نسل انسان پر تقویٰ کے مثبت اثرات کے بارے میں بھی قرآن مجید نے بعض اوقات اشارہ فرمایا ہے ۔ عبد صالح حضرت خضر اور حضرت موسیٰ(ع) کی ہمراہی والی داستان میں پروردگار عالم فرماتاہے :
فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أتَیا أھلَ قَرْیۃ اسْتَطْعَمَا أھلَھا فَأبَوْا أَنْ یضَیفُوھمَا فَوَجَدَا فِیھا جِدَارًا یرِیدُ أَنْ ینْقَضَّ فَأقَامَہ قَالَ لَوْ شِئْتَ لاتَّخَذْتَ عَلَیہ أَجْرًا ( کہف / ٧٧ )
[خضر اور موسیٰ ] دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں میں پہنچے وہاں کے مکینوں سے کھانا مانگا ۔ مگر انہوں نے ان کی پذیرائی سے انکار کر دیا۔ [کچھ دیر بعد ]انہیں ایک دیوار نظر آئی جو گرنے والی تھی ، خضر نے اسے کھڑا کر دیا ۔ [موسیٰ ] نے کہا : اگر تم چاہتے تو اس کام کا معاوضہ طلب کر سکتے تھے ۔
عبد صالح جواب میں فرماتے ہیں :
وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلامَینِ یتِیمَینِ فِی الْمَدِینَۃ وَكَانَ تَحْتَہ كَنْزٌ لَھمَا وَكَانَ أَبُوھمَا صَالِحًا فَأرَادَ رَبُّكَ أَنْ یبْلُغَا أَشُدَّھمَا وَیسْتَخْرِجَا كَنْزَھمَا رَحْمَۃ مِنْ رَبِّكَ وَمَا فَعَلْتُہ عَنْ أَمْرِی ذَلِكَ تَأوِیلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَیہ صَبْرًا(کہف / ٨٢ )
اور یہ دیوار شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا اور ان کا باپ ایک نیک بندہ تھا تو آپ کے پروردگار نے چاہا کہ یہ دونوں طاقت و توانائی کی عمر تک پہنچ جائیں اور اپنے خزانے کو نکال لیں- یہ سب آپ کے پروردگار کی رحمت ہے اور میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کیا ہے اور یہ ان باتوں کی تاویل ہے جن پر آپ صبر نہیں کرسکے ہیں۔
یہ آیت کریمہ واضح طور پر بتا رہی ہے کہ والدین کی نیکی اور خیر خواہی ان کی نسل میں سعادت اور خوشبختی کے مثبت اثرات رکھتی ہے۔
اسحاق بن عمار نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :
” مومن کے نیک اعمال کے نتیجے میں پروردگار عالم اس کی اولاد اور اولاد کی اولادکی اصلاح فرماتا ہے ۔ مومن کے گھر کو اور اس کے اردگرد دوسرے گھروں کو بلا اور مصیبت سے محفوظ کرتا ہے ۔ خداوند متعال کے نزدیک اس کے مقام و منزلت کی وجہ سے مومن بندے کے اطراف بھی مصیبتوں سے محفوظ رہتے ہیں”
اس کے بعد امام (ع)نے قرآن مجید کی اس آیت اور اس عبد صالح کے بچوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
” کیا تم نہیں جانتے کہ اس آیت ” و کان ابو ھما صالحا ” میں خدا تعالیٰ نے باپ کی نیکی اور خیر خواہی کی وجہ سے اس کی اولاد پر اپنا لطف و کرم کیا ؟ ” ۱
جناب زرارہ اور حمران نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے :
” اولاد اپنے والدین کی نیکیوں کی وجہ سے محفوظ اور مصون رہتی ہیں، جس طرح پروردگار نے اُن دو بچوں( کے مفادات) کو اُن کے باپ کی نیکیوں کی وجہ سے محفوظ فرمایا "۲
اس سے ملتے جلتے مضمون کو بیان کرتے ہوئے ایک دوسری آیت یوں فرماتی ہے :
وَلْیخْشَ الَّذِینَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِھمْ ذُرِّیۃ ضِعَافًا خَافُوا عَلَیھمْ فَلْیتَّقُوا اللَّہ وَلْیقُولُوا قَوْلا سَدِیدًا( نساء / ٩ )
اور ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ خود اپنے بعد ضعیف و ناتواں اولاد چھوڑ جاتے تو کس قدر پریشان ہوتے لہذا خدا سے ڈریں اور سیدھی سیدھی گفتگو کریں۔
