکتے ، سمجھتا ہے ۔ وہ کچھ جسے دوسرے لوگ نہیں مانگتے ، مانگتا ہے ۔
    امام المتقین ، سید العارفین حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ان آیات
    فِی بُیُوتٍ أَذِنَ اللَّہ أَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْكَرَ فِيھا اسْمُہ يُسَبِّحُ لَہ فِيھا بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ *رِجَالٌ لا تُلْھيھمْ تِجَارَةٌ وَلا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّہ وَإِقَامِ الصَّلاةِ وَإِیتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيہ الْقُلُوبُ وَالأبْصَارُ ( نور / ٣٦ ۔ ٣٧ )
    (ہدایت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کی تعظیم کا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے کا بھی، وہ ان گھروں میں صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت، ذکر خدا اور قیام نماز اور ادائیگی زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتیں وہ اس دن سے خوف کھاتے ہیں جس میں قلب و نظر منقلب ہوجاتے ہیں، کے بارے میں فرمایا :
    بے شک اللہ سبحانہ نے اپنی یاد کو دلوں کی صیقل قرار دیا ہے جس کے باعث وہ (اوامر و نواہی سے) بہرا ہونے کے بعد سننے لگے اور اندھے پن کے بعد دیکھنے لگے اور دشمنی و عناد کے بعد فرمانبردار ہ جائے یکے بعد دیگرے ہر عہد اور انبیاء سے خالی دور میں حضرت رب العزت کے کچھ مخصوص بندے ہمیشہ موجود رہے ہیں کہ جن کی فکروں میں سرگوشیوں کی صورت میں (حقائق و معارف کا القا ہوتا ہے اور ان کی عقلوں سے) الہامی آوازوں کے ساتھ کلام کرتا ہے چنانچہ انہوں نے اپنی آنکھوں ، کانوں اور دلوں میں بیداری کے نور سے (ہدایت و بصیرت کے) چراغ روش کیے ۔ وہ مخصوص یاد رکھنے (کے قابل) دنوں کی یاد دلاتے ہیں اورا س کی جلالت و بزرگی سے ڈراتے ہیں ۔ وہ لق و دق صحراؤں میں دلیل راہ ہیں ۔ جو میانہ روی اختیار کرتا ہے اس کے طور رطریقے پر تحسین و آفرین کرتے ہیں اور اسے نجات کی خوشخبری سناتے ہیں اور جو (افراط و تفریط کی ) دائیں بائیں سمتوں پر ہو لیتا ہے ، اس کے رویہ کی مذمت کرتے ہیں اور اسے تباہی و ہلاکت سے خوف دلاتے ہیں ۔ انہی خصوصیات کے ساتھ یہ اندھیروں کے چراغ اور ان شبہات کے لیے راہنما ہیں ۔ کچھ اہل ذکر ہوتے ہیں جنہوں نے یاد الہٰی کو دنیا کے بدلے میں لے لیا ۔ انہیں نہ تجارت اس سے غافل رکھتی ہے نہ خرید و فروخت ۔اس کے ساتھ زندگی کے دن بسر کرتے ہیں اور محرمات الٰہیہ سے متنبہ کرنے والی آوازوں کے ساتھ غفلت شعاروں کے کانوں میں پکارتے ہیں ۔ عدل و انصاف کا حکم دیتے ہیں اور خود بھی اس پر عمل کرتے ہیں ۔ برائیوں سے روکتے ہیں اور خود بھی ان سے باز رہتے ہیں ۔ گویا انہوں نے دنیا میں ہوتے ہوئے آخرت کی منزل کو طے کرلیا اور جو کچھ دنیا کے عقب میں ہے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور گویا وہ اہل برزخ کے ان چھپے ہوئے حالات پر جو ان کے طویل عرصہ قیام میں ا نہیں پیش آئے ہیں آگاہ ہو چکے ہیں اور گویا قیامت نے ان کے لیے اپنے وعدوں کو پورا کر دیا اور انہوں نے اہل دنیا کے سامنے (ان چیزوں پر سے پردہ الٹ دیا یہاں تک کہ وہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں جسے دوسرے لوگ نہیں دیکھ سکتے اور وہ سب کچھ سن رہے ہیں جسے دوسرے نہیں سن سکتے۔ "(۹)
    دنیا میں اہل تقویٰ کی یہ پہلی خصوصیت ہے ۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات ہیں جنہوں نے اس بارے میں بات کی ہے ، جن کی طرف بوقت ضرورت رجوع کیا جا سکتا ہے ۔
    ————————————————————————————————————-
    1 ۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ١٢ ، ص ٣٤١۔
    2 ۔ بحار الانوار ، ج ٢٥ ، ص ٥٣ ، حدیث ١٤ ۔
    3 ۔ الاصول من الکافی ، کتاب ایمان و کفر ، ج ٢ ، ص ٢٦٨ ، حدیث ١٠۔
    4۔ الاصول من الکافی ، کتاب الحجة ، ج ١ ، ص ٢٧٢ ، حدیث ، ٣۔
    5۔ سید حیدر آملی ، تفسیر محیط الاعظم و بحر الخضم ، ج ١ ، ص ٢٧٢ ۔
    6 ۔ غزالی ، احیاء علوم الدین ، کتاب اسرار روزہ ، ج ١ ، ص ٢٣٢ ؛ علامہ مجلسی ، بحار الانوار ، ج ٧٠ ، ص ٥٩ ۔
    7 ۔ تفسیر محیط الاعظم ، ج ١ ، ص ٢٧٢ ۔
    8۔ الاصول من الکافی ، کتاب ایمان و کفر ، ج ١ ، ص ٤٢٣ ، حدیث ١۔
    9۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ٢٢٢ ۔

    • تاریخ : 2018/01/12
    • صارفین کی تعداد : 2969

  • خصوصی ویڈیوز