مقالات و آراء

  • فرقان ،حق و باطل کی پہچان کی قدرت

  • ارشاد رب العزت ہے :
    يَا أَيُّھا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّہ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا (انفال / ٢٩ )
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تقویٰ الٰہی اختیار کرو ، تو خدا تعالیٰ تمہیں حق و باطل کی تشخیص کا ذریعہ عطا فرمائے گا۔
    مفردات قرآن میں راغب اصفہانی لکھتے ہیں :
    [فرقان کا لفظ فرق کے مادہ سے لیا گیا ہے ]۔ دو چیزوں کے درمیان فرق کرنے سے مراد ، دو چیزوں کو الگ کرنا ہے ۔ یہ جدائی خواہ آنکھ (بصر) کے ذریعے ہو یا دل کی آنکھ (بصیرت) کے ذریعے سے ہو ۔ فرقان فرق سے زیادہ کامل اور دقیق ہوتا ہے ۔ کیونکہ حق اور باطل کی جدائی کا معاملہ ہوتاہے ۔1
    اس آیت میں جیسا کہ اس کے سیاق و سباق سے واضح ہو رہا ہے ، فرقان کو تقویٰ الٰہی کے نتائج اور اثرات میں سے ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ قوت تشخیص فکری و اعتقادی جہت میں ہو[جیسے ایمان اور کفر یا ہدایت اور گمراہی کے درمیان فرق کرنا] ۔ یا عملی جہت میں ہو[ جیسے اطاعت کو معصیت سے الگ کرنا یا ہر اس چیز کو جو خوشنودی خدا کا موجب ہے ، کو ہر اُس چیز سے الگ کرنا جو خدا کی ناراضگی کا باعث ہوتی ہے ] ۔ یا نظری جہت سے ہو [جیسے درست کو نادرست سے تشخیص دینا] ۔ یہ سب قسم کی تشخیص انسان کو عطا کی جاتی ہے اور یہ سب تقویٰ و پرہیزگاری کے پاکیزہ شجر کے اثرات و نتائج ہیں ۔ اس آیت شریفہ میں فرقان کا لفظ بصورت کلی اور بغیر کسی قید و شرط کے ذکر ہوا ہے لہذا یہ ہر طرح کی قوت تشخیص کو شامل ہے ۔2
    ایک اور آیت بھی تقریبا اسی موضوع کو بیان کر رہی ہے :
    وَالَّذِينَ جَاھدُوا فِينَا لَنَھدِيَنَّھمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّہ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ( عنکبوت /٦٩)
    اور جو ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں ضرور اپنے راستے کی ہدایت کریں گے اور بتحقیق اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
    راغب اصفہانی اپنی کتاب مفردات میں لکھتے ہیں :
    جُہد سے مراد سختی اور مشقت اور مجاہدہ یعنی دشمن کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ قدرت استعمال کرنا ہے ۔ جہاد کی تین قسمیں ہیں ۔ بیرونی دشمن کے ساتھ آمنا سامنا ہونا ، شیطان کے ساتھ مقابلہ کرنا اور اپنے نفس کے ساتھ مقابلہ کرنا ۔3
    ” جاہدوا فینا ” [ ہمارے راستے میں مجاہدت کرتے ہیں ] کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی کوشش ہماری مرضی حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے ۔ اس بات سے کنایہ ہے کہ انسان کی کوشش اللہ تبارک و تعالیٰ کی راہ میں میں ہونی چاہیے اور اس پر ایمان کے راستے سے خارج نہ ہو۔ یعنی پروردگار عالم کے فرامین پر عمل کرے اور جن چیزوں سے پروردگار نے منع فرمایا ہے ان سے دوری اختیار کرے ۔
    اسی طرح آیت کے اس حصہ ” لنھدینھم سبلنا ” سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لیے کئی راہیں موجود ہیں اور ہر راستے کا مقصد اور ہدف راستے کے آخر تک پہنچنا ہے ، پس خدا تعالیٰ تک جانے والے سارے راستے قرب الہی اور ہدایت پروردگار والے راستے ہیں۔4
    اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا دل نا پسندیدہ اخلاق و رذائل” کہ جو الٰہی معارف اور قدسی عطاؤں کے پہنچنے میں رکاوٹ ہیں” ، سے جس قدر پاک ہوگا اُسی قدر اس پر نور حق کی کرنیں پڑیں گی اور حقائق کا جلوہ پہلے سے زیادہ اس پر نمایاں ہوگا ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : تمہاری زندگی میں پروردگار کے انوار اور قدسی عطاؤں کا وجود ہوتا ہے پس خود کو ان کے درمیان لے جاؤ ۔
    خود کو ان رحمانی فیوضات کے مقام میں لے جانے سے مراد ہے آئینہ دل کوکدورت کے زنگ اور ناپسندیدہ اخلاق سے حاصل ہونے والی تاریکی سے پاک کرنا اور خدا تعالیٰ کی اطاعت کی طرف رخ کرنا اور گناہ و معصیت سے منہ موڑنا کہ جس سے دل کو جلا ملتی ہے اور یقینی علم کے حصول کیلئے راہ ہموار ہوتی ہے ۔
    رسالت مآب ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
    جو کوئی اپنے علم کے مطابق عمل کرے تو پروردگار عالم اس کے علم میں ان چیزوں کا بھی اضافہ کر دے گا جو وہ نہیں جانتا ۔
