کيا یہ قرآن جو اس وقت ہمارے پاس موجود ہے، اس میں کسی چيز کا اضافہ ہوا ہے؟ جواب : نہيں ہرگز نہيں ، اسی طرح کيا اس ميں سے کوئی چيز کم ہوئی ہے؟ جواب: نہيں ہرگز نہيں ،اس بنا پر ہم قرآن کريم ميں ہر قسم کی تحريف کو رد کرتے ہيں خواہ اضافے کے لحاظ سے ہو يا کمی کے لحاظ سے ميں نے ايک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے "صيانۃ القرآن من التحريف” ، ميری تجويز ہے کہ عزيزان اس کتاب کی طرف رجوع کريں يہ کتاب مفصّل بھی نہيں ہے ۔ ميں نے اس ميں مکتب اہل بيت(ع) کے بزرگ علما کے نظريات ، شہادتوں اور اجماع کو نقل کيا ہے ۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی يہ سوال کرے کہ کیا آپ کے نزديک شيعوں ميں سے کوئی بھی تحريف قرآن کی بات نہيں کرتا؟ ميں جواب دوں گا : جی ہاں محدّث نوری کی طرف يہ نسبت ديئے جانے کا امکان ہے کہ وہ تحريف کے قائل تھے ليکن مکتبِ اہل بيت(ع) کے بڑے علما ميں سے کسی ايک نے بھی محدّث نوری کو ايک محقّق عالم کے عنوان سے تسليم نہيں کيا ہے اسی ليے ميں ںے کہا ہے کہ مکتبِ اہل بيت (ع) کے اہل تحقيق علما کااس ميں اجماع ہے کہ سب نے قرآن کريم ميں تحريف کے احتمال کو مورد اختلاف معنی ميں رد کيا ہے ؛ موردِ اختلاف معنی کون سا ہے؟ یعنی قرآن کريم ناقص ہے اوراس کا مکمل نسخہ بارہويں امام(عج) کے ذريعے ہم تک پہنچے گا۔ لہذا ميں نے شيخ صدوق کا قول نقل کيا ہے کہ فرماتے ہيں : ہمارا عقيدہ يہ ہے کہ جو قرآن اللہ نے اپنے پيغمبر محمد (ص) پر نازل کيا ہے وہی رائج قرآن ہے جو اس وقت لوگوں کی دسترس ميں ہے اور جو کوئی ہماری طرف نسبت دے کر يہ کہے کہ يہ قرآن ناقص ہے وہ جھوٹا ہے ۔
اسی طرح شريف مرتضی ، شيخ طوسی، شيخ طبرسی شيخ جعفر کاشف الغطا ، شريف رضی اور شيخ مفيد رازی ، رواندی ، مازندرانی ، حلی ، ابن طاؤوس علامہ حلی ، مقداد السيوری ، علامہ کرکی اردبيلی ، قاضی شستری اور بہت سے ديگر شيعہ علما کے اقوال ہيں ۔ آخر ميں ہم علمائے معاصر ميں سے دو بزرگ شخصيات کی طرف اشارہ کریں گے جن ميں سے ايک، نجفی علما ميں سے ہیں ؛ ہمارے استاد آيت اللہ العظمیٰ سید خوئی ، جنہوں نے فرمايا: مجموعی طور پر شيعہ علما و محققين کے نزديک مشہور قول ، يعنی اگر آپ کو دائيں بائيں کوئی ايسا شخص نظر آئے جو تحريف کا دعویٰ کرے تو وہ محققين ميں سے نہيں ہے وہ داستان نويس ہے ۔ محدّث نوری نے (تحريف قرآن کی داستانوں) کی طرح وہ داستانيں بھی نقل کی ہيں جن ميں امام مہدی(عج)کے ديدار کی حکايت ہے ۔ آيت اللہ خوئی نے فرمايا: شيعہ علما و محققين کی مجموعی رائے اور ان کا مورد تائيد نطريہ قرآن کی عدم تحريف کا ہے ۔
