مقالات و آراء

  • آئمہ اہل بیت (علیھم السلام) کے بارے میں آیت اللہ العظمیٰ سید کمال حیدری کا عقیدہ

  • عزيزو! ميں بارہ اماموں(ع) کے بارے ميں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں تاکہ یہ نہ کہا جائے کہ ميں توريہ(حقيقت کو چھپانا) کر رہا ہوں وہ یہ ہے : ” بارہ امام ؛ جانشين، رہنما، ہدايت يافتہ اور راشدين ہيں کہ جن کا آغاز امير المومنين(ع) اور ان کے بيٹوں(عليھم السّلام) سے ہوتا ہے اور اختتام بارہويں امام (ع) پر ہوتا ہے جو زندہ ہيں اور ہمارے درميان موجود ہيں ليکن نظروں سے اوجھل ہيں”۔اگر اس سے بھی زيادہ واضح کوئی عبارت ہے تو بتائيں تاکہ ميں وہ کہہ دوں!

    عزيزو! حاليہ دنوں ميں يہ افواہ اڑائی گئی ہے کہ سيد حيدری امامت کے بارے ميں ايسی ويسی باتيں کرتے ہيں ۔ پہلے انہوں نے يہ الزام لگايا کہ اس نے حضرت حجّت(عج) کی ولادت کا انکار کر ديا ہے اور اب يہ کہہ رہے ہيں کہ وہ امامت کا ہی منکر ہے۔ بارہ اماموں(ع) کے بارے ميں ميرا کيا عقيدہ ہے، اس کيلئے چند اصولوں کی وضاحت کرنی پڑے گی ۔ يہ ميرا عقيدہ ہے اور ميں يہ نہيں کہتا کہ مذہب (بھی) يہی ہے ، بسا اوقات ممکن ہے کہ کوئی اور مجھ سے اتفاق نہ کرتا ہو، وہ آزاد ہے ۔ يہ ميرا ذاتی عقيدہ ہے۔

    پہلی اصل: جن مقامات کو قرآن کريم نے انبيا ،اوليا ، اوصيا ، متقی ، نيک اور مقرّب لوگوں کے ليے ذکر کيا ہے ۔ان ميں سے بلند ترين مقام کہ جسے قرآن کريم نے قربِ الہی کے مقامات ميں سے ذکر کيا ہے، وہ مقامِ امامت ہے ، يعنی ايک شخص کس طرح پہلے حوالدار،اس کے بعد کيپٹن اور پھر کرنل بنتا ہے؟ ايک عبد قربِ الٰہی کی منازل طے کر کے جب بلند ترين مرتبے تک پہنچ جاتا ہے، تو اسے نشانِ امامت عطا ہوتا ہے ۔

    کيونکہ فرمان الٰہی ہے: "ميں تم کو لوگوں کا امام اور پيشوا قرار ديتا ہوں” صريح اورآشکار روايات ميں اشارہ ملتا ہے کہ ابراہيم کو نبوّت ، خُلّت(خليلِ الہی کا مقام) اور رسالت کے بعداس مقام پر فائز کيا گيا ، يعنی يہ ان مقامات سے بلند تر مقام ہے اور جس وقت خدا نے ابراہيم کو کلمات سے آزمايا اور انہوں نے ان سب کو پورا کر دکھايا تو خدا نے فرمايا : "ميں تم کو لوگوں کا امام اور پيشوا بناتا ہوں”۔

