مقالات و آراء

  • "انسان کامل” کا مقامِ نبوّت و امامت سے تعلق (۱)

  • "انسان کامل” کا مسئلہ ہمارے اصول دین کی دو اصلوں کے ساتھ مربوط ہے، ان میں سے ایک نبوّت اور دوسری امامت ہے اور "انسان کامل” ان دو اصلوں کا جامع اسم ہے۔ جب ہم ان دو اصلوں کی بات کرتے ہیں، تو ان کا جامع "انسان کامل” ہے، رہی یہ بات کہ اصول دین میں یہ ایک دوسرے سے علیٰحدہ ہیں تو اس کی وجہ وہ فرائض ہیں جو پیغمبر (ع) اور امام (ع) کے سپرد ہیں ورنہ دونوں کا منشا "انسان کامل” ہے، انسان کامل کسی مقام پر ظاہر ہو کر پیغمبر (ع) کا کردار ادا کرتا ہے اور کسی مقام پر امامت کے فرائض انجام دیتا ہے، لیکن دونوں کی حقیقت ایک ہے۔

    انسان کامل یا نبوت و امامت کو سمجھنے کے حوالے سے علمائے مسلمین میں بہت اختلاف ہے۔ نبوت و امامت کا ابتدائی تصور یہی ہے کہ تمام اہل سنت کہتے ہیں کہ امامت ایک سیاسی منصب ہے، جوایک فاسق و فاجر انسان کو بھی مل سکتا ہے اور اگر وہ حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ہے تو کسی کو بھی اس کی مخالفت کا حق حاصل نہیں ہے مگر یہ کہ وہ شخص کافر ہو جائے اور وہ بھی کھلم کھلا کفر نہ کہ کفر کا شبہہ؛ لہٰذا وہ کہتے ہیں:”لا یجوز الخروج علی امام کل زمان” (کسی بھی زمانے کے امام پر خروج جائز نہیں ہے)، اور یہ بات ان کے لیے ایک اصول کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اب عرب ممالک اور دوسرے علاقوں کے علما اس اصول کی اصلاح کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ البتہ وہابیوں نے عرب ممالک کی عوامی تحریکوں کی مخالفت کا اعلان کیا ہے کیونکہ ابھی تک حاکم سے اعلانیہ کفر صادر نہیں ہوا کہ اس کے خلاف قیام جائز ہو سکے۔

    اسی طرح اگر وہ نبوت کی بھی بہت بڑھ چڑھ کر تعریف کریں تو یہی کہتے ہیں کہ ایک اچھے انسان چونکہ امین اور معصوم تھے اس لیے اللہ تعالیٰ اپنا نامہ ان کے سپرد فرماتا تھا اور وہ امانتداری کے ساتھ اسے لوگوں تک پہنچا دیتے تھے۔

    اہل سنت علما کے ساتھ ساتھ بعض شیعہ علما کے نزدیک بھی نبوت کی تعریف یہی ہے۔

    لیکن اہلِ عرفان اس سطحی تعریف کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ بنیادی طور پر یہ دونوں عنوان یعنی "نبوت” اور”امامت” ایک فریضہ اور اجرائی کام ہے، یہ اصل مقامات نہیں ہیں۔ جیسے ایک عالم کو امام جماعت، قضاوت اور قیادت کا منصب دے دیا جائے تو یہ سب "کام” اور وظائف ہیں، اس کے وجود کا حصّہ نہیں ہیں۔ لہذا اگر اسے ان ذمہ داریوں سے سبکدوش بھی کر دیا جائے تو پھر بھی اس کا علم باقی ہے۔  علم، عدالت اور انسانی کمالات؛ اس کے وجودی مقامات اور درجات ہیں، لیکن یہ چیزیں (وظائف) اس کے (روحانی) وجود کا حصہ نہیں ہیں بلکہ اعتباری ہیں؛ مرجعیت بھی اسی طرح ہے، ہو سکتا ہے کہ ایک شخص علم اور تقوٰی کے لحاظ سے بلند مرتبہ ہو لیکن مرجع نہ ہو، چونکہ مرجعیت ایک منصب اور ایک اجرائی ذمّہ داری ہے نہ کہ مقام وجودی۔

    یہاں اس سوال کا جواب ملے گا کہ امام پیغمبر سے کیونکر افضل ہو سکتا ہے؟ اس فضیلت کو اجرائی مناصب کے لحاظ سے نہ دیکھا جائے۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سی چیز مقام امامت و نبوت کی ضمانت فراہم کرتی ہے؟ یعنی خدا کس بنیاد پر ایک شخص کو نبی اور دوسرے کو امام بناتا ہے؟ اس کے جواب میں علما نے مقام "ولایت” کی تعبیر استعمال کی ہے۔ مقام ولایت ایک وجودی مقام ہے اور کسی شخص کی وجودی صلاحیتوں جیسے علم و تقوا اورعصمت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ولایت کے درجات بھی مختلف ہیں، ادنٰی سے اعلٰی، اور ان وجودی مراتب اور ولائی مقامات کی بنیاد پر ان کی ذمہ داریوں کا تعین ہوتا ہے، کسی کو مثال کے طور پر عام نبی بنا کر بھیجا جاتا ہے، کسی کو اولوالعزم اور کسی کو امام بنا کر بھیجا جاتا ہے۔

