اس حقیقت کے دوسرے پہلو پر توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے برائی ، گناہ کرنے اور راہ راست سے منحرف ہونے کے برے اثرات کی طرف واضح اشارہ فرمایا ہے :
وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى *وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى *فَسَنُيَسِّرُہ لِلْعُسْرَى *وَمَا يُغْنِي عَنْہ مَالُہ إِذَا تَرَدَّى ( لیل / ٨ ۔ ١١ )
اور جس نے بخل کیا اور (اللہ سے) بے نیازی برتی اور اچھی بات کوجھٹلایا پس ہم اسے جلد ہی مشکلات کا سامان فراہم کریں گے۔اور جب وہ سقوط کرے گا تو اس کا مال اس وقت اس کے کام نہ آئے گا۔
یہ آیت کریمہ بتا رہی ہے کہ جھٹلانے والا اور غیر متقی انسان اپنی دنیاوی زندگی میں طرح طرح کی مشکلات اور دشواریوں میں گرفتار ہوتا ہے لیکن اس کی علت کو نہیں سمجھ رہا ہوتا ۔
اس بنیاد پر بعض دوسرے دلائل کا ملاحظہ کرتے ہیں :
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَہ مَعِيشَۃ ضَنْكًا وَنَحْشُرُہ يَوْمَ الْقِيَامَۃ أَعْمَى *قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا *قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَہا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى *وَكَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِآيَاتِ رَبِّہ وَلَعَذَابُ الآخِرَۃ أَشَدُّ وَأَبْقَى(طہ/١٢٤۔١٢٧)
اور جو میرے ذکر سے اعراض کرے گا اس کے لئے زندگی کی تنگی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا محشور کریں گے۔ وہ کہے گا کہ پروردگار یہ تو نے مجھے اندھا کیوں محشور کیا ہے جب کہ میں دنیا میں صاحبِ بصارت تھا۔ ارشاد ہوگا کہ اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئیں اور تونے انہیں بھلا دیا تو آج تو بھی نظر انداز کردیا جائے گا۔ اور ہم زیادتی کرنے والے اور اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان نہ لانے والوں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب یقینا سخت ترین اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔
مفردات میں راغب اصفہانی کہتے ہیں :
عیش حیوانات کی مخصوص زندگی ہے جبکہ لفظ حیات ، عیش سے اعم معنی رکھتا ہے ۔ اس لیے کہ حیات جانداروں ، خداتعالیٰ اور ملائکہ کی زندگی کو بھی کہا گیا ہے ۔ معیشت بھی عیش کے مادہ سے ہے ۔ قرآن مجید میں ہم پڑھتے ہیں : نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَہمْ مَعِيشَتَہمْ فِي الْحَيَاۃ الدُّنْيَا (زخرف / ٣٢ )
دنیاوی زندگی کی معیشت کو ان کے درمیان ہم نے تقسیم کیا ہے ۔
ایک اور مقام پر فرمایا :وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الأرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيہا مَعَايِشَ قَلِيلا مَا تَشْكُرُونَ ( اعراف / ١٠ )
اور ہم ہی نے تمہیں ز مین میں بسایا اور اس میں تمہارے لیے سامان زیست فراہم کیا (مگر) تم کم ہی شکر کرتے ہو۔
جنتیوں کے بارے میں ارشاد ہوا : فَہوَ فِي عِيشَۃ رَاضِيَۃ ( الحاقہ / ٢١ )
پس وہ [ جنت میں]پسندیدہ زندگی میں ہے ۔
معصوم سے منقول ہے کہ آخرت کی زندگی کے علاوہ کوئی زندگی نہیں ہے ۔(۱)
