مقالات و آراء

  • دنیا میں برائی اور انحراف کے منفی اثرات(۲)

  • معاشرتی سطح پر فساد اور انحراف کے منفی اثرات
    قرآن کریم گناہ کے منفی اثرات کو بیان کرتے ہوئے انسان کی زندگی کے صرف انفرادی پہلو کو ہی بیان نہیں کرتا بلکہ اس کے وسیع تر اورزیادہ گہرے اثرات کو بیان کرتے ہوئے ثابت کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلانے اور بربادی کا ،قدرتی آفات اور بیماریوں کے ساتھ براہ راست تعلق ہے ۔ دنیا میں جتنے بھی حادثے یا اتفاقات رونما ہوتے ہیں ، کسی نہ کسی طرح سے ان کا تعلق انسانی اعمال وکردار کے ساتھ ہوتا ہے ۔ اگر انسان خداتعالیٰ کی اطاعت کریں اور اس کی رضا حاصل کرنے کی خاطر قدم اٹھائیں تو یہ چیز خیر و برکت کے نزول اور رحمت کے دروازے کھلنے کا باعث بنتی ہے ۔ لیکن اگر خدا کی بندگی کے راستے سے ہٹ جائیں اور پلید نیتوں کے ساتھ برے اعمال انجام دیں ، گمراہی اور سرکشی میں غوطہ زن ہوں تو اس کے نتیجے میں خشکی اور دریا میں فساد برپا ہو جاتا ہے ، تباہی پھیلتی ہے۔ زمین پر سے امن و امان اٹھ جاتا ہے ، انسانوں کے درمیان جنگیں ہوتی ہیں اور پوری امتیں ہلاکت کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ دوسری طرف بلائیں ، مصیبتیں اور ویران کر دینے والی قدرتی آفات آتی ہیں جیسے زلزلہ ، سیلاب ، بجلی کا گرنا اور طوفان اورآندھیاں ۔ قرآن مجید میں خداوند متعال نے قوم سبا کی زمین پر آنے والے سیلاب ، طوفان نوح ، قوم ثمود پر گرنے والی بجلی اور قوم عاد پر صر صر کی ہواؤں کو اسی طرح قرار دیا ہے ۔(۱)
    خداوند متعال فرماتا ہے :
    لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِھمْ آيَۃ جَنَّتَانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمَالٍ كُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَہ بَلْدَۃ طَيِّبَۃ وَرَبٌّ غَفُورٌ (١٥)فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْہمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاہمْ بِجَنَّتَيْہمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ (١٦)ذَلِكَ جَزَيْنَاہمْ بِمَا كَفَرُوا وَہلْ نُجَازِي إِلا الْكَفُورَ (سبا / ١٥ ۔ ١٧ )
    اور قوم سبا کے لئے ان کے وطن ہی میں ہماری نشانی تھی کہ داہنے بائیں دونوں طرف باغات تھے۔تم لوگ اپنے پروردگار کا دیا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو تمہارے لئے پاکیزہ شہر اور بخشنے والا پروردگار ہے ۔ مگر ان لوگوں نے انحراف کیا تو ہم نے ان پر بڑے زوروں کا سیلاب بھیج دیا اور ان کے دونوں باغات کو ایسے دو باغات میں تبدیل کردیا جن کے پھل بے مزہ تھے اور ان میں جھاؤ کے درخت اور کچھ بیریاں بھی تھیں۔ یہ ہم نے ان کی ناشکری کی سزادی ہے اور ہم ناشکروں کے علاوہ کس کو سزادیتے ہیں۔
    قوم نوح کے بارے میں فرمایا :
    مِمَّا خَطِيئَاتِہمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَہمْ مِنْ دُونِ اللَّہ أَنْصَارًا ( نوح /۲۵)
    یہ سب اپنی غلطیوں کی بنا پر غرق کئے گئے ہیں اور پھر جہنم ّمیں داخل کردیئے گئے ہیں اور خدا کے علاوہ انہیں کوئی مددگار نہیں ملا ہے۔
    دوسری جگہ فرمایا :
    وَأَمَّا ثَمُودُ فَہدَيْنَاہمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَى عَلَى الْہدَى فَأَخَذَتْہمْ صَاعِقَۃ الْعَذَابِ الْہونِ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ(فصلت / ١٧ )
