مذہبِ اہل بیت(ع) کا مقابلہ کرنے کیلئے وہابیوں اور سلفیوں کی روز افزوں کوششیں اور ان کی جانب سے جدید اور غالبا غیر اخلاقی وسائل و آلات کا استعمال؛ عالم تشیع کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے ۔ سیٹلائٹ چینلوں کی بدولت شیعہ عقائد پر ان کے حملوں میں تیزی آچکی ہے اور یہ چینل اب فارسی میں بھی کام کر رہے ہیں۔ اگر اس میدان میں شیعہ حضرات کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سرشار معارف سے بہرہ مند ہونے کے باوجود متعدد وجوہات کی بنا پر، سنجیدہ اور بنیادی نوعیت کے اقدامات عمل میں نہیں لائے گئے۔
اکثر شیعہ شخصیّات یا تنظیمیں کہ جنہوں نے اپنے سیٹلائٹ چینل کھول رکھے ہیں؛ وہ افراط و تفریط اور بوسیدگی کا شکار ہو چکے ہیں اور بعض اوقات ان کے نادرست اور ناقابل قبول بیانات اور پروگرام؛ اہل بیت(ع) کے دشمنوں اور تکفیریوں کو مغربی و عربی ممالک کی امداد کے ساتھ شیعوں کو نقصان پہنچانے کا موقع فراہم کرتے ہیں کہ جس کا ایک نمونہ لندن میں مقیم ایک ناپسندیدہ شیعہ عالم کے شر انگیز بیانات کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔
حالیہ کچھ عرصے کے دوران شیعہ شخصیات میں سے کچھ ایسے چہرے سامنے آئے ہیں جنہوں نے درست اور معتدل روش کے ساتھ مکتب اہل بیت (ع) کے مخالفین کے ساتھ احسن طریقے سے بحث و جدال کیا ہے۔ ان شخصیات میں سے نمایاں ترین شخصیت حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید کمال حیدری(مدظلہ) کی ہے ۔ اس شیعہ عالم کے علمی مباحثے اور مناظرے جو اکثر و بیشتر "الکوثر سیٹلائٹ چینل” سے نشر ہوتے رہے ہیں؛ اس قدر مؤثّر ثابت ہوئے کہ تکفیری عناصر نے انہیں قتل کی دھمکی دے ڈالی۔
آپ ۱۹۵۶م میں عراق کے شہر کربلائے معلی میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے کربلا اور نجف کے حوزاتِ علمیّہ میں اعلٰی درجے کی دینی تعلیم حاصل کی۔ آج سے تقریبا ۳۰ برس قبل قم مقدّسہ میں سکونت اختیار کرنے کے بعد سے اب تک درس و تدریس اور شیعہ معارف کی ترویج میں مشغول ہیں۔ اسی طرح اب تک آپ کی متعدّد مثالی کتابیں بھی زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل لندن میں مقیم ایک شیعہ عالم کی شر انگیز تقریروں کے بعد کی صورتحال اور تشیّع پر سنگین الزام تراشی کے پیش نظر ہمیں یہ فرصت مناسب معلوم ہوئی کہ حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید کمال حیدری (مدظلہ) کے ساتھ گفتگو کے دوران، تعلیمات اہل بیت(ع) کی تبلیغ اور اہل سنت کے ساتھ بحثوں کے حوالے سے ان کے نقطہ نظر اور تحلیل کو شیعہ اخبار کے قارئین کے سامنے پیش کیا جائے ۔
نمائندہ شیعہ اخبار : براہ کرم اس تبلیغی میدان میں اپنی شرکت کے طریقہ کار کی کچھ تفصیل بیان فرمائیں
آیت اللہ حیدری : مجھے یاد ہے کہ ۳۰ سال پہلے جب میں حوزہ علمیّہ میں تدریس کے دوران اپنے درسوں کو ریکارڈ کیا کرتا تھا تو اس وقت صف اوّل کے بعض اساتذہ نے مجھ پر اعتراض کیا کہ آغا درسوں کو ریکارڈ کرنا آپ کے شایان شان نہیں ہے۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ ایک دن آپ کو اس ریکارڈنگ کے اثرات کا پتہ چل جائے گا۔ اب وہی دوست مجھ سے کہتے ہیں کہ آپ بیس تیس سال پہلے اس چیز کی طرف متوجّہ تھے؟ بہت سے ایسی مباحث ہیں جنہیں دوبارہ سے پیش کرنے کا نہ ہمارے پاس حوصلہ ہے اور نہ ہی وقت۔ فرض کریں کہ آیت اللہ جوادی آملی (حفظہ اللہ) نے کتاب "بدایۃ الحکمۃ” کی ایک مرتبہ تدریس کی لیکن اس وقت وہ مقام مرجعیت پر فائز ہو چکے ہیں اور "فصوص” اور "اسفار” کا درس دے رہے ہیں لہٰذا اب ان کے پاس علامہ طباطبائی کی کتاب بدایۃ الحکمۃ کی دوبارہ تدریس اور اس کی شرح کے لیے وقت نہیں ہے۔ البتہ وہ پہلے بدایہ کی تدریس کر چکے ہیں۔ اگر ان کے دروس پر مشتمل بدایۃ الحکمہ کی شرح طلبہ کی دسترس میں ہوتی تو کس قدر اہمیت کی حامل ہوتی؟ یا فرض کریں اگر اس وقت ہمارے پاس شیخ انصاری کے درس اصول کے ایک مکمل دورے کی آڈیو ریکارڈنگ ہوتی تو کس قدر مفید ہوتی۔ لہٰذا شروع سے ہی میں اس بات کی جانب متوجہ تھا کہ تعلیم اور تعلّم کے میدان میں جدید ترین ٹیکنالوجی اور سہولیات سے استفادہ کیا جانا چاہیے ۔ جن دنوں دفتر تبلیغات کے آڈیو شعبے کا افتتاح ہوا تو متعدد شخصیات نے اعتراض کیا تھا کہ آڈیو کیسٹوں کے ذریعہ درس و تدریس ممکن نہیں ہے لیکن آج ملاحظہ فرمائیں کہ پورے ایران میں ہزاروں طلبہ انہی سی ڈیز اور کیسٹوں سے استفادہ کر رہے ہیں یہاں تک کہ آج اسی بنیاد پر ورچوئل یونیورسٹیاں بھی قائم کی جا رہی ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ گلوبلائزیشن اور مواصلات کے میدان میں آنے والے اس انقلاب کے بعد ان وسائل سے بہترین استفادہ کیا جانا چاہیے اور جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے مکتب جیسی تعلیمات، کسی کے پاس نہیں ہیں اور اگر دنیا ان کی طرف متوجہ ہو جائے تو حقیقی معنوں میں اہل بیت(ع) کے خط اور راہ پر چل پڑے گی؛ اس وقت جدید وسائل سے استفادہ خصوصیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے روایت بھی موجود ہے۔ امام رضا (ع) فرماتے ہیں : "تم لوگوں کے سامنے تعلیمات کو بیان کرو، مطمئن رہو کہ لوگ ہماری طرف آئیں گے؛ تمہیں دوسرے راستے اپنانے کی ضرورت نہیں ہے” ۔
میں اسی سوچ کی بنا پر گزشتہ۲۰ سال سے اسلامی جمہوریہ ایران کے سرکاری ریڈیو کے شعبہ عربی میں ہر پیر اور جمعرات کے دن تفسیری اور عقائدی پروگرام منعقد کرتا ہوں۔ دنیا کے اکثر مسلمان مجھ ناچیز کو جانتے ہیں اور یہ ٹی وی اور الکوثر چینل پر آنے سے بہت پہلے کی بات ہے ۔ ٹی وی پروگراموں کے حوالے سے بھی میرے اکثر پروگرام کچھ چیزوں کے پیش نظر الکوثر سیٹلائٹ چینل سے نشر ہوتے رہے ہیں اور تقریبا ۸ سال سے میں اس چینل کے ساتھ تعاون کر رہا ہوں ، یہ چینل اسلامی جہوریہ ایران کا ہے اور ہمارے درمیان اچھے تعلقات ہیں۔ یہ تشیّع کا اصل مرکز ہے اور ہم یہاں سے اپنی بات کہہ سکتے ہیں ۔
سوال : آپ پہلے معمول کے مطابق حوزوی کتابوں کی تدریس میں مشغول تھے؛ کن وجوہات کی بنا پر آپ نے شیعہ تعلیمات کی تبلیغ اور ترویج کے میدان میں اس انداز سے قدم رکھا؟
آیت اللہ علامہ سید کمال حیدری :
آپ ایک درس یا منبر کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ۵۰۰ یا ۷۰۰ افراد کے ساتھ رابطہ قائم کرتے ہیں لیکن آج کے دور میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے آپ ایک پروگرام کے دوران دنیا کے دسیوں ممالک کے کروڑوں افراد کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں۔ اس فرصت کو ضائع نہیں کرنا چاہئیے۔ پروگرام کے ڈائریکٹرز کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق اس وقت تقریبا سو ممالک میں اس پروگرام کو دیکھا جاتا ہے۔ اگر آپ ایک ایسا پروگرام منعقد کرنا چاہیں جس میں ہر ملک سے صرف ۵ افراد شرکت کریں تو اس کام کے لیے آپ کو لاکھوں روپے خرچ کرنا پڑیں گے لیکن جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے یہ کام تقریبا مفت ہوجاتا ہے کہ آپ کیمرے کے سامنے بیٹھ کر ان تک اپنی بات پہنچا دیتے ہیں ۔