” ضنک ” کا لفظ جو آیت شریفہ میں ذکر ہوا ہے اس سے مراد امور زندگی میں تنگی اور دشواری ہے ۔ اسی طرح عبارت ” و من اعرض عن ذکری ” جوشخص میری یاد سے منہ موڑ لے ، اس سے پچھلی آیت کے اس جملے ” فمن اتبع ھدای ” جوشخص میرے راہ ہدایت کی پیروی کرے ، کے مقابل میں ذکر ہواہے ۔ جبکہ گذشتہ آیت کے مفہوم کا تقاضا یہ بنتا ہے کہ کہا جائے ” و من لم یتبع ھدای ” جو شخص میرےراہ ہدایت کی پیروی نہ کرے ، لیکن پروردگار عالم نے اس عبارت کو ذکر کرنے کی بجائے جو شخص میری یاد سے منہ موڑ لے کو اس جملے کا متضاد قرار دیا تاکہ اصل وجہ کی طرف اشارہ کیا جاسکے ۔ اس طرح کہ یاد خدا سے منہ موڑنا اور خدا کو فراموش کرنا ہی اصل وجہ ہے معاشی تنگی ، زندگی کی مشکلات اور قیامت کے دن نابینا ہونے کی ۔ یہ اس بات کا مقدمہ ہے کہ بیان کیا جائے کہ پروردگار عالم ان لوگوں کو جنہوں نے دنیا میں اسے بھلا دیا ، آخرت میں کیوں بھلا دے گا ۔
اس آیت میں یاد خدا سے مراد ، خدا کی دعوت اور اس کی ہدایت کی پیروی کرنا ہے ۔ آیت شریفہ کا یہ جملہ { فان لہ معیشۃ ضنکا } اس لیے آیا ہے کہ جو کوئی پروردگار کو فراموش کر دے ، اس کی یاد سے غافل ہو جائے اس کے لیے دنیا کی وابستگی کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا ۔ دنیا کا حصول ہی اس کی واحد تمنا بن کر رہ جاتا ہے ۔ اس کا تمام ہم و غم دنیاوی امور کی اصلاح ، دنیاوی مال و منال میں اضافہ کرنااور اس سے لذت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ جس قدر بھی مال دنیا حاصل کرلے ، اس پر راضی نہیں ہوتا اور اس کو بڑھانے اور پہلے سے زیادہ کرنے کے درپے رہتا ہے ۔ اس کا دل ہر وقت مضطرب اور پریشان رہتاہے ۔ اس لیے کہ اس کا دل ابھی اُن چیزوں کے پیچھے ہے جو وہ حاصل نہیں کر سکا ۔ دوسری طرف وہ ہر وقت غم و اندوہ ، حزن و ملال اور پریشانی و اضطراب میں رہتا ہے ۔ اسے خوف رہتا ہے کہ کہیں کوئی ایسی آفت نہ آ جائے ۔ کہیں کوئی حادثہ پیش نہ آ جائے ، یا موت ، بیماری ، ناخوشی ، حاسدین کا حسد اور مکر کرنے والوں کے مکر و فریب کا شکار نہ ہو جائے اور کہیں وہ اپنی خواہشات سے دور ہو جائے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی کوششیں ناکام ہو جائیں یا اس کا کوئی عزیز دنیا سے نہ چلا جائے ۔
لیکن اگر انسان ، پروردگار کے مقام اور اس کی عظمت کو درک کرے اور ہمیشہ اسے یاد رکھے تو اسے یقین حاصل ہو جائے گا کہ اس کی حقیقی زندگی پروردگار کے پاس ہے۔ ایسی حیات کہ جسے موت نہیں ہے ۔ ایسا اختیار اور ملکیت کہ جسے زوال اور نابودی نہیں ہے ایسی عزت اور منزلت کہ جہاں ذلت اور خواری نہیں پہنچ سکتی ۔ خوشی ، سرور ، سکون اور کرامت کہ جس کی کوئی حد نہیں ، جس کا کوئی اختتام تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسا انسان بالیقین جان جائے گا کہ دنیا کی زندگی صرف ایک مجازی زندگی ہے حقیقی زندگی نہیں ہے اور دنیا کی زندگی آخرت کے لیےصرف متاع ہے ۔
ارشاد رب العزت ہے :
وَمَا الْحَيَاۃ الدُّنْيَا فِي الآخِرَۃ إِلا مَتَاعٌ ( رعد / ٢٦ )
دنیا کی زندگی آخرت کے لیے متاع کے سوا کچھ نہیں ۔
اگر انسان اس بات کا ادراک کر لے تو دنیا میں اس کے لیے جو کچھ مقدر کیا گیا ہے اپنے نفس کو اس پر قانع بناتا ہے ۔ اس صورت میں اسے جو کچھ مل جاتا ہے وہ اس کے لیے کافی ہوتا ہے بغیر اس کے کہ کسی قسم کی مشکل اور دشواری کا احساس کرے ۔(۲)
پروردگار عالم فرماتا ہے :
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُھمْ بِذِكْرِ اللَّہ أَلا بِذِكْرِ اللَّہ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (رعد / ٢٨ )
وہ جو ایمان لائے ہیں اور یاد خدا کے ساتھ ان کے دلوں کو آرام ملتا ہے جان لو دل تو صرف یاد خدا سے ہی آرام و سکون پاتے ہیں ۔