    اس کے ذيل ميں وارد ہونے والی روايات بہت زيادہ ہيں جو اس حقيقت کی طرف اشارہ کر رہی ہيں جیسا کہ "اصول کافی” ، جلد اوّل ، صفحہ نمبر425 ميں ہے : "يہ امامت کا مقام ہے کہ جس پر تمام اولوالعزم پيغمبر نبوّت اور رسالت کے بعد فائز ہوئے ہيں اور وہ اولوالعزم کی طرح امام ہے اورابراہيم پہلے نبی تھے امام نہ تھے يہاں تک کہ خدا نے ان سے فرمايا: ميں آپ کو لوگوں کا امام اور پيشوا بناتا ہوں”۔ يہ روايت "طبقات الانبيا و الرّسل” کے باب ميں وارد ہوئی ہے اور اس مقام پر ہميں سند ديکھنے کی ضرورت نہيں ہے کيونکہ يہ روایت قرآنی نص کے مطابق ہے ،اور ہمارے مبنی کے مطابق روایت کا قرآن کے موافق ہونا ضروری ہے جبکہ قرآن اشارہ کر رہا ہے کہ مقامِ امامت؛ نبوّت اور رسالت کے مقام سے بلند ہے ۔

    اسی طرح اصول کافی کی مذکورہ جلد کے صفحہ نمبر 490 پر امام رضا(ع) کی یہ روايت بھی موجود ہے جس میں آپ (ع) نے فرمايا : ” خداوند عزوّجل نے ابراہيم خليل(ع) کو نبوّت اور خلّت کے بعد جو تيسرا مقام عطا کيا، وہ مقامِ امامت تھا” پس وجودی مراتب اور شرافت و فضيلت کے مقامات کی رو سے امامت؛مقامِ نبوّت ، رسالت اور ديگر مقامات سے بلند ہے

    دوسری اصل: قرآنی امامت اور (نبوّت) کے درميان نسبت؛ یہاں ہماری مراد کلامی امامت نہیں ہے جو سياسی خلافت کے معنوں ميں ہے بلکہ سياسی خلافت تو قرآنی امامت کے شئون(فرائض ميں سے ہے)نہ يہ کہ خود قرآنی امامت ہے ۔ پس قرآنی امامت ان تمام مقامات سے بلند ہے ۔ جی ہاں! اس کے حالات ميں سے ايک يہ ہے کہ جو شخص بھی قرآنی امام ہو گا سياسی حاکم کے عنوان سے بھی متعيّن ہو جائے گا۔ يعنی چونکہ اس کو متعیّن کیا گیا ہے لہذا،وہ سياسی خليفہ اور رہنما ہوگا۔

    دوسری اصل : منطقی اعتبار سے قرآنی امامت اور نبوّت کے درميان نسبت "عموم و خصوص من وجہ” کی ہے ،يعنی ممکن ہے کہ ايک شخصيّت پيغمبر ہو اور امام نہ ہو جيسا کہ حضرت ابراہيم(ع)ميں (ايسا ہی تھا)،مقامِ امامت تک پہنچنے سے پہلے اور ممکن ہے کہ امام ہو ليکن پيغمبر نہ ہو جس طرح ہم آئمہ اھل بيت (ع)کے بارے ميں عقیدہ رکھتے ہیں ۔اور ممکن ہے کہ پيغمبر بھی ہو اور امام بھی۔ جيسا کہ حضرت ابراہيم(ع)اور ديگر اولو العزم پيغمبر ،پس پيغمبر اکرم(ص) فقط نبی اور رسول نہ تھے بلکہ ان کے پاس قرآنی امامت کا مقام بھی تھا يقينا اور قرآن بھی واضح الفاظ ميں کہہ رہا ہے کہ حضرت ابراہيم(ع) ان دو مقامات کے جامع تھے۔

    تيسری اصل: اگر کسی شخص کے اندر قرآنی امامت؛ نبوّت اور رسالت کے ساتھ جمع ہو جائے تو اس کا مقامِ امامت،اس کے مقامِ نبوّت اور رسالت سے بلند تر ہوگا ۔ايسا نہيں ہے کہ ہر امام ہر نبی سے برتر ہو ہم يہ نہيں کہنا چاہتے کہ ہر امام ہر نبی سے برتر ہے ، کيونکہ قرآن انبيائے بنی اسرائيل کے بارے ميں کہتا ہے:”اور ہم نے ان کو ايسا پيشوا بنايا جو (لوگوں کو) ہمارے امر کے مطابق ہدايت کرتے تھے” تو پھر کيا انبيائے بنی اسرائيل جو امام بھی تھے، رسول اللہ(ص) سے افضل ہيں؟