    اور قوم ثمود کو بھی ہم نے ہدایت دی لیکن ان لوگوں نے گمراہی کو ہدایت کے مقابلہ میں زیادہ پسند کیا تو ذلّت کے عذاب کی بجلی نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا ان اعمال کی بنا پر جو وہ انجام دے رہے تھے۔
    اس کے علاوہ بھی بعض موارد ہیں جن کی طرف قرآن مجید نے اشارہ کیا ہے۔ لیکن شاید سب سے زیادہ عموم رکھنے والی آیت جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے یہ ہے :
    ظَہرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَہمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّہمْ يَرْجِعُونَ( روم / ٤١ )
    لوگوں کے اپنے اعمال کے باعث خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہو گیا تاکہ انہیں ان کے بعض اعمال کا ذائقہ چکھایا جائے، شاید یہ لوگ باز آ جائیں۔
    اس آیت کریمہ کا ظاہر کسی خاص وقت یا کسی مخصوص جگہ کی طرف اشارہ نہیں کر رہا بلکہ بصورت کلی مطلب کو بیان کر رہی ہے ۔ آیت میں جس خشکی اور دریا کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد تمام کرہ ارض ہےاور فساد اور تباہی سے مراد وہ تمام مصیبتیں اور آفات ہیں جو زمین پر رونما ہوتی ہیں جیسے زلزلہ ، قحط سالی ، بارش کا نہ ہونا ، وبائی بیماریوں کا پھیلنا ، جنگیں ، حملے، معاشرے سے امن وامان کا خاتمہ اور ہر وہ چیز جو معاشرے کو غیر معمولی صورت حال سے دوچار کر دے ۔ خواہ یہ واقعات بعض افراد کے ارادی افعال کی وجہ سے ہوں یا ایسا نہ ہو، ہر حال میں خشکی و دریا میں ہرج و مرج پیدا ہوتا ہے جو انسانی زندگی کو مشکل سے دوچار کر دیتا ہے ۔ ” بما کسبت ایدی الناس ” کے جملے سے مراد انسانی اعمال ہیں جو وہ انجام دیتے ہیں ، جیسے شرک کرنا اور گناہ انجام دینا ۔(۲)
    ایک دوسری آیت میں بھی اسی مفہوم کو بیان کیا گیا ہے جہاں پروردگار عالم فرماتا ہے:
    وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَۃ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ( شوریٰ / ٣٠ )
    اور تم پر جو مصیبت آتی ہے وہ خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آتی ہے اور وہ بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔
    اس آیت کا لب و لہجہ عمومی ہے اور یہ سارے معاشرے کو مخاطب قرار دے رہی ہے۔ اس بات کا لازمہ یہ ہے کہ آیت شریفہ میں جس مصیبت کا ذکر کیا گیا ہے سے مراد قحط ، خشک سالی ، مہنگائی ، بیماری اور زلزلے جیسی عمومی بلائیں اور مصیبتیں ہیں ۔ اس بنا پر آیت شریفہ بیان کر رہی ہے کہ معاشروں پر نازل ہونے والی بلاؤں اور مصیبتوں کی وجہ خدا تعالیٰ کی معصیت اور نافرمانی ہوتی ہے ۔ لہذا آیت کریمہ سے درج ذیل نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں :
    اول : آیت کے بیان میں تمام افراد شامل ہیں خواہ وہ کافر ہوں یا مومن ہوں۔ کیونکہ بعد والی آیت اسی مفہوم کو بیان کر رہی ہے ۔
    دوم : ” ما کسبت ایدیکم ” سے مراد گناہ اور نافرمانی ہے نہ تمام اعمال ۔
    سوم : انسان پر جو مصیبتیں نازل ہوتی ہیں وہ اس کے دنیاوی اعمال کی وجہ سے ہیں کیونکہ مصیبتوں اور انسانی اعمال کے مابین گہرا رابطہ ہے ۔ اور یہ اعمال کی اخروی سزا کے علاوہ ہے۔(۳)