    کیا ہر زمانے میں نبی کا امام سے افضل ہونا ضروری ہے؟

    نہیں، اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ موسیٰ (ع) کے زمانے میں ان کے اولوالعزم نبی ہونے کے باوجود ایک ایسا شخص جو نبی نہیں تھا مگر ان سے زیادہ علم رکھتا تھا۔ کیونکہ آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ نیک بندہ پیغمبر تھا، بعد میں لوگوں نے کہا کہ وہ نبی تھے، اب یہ بات حائز اہمیت نہیں ہے کہ وہ شخص حضرت خضر(ع) تھے یا نہیں، قرآن  نے اس طرح سے ذکر کیا: «فَوَجَدَا عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا». "وہاں ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی تھی اور اپنی طرف سے علم سکھایا تھا”

    جواب یہ ہے کہ فرض کے اعتبار سے موسی(ع) کا افضل ہونا ممکن ہے لیکن مقام ولایت کے لحاظ سے وہ موسی کی نسبت اعلٰی درجے پر تھے۔

    پس ایسا نہیں ہے کہ اگر امیر المومنین(ع) مقام نبوت پر فائز نہیں تھے تو ان کا مرتبہ انبیا سے کم ہے۔ پس اگر کوئی نبی بن جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے کمالات سب سے زیادہ ہیں، ایسا کوئی ملازمہ نہیں ہے، ہو سکتا ہے کہ کسی کے کمالات زیادہ ہوں لیکن اس کو مقام نبوت نہ دیا جائے۔ شاید آپ سوال کریں کہ کیوں نہیں دیا جاتا؟ جب اس کے پاس صلاحیت ہے تو اس کو یہ مقام کیوں نہیں دیا جاتا؟ اس کا جواب ایک مثال سے دیتا ہوں، جب ہمارے پاس ایک مسجد ہے تو ہمیں اس مسجد کے لیے کتنے امام صاحبان کی ضرورت ہے؟ فقط ایک، وہ بھی ایسا فرد جس میں مطلوبہ صلاحیت ہو، اس کے بعد اگر کوئی دوسرا شخص مل جائے جس میں وہی صلاحیتیں موجود ہیں تو کیا کرنا چاہیے؟ اب ایک مسجد میں دو امام جاعت تو نہیں ہوتے، فطری سی بات ہے کہ دوسرا پہلے کے پیچھے کھڑا ہو گا۔ نبوت بھی اسی طرح ہے، ہمارے پیغمبر (ص) پر آ کر ختم ہو گئی، اب اگر کوئی ایسی شخصیت آ جائے جو ابراہیم (ع) سے بھی افضل ہو تو کیا کرنا چاہیے؟ اب اس کو نبوت کا اجرائی منصب عطا نہیں ہو گا لیکن بطور بدیہی اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا مقام ابراہیم(ع) سے کم ہے ۔

    پس پہلا اصول یہ ہے کہ نبوت و امامت اجرائی مقامات ہیں، لہذا اگر ہم کسی مقام پر دیکھیں کہ کسی کے پاس نبوت نہیں ہے، یا حتی امامت بھی نہیں ہے تو لازمی نہیں ہے کہ اس کا مرتبہ و مقام بھی کم ہو، اس کی مثال حضرت زہرا(ع) ہیں جو نہ امام ہیں اور نہ پیغمبر لیکن خود ائمہ نے فرمایا ہے کہ آپ(ع) ہم سے افضل ہیں۔ روایت –بفرض صحت- یہ کہتی ہے: «نحن حجج الله علیکم و فاطمة حجة الله علینا» (ہم اللہ کی جانب سے تم پر حجت ہیں اور فاطمہ(ع) ہم پر اللہ کی حجت ہیں ) اور یقینا وہ تمام آئمہ سے افضل ہیں، کوئی عالم بھی اس میں شک و تردید نہیں کرتا، دلیل کیا ہے؟ اس کی واضح دلیل ان کا حضرت امیر المومنین(ع) کے ہم کفو اور ہمسر ہونا ہے اور امام علی(ع) تمام ائمہ سے افضل ہیں۔

    اس اصول کی حفاظت کیجئے تاکہ لفظوں کی ہیرپھیر سے بچا جا سکے، سنی اور شیعہ الفاظ میں الجھ گئے۔ اس لیے ہماری بعض بڑی شخصیات نے کہہ ڈالا کہ ہم آئمہ کو دوسروں سے افضل مانتے ہیں لیکن انہیں انبیا سے افضل نہیں کہا جا سکتا، یا کچھ نے انہیں انبیا سے افضل تو مان لیا لیکن جب حضرت ابراہیم(ع)  تک پہنچے تو کہنے لگے کہ ان سے افضل نہیں ہو سکتے۔

    یہ نبوت و امامت خواہ عام ہوں یا خاص؛ کے تمام معارف کو سمجھنے کی کلید ہے کیونکہ امامت کی بھی عام اور خاص میں تقسیم ہے۔

    * قرآنیات کے سلسلہ وار تخصّصی دروس سے ماخوذ

    • تاریخ : 2015/03/05
    • صارفین کی تعداد : 1804

  • خصوصی ویڈیوز