    نہيں !خود اسی شخصیت کے اندر اگر اس کے مقامِ نبوت و رسالت کااس کے مقامِ امامت کے ساتھ موازنہ کريں تو اس کا مقامِ امامت ديگر مقامات سے بلند ہے ؛ ايسا نہيں ہے کہ ہر امام ہر پيغمبر سے برتر ہو۔ لہذا آپ کا ذہن اس طرف نہ جائے کہ جب ہم مقامِ امامت کو مقامِ نبوّت سے برتر کہتے ہيں تو پھر لازمی طور پر ہمارے امام، حضرتِ ابراہيم(ع) سے افضل ہيں۔ ہرگز نہيں! ان کی افضليت کی دليل جدا ہے، نہ يہ کہ امام ہونے کی وجہ سے (افضل ہوں)! يہ غلط ہے اور افسوس کی بات ہے کہ ہمارے منبروں سے کہا جاتا ہے کہ امام پيغمبر سے افضل ہيں ۔ پس علی ابن ابی طالب(عليہ السّلام) ابراہيم(ع) سے افضل ہيں، نہيں يہ (استدلال) درست نہيں ہے ۔

    ہمارے علما اور عرفا کہتے ہيں کہ ہر امام ہر نبی و رسول سے افضل نہيں ہے ۔البتہ اگر حضرت ابراہيم(ع) جيسی کسی ايک شخصيّت کے پاس مقام نبوت و امامت ہو تو ان کی شخصيّت ميں کون سی حيثيت زيادہ باشرف ،کامل تر اور افضل ہے؟ اس کی مثال يہ ہے کہ ايک شخص کے پاس فقہ اور عقائد دونوں کا علم ہو يعنی فقہ اصغر اور فقہ اکبر کا ،تو کہا جائے گا کہ اس شخص ميں توحيد کے علم کی حيثيت؛طہارت ،نماز اور روزے کے علم کی حيثيت سے زيادہ شرف و مقام کی حامل ہے ۔ پس اصل چیز کسی ایک شخص میں حیثیت کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے۔

    چوتھی اصل جسے بعض اوقات نظر انداز کر ديا جاتا ہے اور جس کے باعث سوالات اٹھنے لگتے ہيں یہ ہے کہ اگر آئمہ ميں سے کوئی امام،پيغمبروں ميں سے کسی پيغمبر کا جانشين بن جائے تو ممکن نہيں ہے کہ وہ کسی بھی عنوان سے اس پيغمبر سے افضل ہو سکے کيونکہ وہ اس کا وارث، جانشين اور پيروکار ہے ، کيسے ممکن ہے کہ پيروکار اپنے پيشوا سے افضل ہو جائے؟ میں یہ بات کیوں کر رہا ہوں ؟ کيونکہ ہمارےاوپر اہل سنّت کا ايک اعتراض يہ ہے کہ وہ کہتے ہيں: چونکہ آپ کا عقيدہ ہے کہ مقام امامت، مقام نبوّت سے برتر ہے لہذا آپ کے امام،رسول اللہ(ص) سے افضل ہيں! اس کے باوجود کہ ہم يہ نہيں کہتے، البتہ بعض جاہل افراد منبروں پر بيٹھ کر يہی کہتے ہيں اور وہ سمجھ بوجھ نہيں رکھتے، ليکن ہمارے علما کيا کہتے ہيں؟ کہتے ہيں: اگر امام پيغمبر کا پيروکار، جانشنين اور وارث بن جائے جيسا کہ ہم عقيدہ رکھتے ہيں کہ آئمہ (ع)حضرت خاتم(ص) کے وارث ہيں تو محال ہے کہ وارث اور پيروکار،اپنے موروث اور پيشوا سے افضل ہو ۔

    اگر يہ چار اصول واضح ہو گئے تو اب ہمارا عقيدہ يہ ہے :