    اس بنا پر اگر معاشرہ رذائل اخلاقی میں ڈوب جائے اور گناہوں میں غرق ہو جائے اور فطرت کے اس راستے سے ہٹ جائے جسے خدا وند متعال نے اس کے لیے قرار دیا ہے ،: فَأَقِمْ وَجْہكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَۃ اللَّہ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہا لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّہ(روم/٣٠)
    پس اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور خلقت الہٰی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے۔
    اس صورت میں خدا وند متعال بھی اس معاشرے کو اُن کے گناہوں کی سزا سے دوچار کر دیتا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں ہلاکت اور تباہی ان کا مقدر بن جاتی ہے ۔
    ارشاد ربانی ہے :
    أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الأرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃ الَّذِينَ كَانُوا مِنْ قَبْلِہمْ كَانُوا ہمْ أَشَدَّ مِنْہمْ قُوَّۃ وَآثَارًا فِي الأرْضِ فَأَخَذَہمُ اللَّہ بِذُنُوبِہمْ وَمَا كَانَ لَہمْ مِنَ اللَّہ مِنْ وَاقٍ(مومن/٢١ )
    کیا یہ لوگ زمین پر چلے پھرے نہیں ہیں تاکہ وہ ان لوگوں کا انجام دیکھ لیتے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ وہ طاقت اور زمین پر اپنے آثار چھوڑنے میں ان سے کہیں زیادہ زبردست تھے، پس اللہ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں گرفت میں لے لیا اور انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔
    نیز فرمایا :
    وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُہلِكَ قَرْيَۃ أَمَرْنَا مُتْرَفِيہا فَفَسَقُوا فِيہا فَحَقَّ عَلَيْہا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاہا تَدْمِيرًا ( اسراء / ١٦ )
    اور جب ہم کسی بستی کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس بستی میں فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں، تب اس بستی پر فیصلہ عذاب لازم ہو جاتا ہے پھر ہم اسے پوری طرح تباہ کر دیتے ہیں۔
    ایک اور جگہ فرمایا :
    ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّۃ رَسُولُہا كَذَّبُوہ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَہمْ بَعْضًا وَجَعَلْنَاہمْ أَحَادِيثَ فَبُعْدًا لِقَوْمٍ لايُؤْمِنُونَ(مؤمنون/٤٤)
    پھر ہم نے یکے بعد دیگرے برابر اپنے رسول بھیجے، جب بھی کسی امت کے پاس اس کا رسول آتا تو وہ اس کی تکذیب کرتی تو ہم بھی ایک کے بعد دوسرے کو ہلاک کرتے رہے اور ہم نے انہیں افسانے بنا دیا، (رحمت حق سے) دور ہوں جو ایمان نہیں لاتے۔
    یہ سنت الٰہی ہے اور قرآن مجید نے اس بارے میں متعدد موارد میں اشارہ کیا ہے اور تاکید کی ہے کہ سنت الٰہی میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا ۔ ارشاد ہے :
    وَأَقْسَمُوا بِاللَّہ جَہدَ أَيْمَانِہمْ لَئِنْ جَاءَتْہمْ آيَۃ لَيُؤْمِنُنَّ بِہا قُلْ إِنَّمَا الآيَاتُ عِنْدَ اللَّہ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّہا إِذَا جَاءَتْ لا يُؤْمِنُونَ (الانعام/ ۱۰۹)
