مقالات و آراء

  • عقیدہ مہدویت کے بارے میں علمائے مسلمین کا موقف

  • اس حوالے سے تين نظریات موجود ہيں ، اجمالا اور بطور فتوی عرض کرتا ہوں چونکہ ميں سمجھتا ہوں کہ يہ چيز کتابِ طہارت ، قاعدہِ اشتراک اور کتابِ روزہ سے زيادہ اہم ہے ۔ يہ ہمارا دين ہے ! ميں نے بارہا کہا ہے کہ مکتبِ اہل بيت(ع) کی رو سے امامت کا موضوع اس مکتب کی اساسی فصل ہے جس طرح انسان جنس اور فصل سے مرکب ہے اور جنس مشترک ہے جبکہ فصل اس سے مختص ہے ، امامت بھی مکتب اہل بيت (ع) کا جزوِ خاص ہے۔ مکتب اہل بيت (ع) ميں، آئمہ (ع) کی نسبت جو عقيدہ ہمارا ہے؛ وہ اسلامی مذاہب ميں سے کسی کا بھی نہيں ہے ۔
    پہلا نظریہ ، وہی ہے کہ جس کا ہم "مہدويت” کے باب ميں عقيدہ رکھتے ہيں ۔ يہ کہ امام(ع) بارہ ہيں اور ان ميں سے بارہويں ،امام حسن عسکری(ع) کے فرزند ہيں اور آپ (ع)متولّد ہو چکے ہيں ، زندہ اور موجود ہيں اور خداوند متعال زمين اور جو کچھ اس ميں ہے؛ سب کچھ ان کے سپرد کرے گا خواہ ان کی غيبت پچاس ہزار سال طولانی ہی کيوں نہ ہو جائے ؛ يہ مکتب اہل بيت(ع) کا کلی عقيدہ ہے ۔اسی طرح ظہور کے بعد ان کے کام اور طرزِ حکومت،سب کچھ مکتبِ اہل بيت(ع) ميں بيان کر ديا گيا ہے يہ عقيدہ مہدويت کے بارے ميں پہلا نقطہ نظر،فہم اور تصور ہے ۔
    دوسرا نقطہ نظر اور تصور، وہی ہے جسے مکتبِ اہل سنت اور اس کے علما نے پيش کيا ہے ۔اول تو يہ لوگ نہيں مانتے کہ آپ(عج) امام حسن عسکری(ع) کے فرزند ہيں ، ثانيا وہ ابھی تک آپ(ع) کی ولادت کو بھی قبول نہيں کرتے اور کہتے ہيں کہ آپ (ع) ابھی تک پيدا نہيں ہوئے ،ثالثا وہ آپ(ع) کو معصوم نہيں مانتے۔ اس بنا پر وہ صرف اس مورد ميں مذہبِ اہل بيت(ع) کے ساتھ متّفق ہيں کہ آخری زمانے ميں حضرت مہدی (عج)تشريف لائيں گے جو حضرت فاطمہ (ع) کی اولاد سے ہيں۔ يہ کہ آيا معصوم ہيں يا نہيں؟ کہتے ہيں : نہيں ،يہ کہ آيا پيدا ہو چکے ہيں يا نہيں ؟ کہتے ہيں: نہيں ،يہ کہ آيا امام حسن عسکری(ع) کے فرزند ہيں يا نہيں ؟ کہتے ہيں : نہيں ۔ لہذا وہ قائل ہيں کہ آپ(عج) کا سلسلہ نسب امام حسن (ع) سے جا کر ملتا ہے نہ کہ امام حسين (ع) سے ، جبکہ ہمارا عقيدہ ہے کہ باپ کی طرف سے آپ (ع) کاسلسلہ نسب امام حسين (ع) سے جا ملتا ہے کيونکہ امامت آپ (ع) کی اولاد ميں ہے ۔ يہ دوسرا نقطہ نظر ہے جسے اکثر اہل سنّت علما نے اختيار کيا ہے ۔