    ہمارے آئمہ نے امامت کا مرتبہ،رسول اللہ (ص)سے وراثت ميں پايا ہے ،کيونکہ آپ (ص) کے پاس نبوّت ، رسالت ، خاتميّت اور امامت جيسے متعدد مراتب تھے اور آپ(ص) کی امامت کا رتبہ،ان مراتب سے برتر تھا يعنی امامت ميں آپ (ص)کا مقام تمام گزشتہ پيغمبروں کے مقام سے افضل تھا ۔اب آئمہ (ع) کو کون سی چيز وراثت ميں ملی؟ نبوّت ؟ نہيں ! رسالت ؟ نہيں! خاتميّت؟ نہيں! بلکہ انہيں وراثت ميں "امامت” ملی ہے اور چونکہ آپ (ص) کی امامت برتر اور افضل تھی اسليے آئمہ (ع)بھی افضل ہو گئے کيونکہ ايسے امام(ص) کے وارث تھے جو خود دوسروں سے افضل تھے ۔ (پس آئمہ (ع) کی افضلیت ) کی دليل يہ ہے، نہ يہ کہ امام (ع) ہونے کی وجہ سے (افضل ہوئے)۔بلکہ اس کی وجہ يہ ہے کہ کيونکہ وہ افضل ہستی کے وارث ہوئے، تو در نتيجہ دوسروں سے افضل ہوں گے ۔

    اگر يہ مطلب ديکھنا چاہتے ہيں تو محمد بن حمزہ فناری کی کتاب "مصباح الانس” کا مطالعہ کريں ،اس کتاب ميں ميرزا ہاشم اشکوری، حضرت امام خمينی، سيد محمد قمی، محمد رضا قمشہ ای،ہمارے استاد محترم علامہ حسن زادہ آملی اور ديگر بزرگوں کے اہم حواشی موجود ہيں ۔ مؤلف اپنی کتاب کے صحفہ نمبر 25 ميں کہتے ہيں :”اس بيان کے افق سے،محمد(ص) کے جانشينوں کی گزشتہ اولو العزم يا غير اولی العزم انبيا پر کئی درجے فضيلت کے راز کی ايک جھلک سامنے آئی ہے” کيوں؟ کيونکہ مورّث،يعنی حضرت خاتم الانبيا(ص)ان سے کئی درجے بالاتر ہيں ،اور آئمہ(ع) نے يہ مقام وراثت ميں پايا ہے اور اس حوالے سے متواتر روايات بھی موجود ہیں کہ انہوں نے، اپنے جد(ص) کاعلم وراثت ميں پايا ہے

    (اب اگر پوچھيں کہ) اے سید ! آپ کا عقيدہ کيا ہے؟ "تو يہ ہے ميرا عقيدہ”!

    ميرے خيال ميں واضح ہو گيا ہے کہ آئمہ اہل بيت(ع) کے بارے ميں ميرا عقيدہ کيا ہے؟ ميں عقيدہ رکھتا ہوں کہ وہ امام ہيں،ان کی امامت،صرف سياسی نہيں ہے جو ايک دوسری بحث ہے ۔ميں نے کئی مرتبہ اس جملہ کا تکرار کيا ہے کہ ميں علی(ع) اور ان کے اہل بيت(ع) کے بارے ميں جس امامت کا عقيدہ رکھتا ہوں، وہ نہ غدير ميں نصب ہوئی اور نہ ہی سقيفہ ميں غصب ہوئی ۔ کيونکہ امامت ايک وجودی و تکوينی(حقيقی) امر ہے جسے ايک مفروضے کے طور پر نہ جعل کيا جا سکتا ہے اور نہ ہی سلب کیا جاسکتا ہے۔ جو چيز غدير ميں نصب و معين ہوئی، وہ سياسی اور اعتباری امامت تھی جس کاواقع ہونا يا واقع نہ ہونا ممکن ہے ۔ اور جسے سقيفہ ميں سلب وغصب کيا گيا،وہ سياسی امامت تھی نہ وہ وجودی امامت جو حضرت خاتم الانبيا و المرسلين (ص) کی ميراث ہے ۔ آپ امام حسين(ع) کی زيارت ميں کيا پڑھتے ہيں؟ "سلام ہو آپ پر اے آدم،صفی اللہ کے وارث "،”سلام ہو آپ پر اے نوح،نبی اللہ کے وارث” يہاں تک کہ اس جملے تک پہنچتے ہيں:”سلام ہو آپ پر اے محمد(ص)، حبيب خدا کے وارث”،”سلام ہو آپ پر اے اميرِ مومنين، ولی خدا کے وارث” پس يہ کون سی وراثت ہے؟ کیاسياسی وراثت ہے؟ نہيں!