    اور یہ لوگ اللہ کی پکی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کو ئی نشانی آئی تو ضرور ایمان لے آئیں گے تو آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں تو سب خدا ہی کے پاس ہیں اور تم لوگ کیا جانو کہ وہ آ بھی جائیں گی تو یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے۔
    بہت ساری روایات اور احادیث میں بھی اس قرآنی حقیقت کی تاکید کی گئی ہے ہم یہاں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :
    ١ ۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام پیغمبر اکرم ﷺسے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب انہیں دیکھو تو خدا کی پناہ مانگو ۔ اول یہ کہ کسی قوم میں آشکارا فحشا و بے حیائی رائج نہیں ہوتی مگریہ کہ وہ قوم طاعون اور ایسی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ جن کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔ دوم یہ کہ کوئی قوم ناپ تول میں کمی نہیں کرتی مگر یہ کہ قحط سالی ، معاشی تنگ دستی اور ظالم حکمران کے ظلم میں مبتلا ہو جاتی ہے ۔ سوم: کوئی قوم زکات ادا کرنے سے ممانعت نہیں کرتی مگر یہ کہ باران رحمت ان سے دور ہو جاتی ہے اور اگر جانور نہ ہوتے تو کبھی بارش ہوتی ہی نہ ۔ چہارم یہ کہ کوئی قوم خدا اور اس کے رسول کے ساتھ کیے گئے عہد و پیمان کو نہیں توڑتی مگر یہ کہ خداوند اس قوم کے دشمن کو اس پر مسلط کر دیتا ہے تاکہ وہ اُن کے اموال کو لوٹ لے ۔ پنجم یہ کہ کوئی قوم اپنے فیصلوں میں خدا کے حکم کو ترک نہیں کرتی مگر یہ کہ خدا وند متعال ان کی سزا کو خود ان کے درمیان قرار دے دیتا ہے ۔
    ” فحشا سے مراد زنا کاری ہے اور معاشی تنگی سے مراد خشک سالی اور قحط ہے ۔ "(۴)
    اس حدیث کے ذیل میں جناب مازندرانی شرح اصول کافی میں لکھتے ہیں :
    ” پہلا گناہ کہ جس کے نتیجے میں تولید مثل کے آلات ضائع ہو جاتے ہیں اس کی طاعون کے ذریعے سزا دی جاتی ہے کہ جس کی وجہ سے نسل منقطع ہو جاتی ہے۔ دوسرا گناہ کہ جسے مال وروزی میں اضافے کی خاطر انجام دیا جاتا ہے اس کی سزا قحط ، معاشی تنگ دستی اور ظالم بادشاہ کو مسلط کر کے دی جاتی ہے کہ جو ان کے مال و اسباب غارت کر لیتاہے۔
    تیسرا گناہ اس حق کا ادا نہ کرنا ہے ۔ جو خدا وند متعال نے اس زراعت اور کھیتی میں رکھا ہے جو اس نے پانی کے ذریعے انسان کو عطا کی ہے یہ گناہ باران رحمت کے نازل نہ ہونے کے ساتھ تناسب رکھتا ہے ۔ چوتھا گناہ عدل و انصاف سے دوری اختیار کرنا اور عادل حاکم کی پیروی نہ کرنا ہے ۔ اس کی سزا دشمن کو مسلط کرنا اور اس کے مال و اسباب کو لوٹ لینا ہے۔
    پانچواں گناہ کہ جس میں احکام خدا اور شریعت سے دوری اختیار کی جاتی ہے ۔ اس کی سزا یہ ہے کہ لوگوں کے مابین ظلم رواج پا جاتا ہے اوربعض لوگ دوسرے بعض پر غلبہ و تسلط قائم کر لیتے ہیں ۔
    اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بلائیں اور مصیبتوں کے نازل ہونے میں ایسے گناہوں کا بہت زیادہ دخل ہے ۔ اس لیے کہ معصیت کرنے والوں نے گناہ پر اصرار کر کے اور اس مقابلے میں لا پروائی کا مظاہرہ کر کے خود کو عذاب خدا وند ی کا مستحق بنا لیا ہے ۔