یہ آیت کریمہ بتا رہی ہے کہ قلبی آرام و سکون پانے کے لیے انسان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ خداوند متعال کی طرف دل کو متوجہ کرے ۔ یاد خدا ہے جو اُس کے دل کو سکون اور پریشانیوں اور دل کی گھبراہٹ سے نجات دیتی ہے ۔ دنیا کی زندگی میں انسان کا مقصد صرف سعادت اور نعمت تک پہنچنا ہے ، اور بلا و مصائب کے نازل ہونے اور اپنے مقصد کو نہ پا سکنے کے علاوہ کسی چیز سے خوف زدہ نہیں ہوتا ۔
دوسری طرف سے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں تمام امور خیر کی باگ ڈور ہے اور ہر چیز اسی کی طرف پلٹتی ہے ، وہ خدا وند متعال کی ذات ہے اور تمام بندوں سے بالاتر قدرت و طاقت اسی کے لیے ہے ۔ وہ جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے۔ وہ اپنے مومن بندوں کا ولی اور سرپرست ہے ۔ پناہ مانگنے والوں کو پناہ دینے والا ہے ۔ انسان کا نفس جو اِس دنیا کے حوادث کا شکار ہے ، کسی مطمئن پناہ گاہ کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے اور اس بات سے غافل ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے ، اس کے ساتھ کیا ہوگا ، ایسا شخص صرف یاد خدا کے ساتھ اپنے دل کو آرام و سکون دے سکتا ہے ۔
تمام انسانوں کا دل صرف یاد خدا سے ہی آرام پاتا ہے اور پریشانیوں اور اضطراب سے دور ہوتا ہے ۔ البتہ یہ حقیقت ان دلوں کے لیے ہے جنہیں ” قلب ” کہا جاسکتا ہے ۔ ایسا قلب جس نے اپنی فطری بینش و آگاہی کو محفوظ رکھا ہے ۔ لیکن جو دل اپنی اصل اور فطرت کسے منحرف ہو گیا ۔ وہ دل جو دیکھ نہیں پاتا ، سمجھ نہیں پاتا ، ایسا دل یاد خدا سے روگردانی اور سکون قلبی اور اطمینان خاطر سے محروم ہوگا ۔
ارشاد پروردگار عالم ہے :
لا تَعْمَى الأبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ( حج / ۴۶)
ایسا نہیں ہے کہ ظاہری آنکھیں اندھی ہو جائیں بلکہ وہ دل جو سینوں میں پائے جاتے ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ نیز فرماتا ہے :
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَھنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالإنْسِ لَہمْ قُلُوبٌ لا يَفْقَھونَ بِہا وَلَھمْ أَعْيُنٌ لا يُبْصِرُونَ بِھا وَلَھمْ آذَانٌ لا يَسْمَعُونَ بِھا أُولَئِكَ كَالأنْعَامِ بَلْ ھمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ ھمُ الْغَافِلُونَ ( اعراف / ١٧٩ )
اور بتحقیق ہم نے جن و انس کی ایک کثیر تعداد کو (گویا) جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے، یہی لوگ تو (حق سے) غافل ہیں۔
پھر فرمایا :
نَسُوا اللَّہ فَنَسِيَھمْ ( توبہ / ٦٧ )
انہوں نے خدا کو بھلا دیا اور خدا نے بھی انہیں فراموش کر دیا۔
آیت کریمہ کا یہ حصہ أَلا بِذِكْرِ اللَّہ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ حصر کا معنی دے رہا ہے ۔ اس طرح کہ ” بذکر اللہ ” فعل سے پہلے ذکر ہوا ہے اور اس چیز کو بیان کر رہا ہے کہ دل کسی بھی چیز سے آرام نہیں پاتے سوائے یاد خدا کے ۔ اس لیے کہ وہ ہمیشہ غالب ہے کبھی مغلوب نہیں ہوتا ۔ وہ بے نیاز اور بخشنے والا ہے اورصرف اُسی کی یاد سے دلوں کو قرار ملتا ہے ۔(۳)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔ المفردات فی غریب القرآن ، مادہ ” عیش "۔
2۔المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ١٤، ص ٢٢٤۔
3۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ١١ ، ص ٣٥٥۔