اور دوسری شخصيت حوزہ علميہ قم کے بڑے علما ميں سے ہيں حضرت امام خمينی(قدس اللہ نفسہ) جنہوں نے فرمايا: جو بھی جمعِ قرآن، حفظ قرآن اور حفاظت قرآن کے حوالے سے مسلمانوں کے اہتمام سے خواہ کتابت کے لحاظ سے اور خواہ قرائت کے لحاظ سے؛ آگاہ ہے بلا ترديد اس دعوے کے بطلان سے واقف ہو گا۔ دعوے سے مراد وہی قرآن ميں کمی يا تحريف کا ہونا ہے ۔ کتابِ قرآن بعينہ وہی ہے جو ہمارے پاس ہے اور اس ميں کوئی کمی يازيادتی نہيں ہوئی ہے ۔
اس بنا پر قرآن سے ہماری مراد يہی قرآن ہے اور ہمارا کوئی دوسرا قرآن نہيں ہے ۔ کوئی يہ نہ کہے کہ يہ لوگ تقيہ کر کے اس قسم کی بات کر رہے ہيں دراصل جو ايسی بات کرتا ہے، وہ عقل سے پيدل ہے اور ہم اس سے مخاطب نہيں ہيں ۔ لہذا شيخ الرئيس ابن سينا اپنے مخاطبين سے کہتے ہيں : آپ اور جو بھی ان باتوں کو سننے کی شائستگی رکھتا ہے! کيونکہ بعض لوگ واقعا مخاطَب بننے کے اہل اور لائق نہيں ہوتے ۔ ميں ايک عاقل انسان کے عنوان سے اور اپنے مکمل ہوش و اختيار سے آپ کو کہتا ہوں کہ ميں اس چيز کا قائل نہيں ہوں اور اگر آپ مجھے قائل کرنے کی کوشش کريں پھر بھی تسليم نہيں کروں گا۔ آپ آزاد ہيں اسے تسليم کريں يا نہ کريں ميں آپ کو کچھ نہيں کہتا البتہ قرآن کريم کے بارے ميں ہمارا عقيدہ يہ ہے ۔
کوئی يہ خيال نہ کرے کہ فقط ميرا اور شيعوں کا يہ نظريہ ہے ، علمائے الازھر کا بھی يہی نقطہ نظر ہے ۔ امام محمد غزالی اپنی کتاب "دفاع عن العقيدۃ و الشريع ضد مطاعن المستشرقين” کے صفحہ نمبر ۲۱۹ ميں لکھتے ہيں : ميں نے سنا ہے کہ ان ميں سے ايک کسی علمی نشست ميں يہ کہہ رہا تھا کہ شيعوں کے پاس کوئی اور قرآن ہے جس ميں اس مشہور قرآن کے مقابلے ميں کچھ مطالب کم يا زيادہ ہيں ۔ يعنی وہی باتيں جو ہم اس وقت سيٹلائيٹ چينلوں سے سن رہے ہيں ، امام محمد غزالی جواب ديتے ہيں کس نے تمہاری يہ ڈيوٹی لگائی ہے کہ اس قسم کی افواہيں پھيلاؤ اور سادہ لوح عوام کو فريب دو تاکہ وہ اپنے بھائيوں حتی قرآن کے بارے ميں مشکوک ہو جائيں قرآن ايک ہی ہے جو قاہرہ ميں شائع ہوتا ہے اور نجف يا تہران کے شيعہ اس کو مقدس مانتے ہيں،اس کے نسخوں کو اپنے پاس اور اپنے گھروں ميں رکھتے ہيں اور ہر گز اس کتاب ،اس کو نازل کرنے والی ذات اور اس کے مبلغ(ص) کے احترام کے سوا کوئی دوسرا خيال ان کے ذہنوں ميں نہيں آتا۔ پس کلام وحی کے بارے ميں لوگوں سے کيوں جھوٹ بولتے ہو؟ وہ لوگ بھی ان جھوٹوں کی صف ميں شامل ہيں جنہوں نے يہ افواہيں پھيلائی ہيں کہ شيعہ ايسے اور ويسے ہيں۔۔۔۔الخ۔
اس بنا پر بات يہ نہيں ہے کہ صرف شيعوں کا دعوٰی ہے بلکہ اہل سنت کے بہت سے بزرگ علما بھی اس بات پر زور ديتے ہيں کہ شيعوں کے پاس اس قرآن کے علاوہ کوئی اور قرآن نہيں ہے۔