اس آیت کریمہ میں بجائے اس کہ لوگوں کو براہ راست (دوسروں کے یتیموں کے ساتھ) اچھا سلوک کرنے اورمحبت و نرمی سے پیش آنے کا حکم دیا جاتا ، انہیں خوف خدا اور پرہیزگاری کا حکم دیا جا رہا ہے ۔ در حقیقت یہ ایک انتباہ ہے کہ لوگوں کے یتیموں کے ساتھ جیسا سلوک کرو گے ، اگر ان کے حقوق ادا نہیں کرو گے ، ان کے مال و اسباب کو لوٹ لو گے اور ان پر ناجائز قبضہ جماؤ گے تمہارے بعد تمہارے یتیموں کے ساتھ بھی ایسا ہی ظلم و ستم ہوگا ۔ اس طرح لوگوں کو خوف دلایا گیا ہے کہ وہ جس طرح کے مصائب دوسروں کے لیے کھڑے کریں گے ، کل کو اُن کے گھر والوں اور خاندان پر بھی ویسی ہی مصیبتیں آئیں گی۔۳
قرآن مجید نے دنیا میں تقویٰ کے انفرادی نتائج بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس دنیا میں تقویٰ کے مثبت اجتماعی اثرات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے:
وَلَوْ أَنَّ أَھلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیھمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالأرْضِ (اعراف/٩٦)
اگر اہل قریہ ایمان لے آئیں اور تقویٰ اختیار کریں تو ہم آسمان اور زمین سے برکات کے دروازے اُن پر کھول دیں گے ۔
اس آیت شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر لوگ ایمان لائیں اور تقویٰ اختیار کریں تو اللہ سبحانہ بارش ، برف ، گرمی ، سردی اور اسی طرح کی دوسری آسمانی نعمات و برکات کو ایک معین اندازے کے ساتھ اور کافی مقدار میں اُن پر نازل فرمائے گا۔ اسی طرح زمین کی نعمات جیسے سبزیاں ، پھل اور دوسری فصلیں نیز انسان کی آسائش و سکون کے دیگر اسباب انہیں عطا فرمائے گا ۔ یہ آیت اہم ترین دلیل ہے اس حقیقت کی کہ نعمتوں اور برکتوں کے دروازے زمین پر بسنے والوں کے ایمان ، پرہیزگاری اور تقویٰ کے اثرات و نتائج کی صورت میں کھلتے ہیں ۔۴
ایک اور آیت اسی سے ملتے جلتے مفہوم کو بیان کرتے ہوئے فرماتی ہے
وَأَنْ لَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِیقَۃ لأسْقَینَاھمْ مَاءً غَدَقًا ( جن / ١٦ )
اور اگر یہ لوگ ہدایت کے راستے پر ہوتے تو ہم انہیں وافر پانی سے سیراب کرتے۔
اس آیت کریمہ میں طریق سے مراد اسلام ہے اور استقامت و ثابت قدمی سے مراد اس راستے میں درپیش مشکلات پر صبر کرنا ہے ۔ اور ہوسکتا ہے آیت کا یہ حصہ ” لأسْقَینَاھمْ مَاءً غَدَقًا ” رزق و روزی میں اضافے سے کنایہ ہو ۔ بعد والی آیت میں جو عبارت ذکر ہوئی ہے وہ بھی اس بات کی تائید کر رہی ہے : لِنَفْتِنَھمْ فِیہ ( جن / ١٧ )تاکہ انہیں اس ذریعہ سے آزمائیں ۔ بنا بر این آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر انسان اور جن ، اسلام کے صراط مستقیم پر ثابت قدم رہیں تو ہم انہیں وسیع رزق عطا کریں گے ۔۵
اس نکتہ کے واضح ہو جانے کے بعد اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے کہ طریق اسلام اور الٰہی ہدایت پر ثابت قدمی سے کس طرح انسان کے رزق و روزی میں اضافہ ہوتا ہے ؟ اور انسان کے رزق کی وسعت کا ایمان اور تقویٰ کے ساتھ کیا رابطہ ہے ؟
آئندہ کی ابحاث میں دنیا میں گناہ کے منفی اثرات بیان کرتے ہوئے دیکھیں گے کہ قرآن مجید اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ انسان پر نعمت اور عذاب کے نازل ہونے کی اصلی علت افراد کا تقویٰ وپرہیزگاری یا فساد اور گناہ ہے ۔
===========================================
۱۔ تفسیر العیاشی ، ج ٢ ، ص ٣٦٣ ، حدیث ٦٣ ؛ مطابق نقل علامہ بحرانی ، البرہان فی تفسیر القرآن ، ج ٥ ، ص ٦٠ ؛ مطبع موسسہ اعلمی ، بیروت ، لبنان ۔
۲۔ تفسیر العیاشی ، ج ٢ ، ص ٣٦٣ ۔
۳ ۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ٤ ، ص ٢٥١ ۔
۴۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ٨ ، ص ٢٠١ ۔
۵ ۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ٢٠ ، ص ٤٦ ۔