    اس حدیث میں عبارت ” اگر جانور نہ ہوتے تو کبھی بارش نہ ہوتی ” یہ سمجھا رہی ہے کہ جانور کا وجود بھی انسان کے لیے باعث رحمت ہے اور جانور ، الٰہی فیض و برکت کے نزول کا موجب ہوتے ہیں ۔ کیونکہ جانوروں کی زندگی کا انحصار پانی اور چارے پر ہے اور یہ سب آسمان سے برسنے والی بارش کے ساتھ منسلک ہے ۔ اسی لیے جب جانوروں کی خاطر آسمان سے بارش نازل ہوتی ہے تو انسان بھی اس سے استفادہ کر لیتے ہیں ۔ جیسا کہ چیونٹی کی طرف سے طلب باران والی حکایت میں اس کی زبانی آیا ہے : ” پروردگارا ! بنی آدم کے گناہوں کی وجہ سے ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا” ۔
    پس جس طرح گناہگاروں کے لیے نازل ہونے والے غضب الٰہی اور عذاب میں نیک و صالح لوگ بھی پس جاتے ہیں ، اسی طرح جب کمزوروں اور نیک و صالح افراد پر رحمت الٰہی نازل ہوتی ہے تو یہ بدکار اور گناہگار لوگوں کو بھی شامل ہو جاتی ہے ۔
    ہوسکتا ہے کہ حدیث میں ذکر ہونے والے ” عہد الٰہی ” سے مراد امام برحق اور اس کے پیروکاروں کی مدد کا عہد ہو ۔ اس لیے کہ یہ کام عدل و انصاف کو توسیع دینے اور لوگوں کی جان اور ان کے مال و اسباب کو محفوظ کرنے نیز دشمن کو روکنے کا سبب بنتا ہے پس اس عہد کو توڑنا اور امام کی اطاعت اور امام کی مدد سے پیچھے ہٹنا ظالم بادشاہ کے تسلط کو قائم کرنے ، نا حق خون کے بہائے جانے اور لوگوں کے اموال کے غارت ہونے کا موجب بنتا ہے ۔ آج ہم دنیا میں جگہ جگہ ایسے مناظر دیکھتے ہیں ۔
    دوسری طرف خود لوگوں کے درمیان عذاب کا آجا نا ہو سکتا ہے اس سے مراد یہ ہو کہ ایک گروہ دوسرے گروہ پر مسلط ہو کر ان پر ظلم و ستم روا رکھے گا۔(۵)
    ٢ ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :
    جب لوگوں کے درمیان چار چیزیں رواج پا جائیں تو چار بلائیں ظاہر ہو جاتی ہیں۔ اگر زنا اور فحاشی عام ہو جائے تو زلزلے آتے ہیں ۔ اگر ظلم و ستم عام ہو جائے تو باران رحمت کا نزول نہیں ہوتا ۔ جب پیمان شکنی رائج ہو جائے تو مشرکین مسلمانوں پر مسلط ہو جاتے ہیں اور جب لوگ زکوٰۃ دینے سے ممانعت کریں تو فقر و تنگ دستی اور معاشی بد حالی پیدا ہو جاتی ہے ۔(۶)
    ٣ ۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا :
    ایسے گناہ جو نعمتوں کو بدل دیتے ہیں [روک دیتے ہیں]یہ ہیں : لوگوں پر ظلم و ستم کرنا ، نیک اور پسندیدہ کاموں سے پیچھے ہٹ جانا ، کفران نعمت کرنا اور نعمتوں پر شکر نہ کرنا۔ پروردگار عالم فرماتا ہے: إِنَّ اللَّہ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِہمْ ( رعد / ١١ )
    اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔
    وہ گناہ جو انسان کے لیے دشواری پیدا کرتے ہیں درج ذیل ہیں :
    لوگوں کے ساتھ زیادتی کرنا ، تکبر کرنا ، دوسروں کا مذاق اڑانا اور ان کا مسخرہ کرنا۔
    وہ گناہ جو بلاؤں اور مصائب کے نزول کا باعث بنتے ہیں یہ ہیں:
    لا چاروں کی مدد نہ کرنا ، ان کی فریاد کو نہ پہچنا ۔ مظلوم کی مدد نہ کرنا ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کر دینا ۔
    وہ گناہ جو دشمن کے غلبہ و تسلط کا باعث بنتے ہیں یہ ہیں :
    کھلم کھلا ظلم کرنا ۔ فسق و فجور کو علانیہ طور پر انجام دینا ۔ حرام کاموں کو جائزسمجھنا ۔ نیک لوگوں کے ساتھ سرکشی کرنا اور بدکار لوگوں کی پیروی کرنا ۔
    وہ گناہ جو جلدی تباہی اور نابودی کی طرف لے جاتے ہیں یہ ہیں :
    صلہ رحمی کو چھوڑ دینا ۔ جھوٹی قسمیں کھانا ۔ جھوٹ بولنا ۔ زنا کرنا ، مسلمانوں کی سرزمین میں لوٹ مار کرنا اور امامت کا جھوٹا دعویٰ کرنا۔
