آیت اللہ سید کمال حیدری (مدظلہ) اپنی نوجوانی کے دوران عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ حوزوی دروس میں بھی دلچسپی رکھتے تھے اور بعض بزرگ علما کے درسِ فقہ و اصول میں شرکت کرتے تھے۔ اسی طرح آپ سماجی اور سیاسی حوالے سے بھی مختلف سرگرمیاں انجام دیتے تھے، جس کی وجہ سے بعثی حکومت نے آپ کا پیچھا شروع کر دیا اور آخرکار آپ کو ملک چھوڑ کر قم مقدّس میں پناہ لینا پڑی ۔ آپ کے تین بھائی صدام کی سفّاک حکومت کے ہاتھوں درجہ شہادت پر فائز ہوئے ۔ علامہ حیدری نے اپنی تعلیم کا آغاز کربلائے معلّٰی سے کیا اور پھر اس دور کے علما اور فقہا سے کسب علم کرنے کے لیے نجف اشرف روانہ ہو گئے۔ اس زمانے کے نامور اساتذہ میں سے شہید سیّد محمد باقر الصّدر ، سید ابو القاسم خوئی ، مرزا ولی غروی اور سید نصر اللہ مستنبط قابل ذکر ہیں۔ آپ کیلئے شہید صدر کی علمی روش اور سماجی شخصیت باقی اساتذہ کی نسبت زیادہ متاثر کن تھی ۔ حتّٰی آپ کربلائے معلّٰی میں شہید صدر کے شرعی وکیل کی حیثیت سے متعیّن ہو گئے ۔ شہید صدر سے متاثر ہونے کی جھلک آیت اللہ حیدری کے بہت سے علمی آثار میں نمایاں نظر آتی ہے ۔ آپ حوزہ علمیہ کے دروس عربی زبان میں پڑھاتے ہیں، اسی سبب آپ عرب دنیا کو شیعہ حوزات علمیہ کے عمیق معارف؛ بالخصوص امام خمینی (رہ) اور علامہ طباطبائی (رہ) جیسے عظیم علما کے افکار سے آشنا کرنے میں کامیاب رہے ۔ آپ کی ایک اور کاوش گزشتہ ایک دہائی سے بھی زائد عرصے کے دوران عربی زبان کے ریڈیو اور سیٹلائٹ ٹی وی چینلوں میں منعقد کیے جانے والے ان پروگراموں میں شرکت ہے جنہیں مکتب اہل بیت(ع) کی سچی تعلیمات کو اجاگر کرنے اور وہابی/سلفی مکاتب فکر کے گمراہ کن افکار کا جواب دینے کی غرض سے نشر کیا جاتا ہے اور آپ نے، انہی پروگراموں کے ذریعے برصغیر سے لے کر مراکش تک کے ناظرین کی بہت بڑی تعداد کو اہل بیت(ع) کی تعلیمات سے متعارف کیا۔
روزنامہ "قدس آنلائن عربی” نے آیت اللہ سید کمال حیدری کے ساتھ خصوصی گفتگو کی ہے جو قارئین کے پیش خدمت ہے :
سوال : شہید باقر صدر کی شہادت کو تین عشروں سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، آپ کی رائے میں حوزہ علمیہ، اسلامی نظام اور تشیع کی موجودہ صورتحال میں کون سی چیز شہید صدر کے افکار اور نظریات کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیتی ہے؟
جواب :
شہید صدر کی کچھ منفرد خصوصیات تھیں جنہیں اس عظیم شخصیت کے افکار و نظریات کی بنیاد سمجھنا چاہئیے۔
پہلی خصوصیت : شہید صدر اپنے زمانے میں رائج فکری اور فلسفی مبانی سے بخوبی آگاہ تھے ۔ شہید صدر کی یہ خصوصیت ایک پیغام کی حامل ہے اور وہ یہ کہ اگر ہمارے حوزاتِ علمیہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہتے ہیں تو ان کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور دنیا کی فکر کے ساتھ ترقی کریں ۔ چالیس سال پہلے کے سوالات آج کے سوالوں سے بہت متفاوت تھے ، بدقسمتی سے ، ہم میں سے بعض جمود کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ نئی نسل کے سوالات پرانی نسل کے سوالوں سے مختلف ہیں ۔ شہید صدر ، شہید مطہری اور علامہ طباطبائی جیسی عظیم شخصیات کی روش بھی یہی تھی یعنی یہ لوگ اپنے دور کے مسائل کو مدّ نظر رکھ کر اپنے علمی آثار مرتب کرتے تھے ۔ علامہ طباطبائی کے زمانے میں "اصول اور حقیقت پسندی کی روش” نامی کتاب عصری مسائل کو مدنظر رکھ کر تالیف کی گئی تھی ۔ علامہ نے اس کتاب میں مارکسزم کے بارے میں گفتگو کی ہے اور اس وقت کے زیر بحث سوالوں کے جواب دیئے ہیں ۔ شہید سید محمد باقر صدر کی بنیادی خصوصیت بھی یہی تھی یعنی آپ اسلامی معاشرے کو درپیش عصری مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے ۔