ان اسباب کے پیش نظر میں تعجب کرتا ہوں کہ کیوں ہمارے علما اور زعما اس چیز کی اہمیت کا احساس نہیں کر رہے؟ اور اس آلے سے درست استفادہ نہیں کر رہے ؟ مثال کے طور پر ایران اور نجف میں مقیم مراجع عظام منظم انداز سے مثلا ہفتے میں ایک دن آدھا گھنٹہ؛ لوگوں کے ساتھ گفتگو کریں۔ اس کام کے علمی پہلؤوں اور فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے نفسیاتی نتیجے کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس دوران ناظرین یہ احساس کرتے ہیں کہ وہ براہ راست اور بغیر کسی واسطہ کے اپنے مرجع تقلید اور نائب امام (ع) کے ساتھ ہم کلام ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے علما کو لوگوں کے ساتھ براہ راست رابطہ برقرار کرنا چاہیے ۔ جب مخاطب یہ احساس کرتا ہے کہ جس وقت وہ فون ملائے گا تو اس کا مرجع تقلید فون اٹھا کر اس سے بات کرے گا تو اس کا ایک اہم نفسیاتی اثر مرتب ہو گا خواہ مراجع کرام ہفتہ میں صرف ایک گھنٹہ یہ عمل انجام دیں ۔
ملاحظہ فرمائیں جب رہبرمعظم انقلاب مختلف شہروں کا دورہ کرتے ہیں تو لوگوں پر اسکا کس قدر روحانی اور نفسیاتی مثبت اثر پڑتا ہے اگرچہ کہ کوئی خاص کام انجام نہ پائے اور آپ لوگوں کے لیے صرف بیانات ہی دے دیں ۔ رہبر معظم اس بات کو ٹی وی کے ذریعے بھی بیان فرما سکتے ہیں لیکن براہ راست رابطہ اپنے اندر دیگر کئی مثبت اثرات رکھتا ہے۔ اسی طرح ہندوستان، پاکستان، آذربائیجان اور شام جیسے ممالک جہاں کروڑوں شیعہ مسلمان زندگی بسر کرتے ہیں، اگر مراجع کِرام کبھی کبھار ان ممالک کا دورہ کریں تو نزدیک سے وہاں کے شیعوں کے حالات سے باخبر ہو سکتے ہیں ۔ جب دیگر تمام ادیان کے علما جیسے مسیحیوں کا روحانی پیشوا پاپ ۸۰ سال سے زائد کی عمر میں مسیحیوں سے ملاقات کے لیے دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کرتا ہے اور مسیحی اسکو ایک بلٹ پروف کیبن کے پیچھے سے صرف ہاتھ ہلاتے ہوئے دیکھتے ہیں یہاں تک کہ وہ گفتگو بھی نہیں کرتا پھر بھی یہ چیز اس کے پیروکاروں پر مثبت اثر مرتب کرتی ہے ۔ تو پھر ہماری بزرگ مذہبی شخصیات شیعوں کے ساتھ ملاقات کے لیے دنیا کے مختلف حصوں کا دورہ کیوں نہیں کرتیں؟درحالنکہ یقینا یہ کام شیعوں کو بہت زیادہ مثبت توانائی اور جذبہ دے گا ۔ اگرچہ کہ بعض مراجع نے اس میدان میں قدم اٹھایا ہے بطور مثال کچھ براہ راست پروگراموں کے دوران جب آیت اللہ مکارم شیرازی کا کوئی مقلّد ان سے فقہی سوال پوچھتا ہے اور وہ خود اس کا جواب دیتے ہیں نہ کہ ان کا دفتر، تو یہ چیز حتما اپنے اندر مثبت اثر رکھتی ہے ۔ لہذا میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ رابطہ جس قدر براہ ر ست ہوگا اتنے ہی بہتر نتائج حاصل ہوںگے ۔ ہم پر ہونے والے ثقافتی حملوں کا جواب صرف ایک پمفلٹ یا کتاب سے ممکن نہیں ہے اس لیے جس قدر ممکن ہو سکے ہمیں لوگوں کے ساتھ قریبی روحانی اور نفسیاتی رابطہ برقرار کرنا چاہیے ۔ البتہ اس قسم کے رابطے کا قیام نہایت مشکل کام ہے اسکی ایک دلیل یہ ہے کہ مثلا فرض کریں اگر ہمارے علما کو سٹلائٹ چینل کے ذریعے دیگر ممالک کے عوام اور شیعوں بالخصوص عرب مخاطبین کے ساتھ براہ راست گفتگو کرنی پڑ جائے تو افسوس کے ساتھ ان میں سے اکثر حضرات عربی زبان پر تسلّط نہیں رکھتے ۔