    حال ہی ميں ايک تيسرا نظريہ سامنے آيا ہے ،يہ تيسرا نظريہ يونيورسٹيوں سے منسلک کچھ افراد ميں ظاہر ہوا ہے نہ کہ ان کے روايتی علما ، طلاب اور حوزاتِ علميہ ميں بلکہ يونيورسٹيوں کے کچھ محققين اور طلبہ جو نہ تفکرِ مہدويت کے پہلے تصور کو قبول کرتے ہيں اور نہ ہی دوسرے کو ، کہتے ہيں کہ نہ وہ صحيح ہے جو شيعہ علما کہتے ہيں اور نہ ہی وہ سب صحيح ہے جو سنّی علما کہتے ہيں ۔ پھر کیا درست ہے ؟ ميں ایک کتاب تجويز کر رہا ہوں؛اس کا مطالعہ کيجئے: "المہدي المنتظر في روايات أہل السنۃ والشيعۃ الإماميۃ دراسۃ حديثيۃ نقديۃ "، اور ظاہرا کتاب کا مصنّف شيعوں سے زيادہ اہل سنّت کی روائی ميراث سے اور اہل سنّت سے زيادہ شيعوں کی ميراث سے آگاہ ہے کيونکہ اس نے وہ تمام منابع ذکر کيے ہيں جن ميں اس تفکر کے بارے میں بحث کی گئی ہے اسی طرح مصنفين وغيرہ۔۔۔ کو ۔ اس نے کتاب کے شروع ميں امام مہدی(عج) سے متعلق شيعوں اور سنيوں کے علمی آثار کی فہرست ذکر کی ہے ۔ پس اس موضوع پر بہت اہم کتاب ہے کيونکہ امام (عج) کے بارے ميں جو کچھ لکھا جا چکا ہے یہ کتاب اس پر روشنی ڈال رہی ہے ، مزيد برآں، ديگر کتب ميں جہاں کہيں مہدويت کے بارے ميں کوئی بات لکھی گئی ہے مثلا تاريخی کتابوں يا زندگی ناموں ميں؛اسے بھی پيش کرتی ہے ۔اس ميں ايک ہزار سے زائد کتب کا تعارف کرايا گيا ہے ۔
    اس کتاب کے مؤلّف کا اپنا نظريہ ہے جسے وہ تيسرا نقطہ نظر کہتا ہے ، کتاب کے صحفہ نمبر ۵۳۱ پر ، البتہ ہم اس نظريے اور دوسرے نظريے سے اتفاق نہيں کرتے بلکہ ہم پہلے نظريے کے قائل ہيں ليکن يہ مطالب بھی پيش کيے جانے چاہئيں تاکہ اگر يونيورسٹی يا دينی مدرسے کا کوئی طالب علم يا پھر کوئی اہل مطالعہ شخص آکر سوال کرے کہ دوسرے اور تيسرے نظريے کو آپ کيسے نقد کريں گے تو ہميں اس کا پتہ ہو ۔ کتاب کا مولف ڈاکٹر”عداب محمود الحمش” ہے ، اور کتاب کو دار السّلام پبلشر بغداد ، کے توسط سے سال ۱۹۹۹ میں شائع کیا گیا ہے ، يعنی يہ کتاب ۱۵ سال پہلے لکھی گئی .کتاب کا نتيجہ جو تقريبا ۱۰ سطروں پر مشتمل ہے ،آپ کے سامنے پيش کرتا ہوں :
    کہتے ہيں : ہر وہ چيز جس پر اعتقاد ممکن ہے ، نہ يہ کہ واجب ہو ؛ وہ چيز جو "مہدی منتظر” کے موضوع سے نزديک ہے يہ ہے کہ يہ امت (خاتم الانبيا کی امت)جسے خداوند متعال نے اسلامِ کے جاویدانہ پيغام کا بار اٹھانے کے ليے منتخب کيا ہے ، اپنے دين سے بہت دور ہو چکی ہے ۔ خاتم الانبيا و المرسلين کے دين سے منحرف ہو چکی ہے اور يہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔ جاہلانہ اور فريبانہ پاليسيوں اور سياسی ، فکری اور مذہبی تنازعات کی وجہ سے جس راہ کو خدا اور پيغمبر نے متعين کيا تھا، اس سے دور ہوگئی ہے ۔ ليکن دوبارہ لوٹ آئے گی يعنی يہ امت ، گردشِ ايام کے موجب اپنے ارتقا اور جو کچھ خدا و رسول(ص) نے اس سے چاہا ہے؛ کی طرف لوٹ آئے گی دوبارہ اپنے دين کی طرف پلٹ جائے گی، ايک اچھے انداز سےاور شريعت خدا کی پابندی کرے گی ، يعنی تاريخ اسی نہج پر برقرار نہيں رہے گی بلکہ اس کا رخ تبديل ہوگا ۔ يہ دين کی پابندی، تکامل کا راستہ طے کر رہی ہے جس کے بعد ايک عظيم رہنما ظاہر ہوں گے ۔ جس وقت يہ امت اس رخ پر چلے گی تو ان کے اندر سے ايک رہبر ظہور کرے گا ؛ وہی جنہيں روايات نے مہدی منتظر سے تعيبر کيا ہے ۔وہ نہ حضرت فاطمہ(ع) کی اولاد سے ہيں، نہ بارہويں امام ہيں اور نہ ہی معصوم ، پس يہ تفکِّر مہدويت کے باب ميں نہ شيعہ سوچ سے متّفق ہے اور نہ ہی سنی سوچ سے ۔ خدا کی توفيق اور مدد کے ساتھ خاندان پيغمبر (ص) سے ايک عظيم رہبر ظہور کرے گا ليکن يہ کہ اولاد فاطمہ(ع)سے ہيں يا يہ کہ حسنی ہوں يا حسينی ۔
    اب وہ لوگ جا کر يہ حصّہ جدا کر ديں اور کہيں کہ سيد کمال حيدری منکر ہو گيا ہے تو ميں کيا کر سکتا ہوں؟ فقط يہی کہہ سکتا ہوں : ” ان کے دلوں ميں بيماری ہے پس اللہ نے ان کی بيماری کو اور بڑھا ديا ہے”۔ يا ساری بحث سنيں يا ميرے حوالے سے کوئی چيز نقل نہ کريں ۔اہل بيت (ع) کا يہ مرد، دين کو اس کی روح اور مسلمانوں کو ان کی کرامت لوٹا دے گا ۔
    پس خداوند متعال ان سے اور اس امّتِ مرحومہ سے راضی ہو جائے گا اور انہيں زمين و آسمان کی برکتوں سے سرشار کر دے گا ، يہی روايات جو اس زمانے کی خير و برکت کا ذکر کر رہی ہيں؛ وہ کہتے ہيں کہ يہ اللہ کے نظام کا تقاضا ہے کہ جب امت لوٹ آتی ہے تو خداوند متعال ان کيلئے آسمان و زمين سے اپنی برکتيں جاری فرما ديتا ہے اور يہ امر کسی خاص زمانے ميں محدود نہيں ہے يعنی ظہور کا زمانہ اور ظہور کی علامات وغيرہ ، يہ اللہ کے نظام سے مربوط ہے، اگر (امت) اس مقام تک پہنچ جائے تو اس کا رہبر بھی آمادہ ہو جاتا ہے ۔ بلکہ یہ امر زمان و مکان کی قيد سے خالی ہے اور اس کا تعلق صرف صحيح اسلامی طور طريقے سے ہے اس کے علاوہ کچھ نہيں ہے ۔
    پس مہدويت کے بارے ميں کتنے تصور ہيں؟ تين تصور کہ جن ميں سے آپ (درست کا) انتخاب کر سکتے ہيں ۔

    • تاریخ : 2015/10/31
    • صارفین کی تعداد : 1233

  • خصوصی ویڈیوز