    يہ وہ مقامات ہيں جو ان تمام انبيا کو حاصل تھے اور انہيں وراثت ميں عطا ہوئے تھے اسی ليے ميرا يہ عقيدہ ہے کہ بارہ امام ہی، حضرت خاتم الانبيا و المرسلين(ص) کے وارث، ہدايت يافتہ، رہنما اور راشدين ہيں نہ کہ خلفائے ثلاثہ (جنہيں راشدين کہا جاتا ہے)بعض لوگ جب "راشدين” کا لفظ سنتے ہيں تو ان کا ذہن کہاں جاتا ہے؟اور يہ مکمل منصوبہ بندی کے تحت تھا کہ خليفہ اوّل،دوّم اور سوّم کو راشدين کہا جائے تاکہ پيغمبرِ اکرم(ص) سے منقول "خلفائے راشدين” کي متواتر روايات کو ان پر منطبق کيا جا سکے اور مسلمان بھی اس مغالطے کا شکار ہو گئے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ (ص) کا فرمان ہے کہ ميرے بعد کے خلفا؛ ہادی ، مہدی اور راشدين ہيں اور يہ ہيں خلفا!یہاں اشکال؛ صغری ، تطبيق اور مصداق ميں ہے ۔

    ميرا عقيدہ ہے کہ يہ بارہ ہستياں تمام پيغمبروں اور رسولوں سے افضل ہيں، سوائے حضرت خاتم(ص) کے کيونکہ وہ آپ(ص) کے وارث اور پيروکار ہيں اسی وجہ سے وہ خود حاشيہ ميں لکھتے ہيں :شک نہ کرو کہ پيغمبر اور رسول (ع) کی ولی پر فوقيت بطور مطلق اور عمومی نہيں ہے ، يعنی ايسا نہيں ہے کہ ہر نبی ہر ولی پر مقدّم ہو بلکہ (پیغمبر یا رسول)ايسے ولی پر (فوقيت رکھتا ہے) جو خود اس کے اوصيا، جانشينوں اور پيروکاروں ميں سے ہو، نہ کہ اس کو ديگر رسولوں کے ولی پر بھی فوقیت حاصل ہے ۔ جی ہاں اپنے پيروکاروں سے برتر ہے ليکن يہ شرط نہيں ہے کہ ديگر پيغمبروں کے وارثوں سے بھی افضل ہو يعنی حضرت ابراہيم(ع) اپنے پيروکاروں سے افضل ہيں ليکن حضرت خاتم الانبيا و المرسلين (ص) کے وارثوں جو يقينا ہمارے آئمہ(ع) ہی ہيں؛ سے افضل نہيں ہيں

    اسی وجہ سے ميں کہتا ہوں کہ اگر ايک فرد ميں (نبوّت و امامت) جمع ہوجائيں تو (امامت کی نسبت) دوسرے پہلوؤں کا رتبہ کم ہو گا ، کيونکہ ايک شخص ميں جمع ہونے کی صورت ميں ولايت کا مقام نبوّت اور رسالت سے زيادہ باشرف، افضل اور کامل تر ہے ۔

    يہ آئمہ اہل بيت(ع) کے بارے ميں ميرے عقيدہ کا خلاصہ تھا!

    • تاریخ : 2015/04/26
    • صارفین کی تعداد : 1843

  • خصوصی ویڈیوز