    وہ گناہ جو باران رحمت کے نزول میں رکاوٹ ہوتے ہیں یہ ہیں :
    ججوں کا فیصلوں میں ظلم کرنا ۔ جھوٹی گواہی دینا ۔ گواہی کو چھپا لینا ۔ زکوٰۃ، قرض اور امانت کی ادائیگی میں حیل و حجت سے کام لینا ۔ فقیروں اور تندستوں کے مقابلے میں سنگ دلی کا مظاہرہ کرنا ۔ یتیموں اور بیوہ عورتوں پر ستم کرنا ۔ سائل کو نااُمید کر دینا اور رات کے وقت کسی سائل کو واپس کر دینا ۔(۷)
    اس کے بعد امام علیہ السلام بعض گناہوں کے انفرادی اثرات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
    وہ گناہ جو دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بنتے ہیں یہ ہیں : بے جا آرزوئیں رکھنا، بد فطرت ہو جانا ، مومن بھائیوں کے ساتھ منافقت والا رویہ رکھنا ۔ واجب نمازوں کو تاخیر سے بجا لانا ، اس طرح کہ اُن کا وقت گزر جائے ۔ صدقہ و خیرات کو ترک کر کے خدا وند متعال سے دور ہو جانا اورگفتگو میں پست الفاظ کا استعمال کرنا اور فحش کلام کرنا ۔
    وہ گناہ جو انسان کی امید کو نا اُمیدی میں بدل دیتے ہیں یہ ہیں: خداوند متعال کی بارگاہ سے نا اُمید ہو جانا ۔ خدا تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو جانا ۔ غیر خدا پر اعتماد کرنا اور خدا وند عز وجل کے وعدوں کو صحیح نہ سمجھنا ۔
    وہ گناہ جو (حیا اور عفت) کے پردوں کو چاک کر دیتے ہیں یہ ہیں:
    واپس نہ کرنے کی نیت سے قرض لینا ۔ بیہودہ اور لغو کاموں کے لیے حد سے زیادہ خرچ کرنا ، اپنے اہل و عیال اور قریبیوں پر خرچ کرنے میں کنجوسی سے کام لینا، بد اخلاقی ، بے صبری ، سستی ، دوسروں کو دکھی کرنا اور دینداروں کی تحقیر کرنا ۔
    وہ گناہ جو طویل مدت کے لیے پشیمانی لاتے ہیں یہ ہیں:
    جسے قتل کرنے سے خدا تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ، اسے قتل کر دینا ۔ اس بارے میں ارشاد ہے : وَلا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ ( اسراء / ٣٣ ) اس نفس کو قتل نہ کرو جسے خدا نے حرام قرار دیا ہے ۔ اور قابیل کی داستان میں جب وہ حضرت ہابیل کو قتل کرنے کے بعد انہیں دفن کرنے سے عاجز تھا فرمایا : فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ( مائدہ / ٣١ ) وہ پشیمان ہونے والوں میں سے ہوگیا ۔ اقرباء سے تعلق نہ رکھنا یہاں تک کہ قطع تعلقی ہو جائے ۔ نماز کی ادائیگی میں اتنی تاخیر کرنا کہ اس کا وقت گزر جائے۔ وصیت کرنے سے پرہیز کرنا ، اپنے کیے ہوئے ظلم کا ازالہ نہ کرنا اور زکات کی ادائیگی میں حیل و حجت سے کام لینا یہاں تک کہ موت کا وقت آن پہنچے اور زبان بند ہو جائے ۔
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    2۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ١٦ ، ص ١٩٥۔
    3۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ١٨ ، ص ٥٩ ۔
    4۔ علامہ مجلسی ، مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل الرسول ، ج ١١ ، ص ٧٠ ، مطبع اسلامی ۔
    5۔ محمد صالح مازندرانی ، شرح جامع اصول الکافی ، ج ١ ، ص ٣٠ ، مطبع اسلامی ۔
    6۔ الاصول من الکافی ، کتاب ایمان و کفر ، ج ٢ ، ص ٤٤٨ ، باب تفسیر گناہ ، حدیث ٣۔
    7۔ معانی الاخبار ، ص ٢٧٠ ، حدیث ٢[البرہان فی تفسیر القرآن ، ج ٦ ، ص ١٦٢ ]کے مطابق ۔

    • تاریخ : 2018/03/02
    • صارفین کی تعداد : 1891

  • خصوصی ویڈیوز