اس بنا پر حوزہائے علمیہ کے اندر درست انداز سے مقدمہ چینی کی جانی چاہیے ۔ اگر آپ نے ملاحظہ کیا ہو کہ مکہ اور مدینہ میں وہ افراد جو جنت البقیع کے اردگر پہرا دیتے ہیں اور مسلسل شیعوں کو مشرک کہہ کر پکارتے ہیں اکثر افغان باشندے ہیں اگر آپ ان کے ساتھ عربی میں بات کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انکی عربی سعودیوں سے بھی بہتر ہے اور ان کو اس طرح عربی پر عبور حاصل ہے کہ آپ پہچان نہیں سکتے کہ ان کا تعلق کس ملک سے ہے ۔
اب اگر ہم اپنے مدارس کی طرف توجہ کریں،تو وہ طلبا جو تیس چالیس سال سے حصولِ علم میں مصروف ہیں ان میں سے اکثر عربی کے چند جملوں سے زیادہ کچھ نہیں بول سکتے ۔ ہم اس بات کے دعویدار ہیں کہ حوزہ علمیہ قم کا تعلق تمام جہانِ تشیع کے ساتھ ہے اور اس وقت دنیا بھر میں کم ازکم ۲۰۰ ملین شیعہ زندگی بسر کر رہے ہیں کہ جن میں سے تقریبا ۱۰۰ ملین شیعہ عرب زبان ہیں جن کے ساتھ رابطے کے لیے مناسب اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ہم میڈیا کے ذریعے کروڑوں شیعوں کے ساتھ مفت رابطہ برقرار کرسکتے ہیں ۔ فرض کریں اگر دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ ان پروگراموں کے ذریعے مراجع عظام کے نورانی چہروں کی زیارت کریں گے تو حتما ایک بہت بڑا مثبت اثر مرتب ہوگا جس سے غافل نہیں ہونا چاہیے اور اس موضوع پر بنیادی غوروفکر کرنا چاہیے ۔ اگر ہم اپنے دعووں کو نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں اور اس بات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں کہ ہم ہی اہل قرآن و عترت ہیں تو اس کے لیے ہمیں مطلوبہ امکانات مہیا کرنے ہوں گے،وہابی فرقے کی عمر صرف ۷۰ سال ہے لیکن اس وقت وہ تمام شیعہ و سنی مذاہب کے ساتھ بر سرپیکار ہے،بعض یہ توجیہ پیش کرتے ہیں کہ ان کے پاس پیسہ ہے اور ہمارے پاس اس قدر مالی امکانات نہیں ہیں،کیا دین کے بارے میں ان لوگوں کا ہم و غم ہمارے مراجع کرام سے زیادہ ہے؟ نہیں ! یقینا ایسا نہیں ہے وہ تو صرف اس میدان میں جدیدترین ٹیکنالوجی اور وسائل سے بہتر اور بیشتر استفادہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں درحالنکہ ہم اس میدان میں پیچھے رہ گئے ۔
شاید میرے اس میدان میں آنے کی ایک وجہ یہی موضوع ہے؛اگرچہ کہ اس کام میں میرا بہت زیادہ وقت صرف ہوتا ہے،بعض دوست مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ پروگرام آپ کے شیان شان نہیں ہیں لیکن میں ان سے عرض کرتا ہوں کہ اس کا اندازہ بھی آپ کودس بیس سال بعد ہوگا کیونکہ امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں : ” اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دو اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو دوسرے تم پر سبقت لے جائیں گے اور ان کو کچھ اور سکھائیں گے "۔ اب اگر علما اور مراجع اس فضا کو پر نہیں کرتے تو یقینا دوسرے افراد دیگر عناوین کے ساتھ سامنے آئیں گے اور اس وقت ہم صرف ہاتھ ملتے رہ جائیں گے جیسا کہ آج ہم اس مشکل سے دوچار ہیں اور آپ خود بھی اس بات سے بخوبی واقف ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