انسان کی اندرونی حالت کا بیرونی دنیا کے ساتھ رابطہ
جیسا کہ اشارہ کر چکے ہیں اس ” آیت شریفہ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأرْضِ جَمِيعًا مِنْہ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (جاثیہ / ١٣) اور جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کیا، غور کرنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔کی بنیاد خدا وند کی حکیمانہ تدبیر پر ہے اور جو کچھ انسان کے اطراف میں ہے سب کچھ اس کی آسائش کے لیے خلق کیا گیا ہے ۔ اور یہ وہی ہدایت ہے کہ جس طرف قرآن مجید کی اس آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے : قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہ ثُمَّ ھدَى (طہ۵۰)
موسٰی نے کہا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی مناسب خلقت عطا کی ہے اور پھر ہدایت دی ہے ۔
اگر اس راستے میں کوئی رکاوٹ آ جائے جس کی وجہ سے مقصد تک پہنچنے میں دشواری پیش آ رہی ہو یا انسان کے لیے اپنے مقصد وَأَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنْتَھى ( نجم / ٤٢ ) اور بیشک سب کی آخری منزل پروردگار کی بارگاہ ہے، تک پہنچنا نا ممکن ہو جائے تو پروردگار عالم اصلاح کے عمل سے یا خراب حصے کی ترمیم کے ذریعے اس رکاوٹ کو دور فرماتا ہے ۔ جیسا کہ اگر انسان کے جسم میں کوئی پھوڑا ظاہر ہو جائے تو پہلے اس کا علاج کیا جاتا ہے اور اگر وہ قابل علاج نہ رہے تو آپریشن کے ساتھ اسے جسم سے خارج کر دیا جاتا ہے ۔ نظام خلقت اور عالم تکوین بھی اسی طرح ہے کہ اگر کوئی امت اپنی اصلاح اور تزکیہ نفس کر کے الٰہی فطرت اور بندگی خدا کی طرف پلٹ آئے تو پروردگار عالم بھی اس کے حالات کو بہترین کر دیتا ہے ۔خداوند متعال جل شانہ کا ارشاد ہے :
إِنَّ اللَّہ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِہمْ ( رعد / ١١ )
اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔
اس آیت کریمہ کے لب و لہجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک کلی قانون کو بیان کر رہی ہے اور بتا رہی ہے کہ انسان کے اندرونی حالات کا اس کی کائنات کے خارجی حالات سے بہت گہرا تعلق ہے ۔ خیر و نیکی کے راستے میں ہو یا شر و بدی کی راہ میں اس طرح کہ اگر کوئی امت ایمان ، اطاعت خدا اور شکر نعمت کے راستے پر ہوتو پروردگار عالم بھی اپنی ظاہری اور باطنی نعمات اس کو عطا فرماتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے یہانتک کہ وہ قوم اپنے طریقےکو بدل کر کفر اختیار کر لے اور فساد کی راہ اپنا لے تو اس صورت میں خدا وند متعال اپنی نعمات کو عذاب اور نقمت میں بدل دیتا ہے ۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قوم پھر اپنا طریقہ بدل لے اور ایمان ، شکر اور اطاعت کے راستے پر آ جائے توپروردگار عالم بھی ان کے عذاب کو نعمت و رحمت سے بدل دیتا ہے ۔1
لیکن اگر کوئی امت گمراہی اور تباہی کے راستے پر چلتی رہے اور اس سے باز نہ آئے تو پروردگار عالم اُن کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے اور وہ لوگ بھی فساد اور گمراہی کے عادی ہو جاتے ہیں ۔ اور تصور کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی بس اسی مادی دنیا "کہ جو پریشانیوں ، اضطراب اور بے سرو سامانی کے ہمراہ ہے” تک محدود ہے ۔ اس مادی زندگی کو رنج و غم ، مصیبتوں اور قدرتی آفات کی آماجگاہ سمجھتا ہے اس بنا پر بجائے اس کے کہ انسان اپنے اندر غور کرے اور فطرت کے ان حملوں کی اصل وجہ دریافت کرے ، اپنے آپ کو سائنس سے مسلح کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ فطرت کے اس غضب اور قدرتی حوادث کے مقابلے میں کھڑا ہو سکے ۔