    اسی بنا پر پروردگار عالم کی رحمت واسعہ، ازلی فیض کی بنیاد پر ہر چیز پر اپنا سایہ کیے ہوئے ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : كُلا نُمِدُّ ھؤُلاءِ وَھؤُلاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا(اسراء / ٢٠ )
    ہم (دنیا میں) ان کی بھی اور ان کی بھی آپ کے پروردگار کی عطا سے بہرہ مند کریں گے ۔ اس لیے کہ پروردگار کی بخشش کسی سے دریغ نہیں کرتی ۔
    لیکن اس کا حصول اور اس بخشش کی دستیابی مشروط ہے اس بات کے ساتھ کہ دل کے آئینہ کو اچھی طرح سے دھو کر دنیاوی نجاستوں اور غلاظتوں سے پاک کریں۔ اس لیے کہ عالم مادہ سے لگنے والے زنگ اور بدنما دھبوں کے جمع ہونے سے آئینہ دل پر حقائق کی تجلی نہیں پڑ سکتی اور اس کی کرنیں منعکس نہیں ہوسکتیں ۔
    پس علوم کے انوار اور ربانی اسرار کا انسان کے دل تک نہ پہنچنا ، ان حجابات کی وجہ سے ہے جو نفرتوں ، نجاستوں اور بعض دوسری رکاوٹوں کی وجہ سے بن جاتے ہیں ؛ نہ خدا ئے مہربان کے بخل اور کوتاہی کی وجہ سے کیونکہ اس کی کبریایی ان نقائص سے منزہ ہے ۔
    دوسری طرف سے یہ علوم عالیہ جو پاک و پاکیزہ صورت میں دل پر جلوہ گر ہوتے ہیں ایسے حقانی اور نورانی علوم ہیں کہ جن میں شک و تردید کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ظہور وروشنائی کی انتہا پر ہیں ۔ کیونکہ یہ علوم انوار الٰہی اور ربانی حقائق کی تجلیات سے صادر ہوئے ہیں ۔ معصوم کی حدیث میں اس مطلب کو یوں بیان کیا گیا ہے :
    ” [یہ علم] ایک نور ہے کہ خدا جس کے دل میں چاہتا ہے اسے اتار دیتا ہے "۔
    اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جو علم کلامی بحث اور ذہنی استدلال کے ذریعے اور آئینہ نفس کو پاک کیے بغیر حاصل ہوتا ہے وہ ظلمات اور اندھیروں سے خالی نہیں ہوتا۔ ایسے علم کو حقیقی یقین نہیں کہا جاسکتا اس لیے کہ حقیقی یقین صرف پاک و پاکیزہ اور صاف و شفاف نفوس میں سما سکتا ہے ۔ اس بنا پر دنیاوی ناپاک تعلقات کے ساتھ دل بستگی رکھنے والوں کا یہ تصور کہ شناخت خدا کی راہ میں وہ حقیقی یقین تک پہنچ گئے ہیں ، بے بنیاد اور خلاف واقع ہے ۔ ایسے لوگ یا تو شک و شبہ سے ملے جلے یقین تک پہنچے ہیں یا ایسے اعتقاد تک پہنچے ہوئے ہیں جس میں نورانیت ، روشنی اور ضروری شفافیت موجود نہیں ہے ۔ اس لیے کہ ناپسندیدہ اخلاق کی وجہ سے ان کے دلوں پر میل چڑھ گیا ہے ۔5
    سالک الی اللہ کی تعریف کرتے ہوئے حضرت امیر المومنین علیہ السلام اس حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں :
    ” اس نے اپنی عقل کو زندہ کر لیا ہے اور اپنی ہوائے نفس کو مار دیا ہے ۔ اس طرح کہ اس کا جسم نحیف اور کمزور ہوگیا ہے ۔ اس کا رویہ نرم اور نیک ہو گیا ہے اس کا لہجہ دھیما ہوگیا ہے ۔ اس کے دل پر انوار حق روشنی کرنے لگے ہیں ۔ جس نے اس کے لیے راستہ واضح کر دیا ہے ۔ اور اسے سعادت کے دروازے اور عزت و کرامت کے مقام کی طرف گامزن کردیا ہے ۔ پروردگار عالم کی مرضی کے حصول میں کوشش نے اس کے قدم استوار کر دیے ہیں اور اس نے [ آخرت میں] ایک پرسکون اور پر آسائش زندگی اس کے لیے تحفے کے طور پر آمادہ کر دی ہے ۔6
    پروردگار عالم کا ارشاد ہے :
    وَمَنْ يَتَّقِ اللَّہ يَجْعَلْ لَہ مَخْرَجًا (٢)وَيَرْزُقْہ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّہ فَھوَ حَسْبُہ إِنَّ اللَّہ بَالِغُ أَمْرِہ قَدْ جَعَلَ اللَّہ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ( طلاق / ٢ ۔ ٣ )
    جو کوئی بھی تقویٰ الٰہی اختیار کرے گا ، خدا وند متعال اس کے لیے ( مشکلات سے) نکلنے کا راستہ بنا دے گا ۔ اس راستے سے اسے رزق عطا کرتا ہےجس کا وہ تصور بھی نہیں کرتا تھا جو کوئی خدا پر توکل کرے تو اس کے لیے خدا کافی ہے بیشک خدااپنا امر و حکم نافذ کرنے والا ہے اور خدا نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ اور مقدار مقرّر کر رکھی ہے ۔
    —————————————————————————————–
    1 راغب اصفہانی ، المفردات فی غریب القرآن ، مادہ ” فرق "۔
    2 المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ٩ ، ص ٥٦ ۔
    3 راغب اصفہانی ، المفردات فی غریب القرآن ، مادہ ” جہد ” ۔
    4 المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ١٦ ، ص ١٥١ ۔
    5 محمد مہدی نراقی ، جامع السعادات ، ج ١ ، ص ۴۳ ۔
    6 نہج البلاغہ ، کلمات قصار ، نمبر ٢٢٠ ۔

    • تاریخ : 2018/02/02
    • صارفین کی تعداد : 2455

  • خصوصی ویڈیوز