اور اس کی بجائے کہ اس آیت کریمہ وَأَن لَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَۃ لأسْقَيْنَاھمْ مَاءً غَدَقًا ( جن / ١٦ ) اور اگر یہ لوگ سب ہدایت کے راستے پر ہوتے تو ہم انہیں وافر پانی سے سیراب کرتے، کا مصداق بن کر حق و حقیقت کے راستے پر آ جائیں اور دنیاوی رنج و الم اور قدرتی آفات کو اپنے لیے بیداری و آگاہی کا ایک پیغام سمجھ کر خدا تعالیٰ کے راستے کی طرف واپس آ جائیں، لِيُذِيقَھمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّھمْ يَرْجِعُونَ (روم / ٤١ ) تاکہ خدا ان کے کچھ اعمال کا مزہ چکھا دے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستے پر آجائیں ،تکبر اور توہم پرستی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اسْتِكْبَارًا فِي الأرْضِ وَ مَكْرَ السَّيِّئِ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلا بِأَھلِہ فَھلْ يَنْظُرُونَ إِلا سُنَّۃ الأوَّلِينَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃ اللَّہ تَبْدِيلا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃ اللَّہ تَحْوِيلا ( فاطر / ٤٣ )
یہ زمین میں تکبر اور بری چالوں کا نتیجہ ہے، حالانکہ بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے، تو کیا یہ لوگ اس دستور (الٰہی) کے منتظر ہیں جو پچھلی قوموں کے ساتھ رہا؟ لہٰذا آپ اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے اور نہ آپ اللہ کے دستور میں کوئی انحراف پائیں گے۔
سمجھتے ہیں زندگی کے مختلف شعبوں میں علمی ترقی کے ذریعے نظام تکوین میں موجود خدائی سنتوں اور روشوں پر غلبہ پا سکتے ہیں ۔ اور یوں قدرتی نظام کو اپنی نفسانی خواہشات کے تابع کر سکتے ہیں جبکہ وہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ اگر طبیعی اور فطری قوانین انسان کے ارادے کے تابع ہو جائیں تو زمین و آسمان کا نظام تباہ ہو جائے گا اور اجزائے فطرت میں سب سے پہلے انسان ہوگا جو تباہی و ہلاکت کا شکار ہوگا ۔
پروردگار عالم کا ارشاد ہے :
وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَھوَاءَھمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأرْضُ وَمَنْ فِيھنَّ بَلْ أَتَيْنَاھمْ بِذِكْرِھمْ فَھمْ عَنْ ذِكْرِہمْ مُعْرِضُونَ ( مومنون / ٧١ )
اور اگر حق ان لوگوں کی خواہشات کے مطابق چلتا تو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب تباہ ہو جاتے، بلکہ ہم تو ان کے پاس خود ان کی اپنی نصیحت لائے ہیں اور وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑتے ہیں۔
علامہ طباطبائی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
انسان ایک مادی اور طبیعی موجود ہے ۔ اس کا وجود عالم ہستی کے تمام اجزا کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس کا ایک مقصد ہے جو اس کی کامیابی اور سعادت شمار ہوتا ہے ۔
اور دیگر موجودات کی مانند انسان کے لیے بھی سعادت تک پہنچنے کا راستہ مشخص کر دیا گیا ہے اوراس ہدف تک پہنچنا صرف اسی راستے سے ممکن ہے ۔ دوسری طرف نظام تکوین اور انسان کی خاص خلقت نے اسے ایک توانائی فراہم کی ہے کہ جس کے ذریعے وہ راہ سعادت کہ جو اعتقاد اور عمل صالح ہے کو طے کر سکتا ہے پس جو راستہ انسان کو سعادت تک پہنچاتا ہے اور انسا ن اور اس کے ہدف کے درمیان واسطہ ہے وہ یہی ایمان اور عمل صالح ہے کہ جس کا نام ” دین ” ہے ۔
اور عالم طبیعت : نظام تکوین میں پائی جانی والی سنن الٰہی اور انسان کی خلقت کے خاص نظام جسے ” فطرت ” کہا جاتا ہے ، کے ساتھ ہم آہنگ اور متناسب اور اسکے تابع اور یہ وہی حقیقت ہے جس کی طرف اشارے کرتے ہوئے پروردگار عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے :
فَأَقِمْ وَجْھكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَۃ اللَّہ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْھا لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّہ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ( روم / ٣٠ )
آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور خلقت الہٰی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے ۔
عالم طبیعت میں پائی جانے والی سنن جوکہ سالک کو راہ سعادت تک پہنچاتی ہیں ۔ ایک معین اور مشخص راستہ ہیں اور نظام تکوین اور انسانی صلاحیتیں اس حقیقت کی حکایت کرتی ہیں ۔ یہ حقیقت وہی ثابت اور تبدیل نہ ہونے والے قوانین ہیں کہ نظام تکوین اور منجملہ انسان انہی قوانین کے تحت ہیں اور انہیں کے پابند ہیں اور خداوند متعال نے اپنی برترمشیئت کے ساتھ ان قوانین کو نظام خلقت میں ودیعت کیا ہے تاکہ یہ انسان کو اُس کے اہداف و مقاصد کی طرف آگے بڑھائیں اور خدا جو ارادہ کرتا ہے وہ ہر صورت میں ہو کر رہتا ہے بنابر این اگر طے یہ ہو کہ ارادہ الہی ، انسان کی خواہش کے مطابق عمل کرے ، اس کے تابع رہے اور شرع مقدس اُس چیز کا حکم دے جو انسان کا نفس چاہتا ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ نظام تکوین کے اجزا کی موجودہ صورت بالکل بدل جائے ۔ حوادث اور واقعات کے علل و اسباب میں کلی طور پر تبدیلی آ جائے اورمنظم اور دقیق قوانین کی جگہ بے ہنگم اور نا ہم آہنگ قوانین کہ جو انسان کی نا ہم آھنگ اور بدلتی ہوئی خواہشات کے ساتھ متناسب ہیں آجائیں ۔ اور اس چیز کا واضح نتیجہ زمین و آسمان کی تباہی اور بربادی اور موجودات کےنظم ، ان کے اجزا کے درمیان پائے جانے رابطے اوران کے درمیان پائے جانے والے استحکام اور ہم آہنگی کا خاتمہ ہے ۔ اس لیے کہ نظام ہستی ان قوانین کے ساتھ مرتبط ہے ۔ اور ” خلق ” [خلقت ] اور ” امر ” [ کائنات کی تدبیر ] ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں ۔2
اب تک جو کچھ کہا گیا ہےاس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان بھی کائنات کے دیگر تمام موجودات کی مانند اپنے اطراف میں موجود کائنات کے اجزا کے ساتھ مرتبط ہے اور اس کی زندگی کے دوران منزل سعادت تک پہنچنے کے لیے اس کے اعمال اور کردار اجزائے ہستی کے ساتھ منسلک ہیں ۔ لہذا جہاں انسان کے اعمال اور اس کا کردار عالم طبعیت کے قوانین کے ساتھ یکسو ہوں تو عالم ہستی کے اجزا بھی اس کے ساتھ یکسو ہو جائیں گے ۔اور آسمان سے خیر و برکت کے دروازے انسان کے لیے کھول دیے جائیں گے ۔ لیکن اگر انسان کے اعمال فاسد اور تباہ حال ہوں تو تو نظام فطرت اور نظام ہستی بھی اسی تباہ کن روش کے ساتھ اس کے مقابلے میں آجائے گا ۔ اب اگر انسان توبہ کر لے اور واپس پلٹ آئے اور دوبارہ خیر و صلاح کے راستے پر گامزن ہو جائے تو ایک مرتبہ پھر رحمت کے دروازے اس پر کھول دیے جائیں گے ۔ لیکن اگر وہ انسان فساد اور تباہی کے راستے پر باقی رہے اور فساد اس کے وجود میں جڑ پکڑ جائے تو نظام طبیعت اور نظام ہستی بھی اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوگا اور اسے ہلاک اور نابودکر کے زمین کو اس کے ناپاک وجود سے پاک کر دے گا ۔ 3
………………………………………………………………………………………
1۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ١١ ، ص ٣١١ ۔
2۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ١٥ ، ص ٤٦ ۔
3۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ٨ ، ص ١٩٨۔