ہمارے حوزات علمیہ کا بھی یہی فریضہ ہے، مثلا آج کا ہمارا اصل چیلنج، جیسا کہ رہبر معظم انقلاب نے بھی فرمایا ہے ، معاشی مسائل ہیں ۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے شہید صدر نے کچھ سال قبل اپنی کتاب "اقتصادنا” میں اسلامی اقتصادی نظام کا تعارف پیش کیا ہے! جب آپ شہید صدر ، شہید مطہری یا علامہ طباطبائی کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ آج بھی ان کتابوں کی ضرورت ہے کیونکہ انہوں نے ایسے مسائل پر قلم اٹھایا کہ جن کی ضرورت کا احساس آج بھی کیا جا رہا ہے ، انہوں نے اپنی کتابوں میں درپیش مسائل کو چھیڑا ہے ۔
«وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ…»(اور جو چیز لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے وہ زمین پر باقی رہتی ہے …)(رعد/17)
کیوں ہمارے حوزات علمیہ نئی نسل کے لیے جاذبیت نہیں رکھتے؟ کیوں جوان نسل دوسرے مقامات کا رخ کر رہی ہے؟ کیونکہ ہم جوان نسل کو اپنی طرف مائل کرنے میں ناکام رہے ہیں، شہید صدر جیسی شخصیات کا ہمّ و غم اس دور کے اسلامی معاشرے کو درپیش مسائل کا راہ حل نکالنا تھا اور کتاب”فلسفتنا” کا ہدف اس زمانے کی ثقافتی مشکلات کا حل پیش کرنا تھا ۔
شہید صدر کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ کلّی نگر تھے۔ آپ اسلامی مسائل کو تفصیلات یا جزئیات میں خلاصہ و منحصر نہیں کرتے تھے۔ راستے کا خاکہ پیش کرتے اور کلی دائرہ کار کی تصویر کشی کرتے تھے ، مثلا اگر کوئی شخص مشہد میں داخل ہو؛ اب تو خراسان رضوی بھی خاصا پھیل چکا ہے،اور کہے کہ میرے پاس مشہد میں رکنے کیلئے دو گھنٹے کا وقت ہے جس کے دوران میں مشہد سے آشنائی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اب مشہد کو متعارف کرانے کے لیے ہمارے پاس دو راستے ہیں ایک یہ کہ ہم اس کو شہر کے پہلے چوک پر لے آئیں اور اس کے بعد کہیں کہ اس چوک میں ۲۰ سڑکیں ہیں، پھر اس کو فلاں ۳۰ میٹری سڑک پر لے جائیں، پھر کسی ۱۰ میٹری سڑک پر لے آئیں، ان دونوں سڑکوں میں دو یا تین بند گلیاں بھی ہیں؛ اتنے میں دو گھنٹے پورے ہو جائیں گے ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسے ہوا میں بلند کریں اور حرم امام رضا(ع) کو شہر کا مرکز قرار دیں، اور اوپر سے اسے مختلف راستوں اور اہم مقامات کے بارے میں بریفنگ دیں۔ اب مشہد شناسی کا کون سا طریقہ بہتر ہے؟ اور کس شخص کو مشہد شناس کہا جائے گا ؟ یقینا دوسری روش زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس سے مشہد کا پورا خاکہ اس شخص کے ذہن نشین ہو جائے گا ۔ شہید صدر بھی ثقافتی اور اعتقادی مسائل میں کلیات کی نشاندہی کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہمیں اس راہ پر گامزن ہونا ہے، ہمارے حوزات علمیہ کا مسئلہ بھی یہی جزئی نگری ہے۔ بہت سے افراد درس و تدریس اور علمی کام کر چکے ہیں لیکن حوزہ علمیہ میں عرصہ دراز تک قیام کرنے کے باوجود ایک کتاب بھی یادگار نہ چھوڑ پائے، بنیادی مسئلہ کیا تھا؟ مسئلہ یہ تھا کہ یہ افراد "کل نگر” نہیں تھے۔ رہبر کے مشہد مقدس میں حالیہ خطاب پر توجہ کریں، انہوں نے فرمایا :میں آپ کو "راستے کا کلی خاکہ” بتاتا ہوں، اس رو سے "کلی نگری” شہید صدر کی ایک بنیادی خصوصیت تھی۔
اس وقت ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بعض حوزات علمیہ ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ امام زمانہ (عج) کی غیبت کبرٰی کے زمانے میں اسلامی نظام کے قیام کی ذمہ داری ان پر عائد نہیں ہوتی اور اسلامی حکومت کا قیام صرف معصوم (ع) کا فریضہ ہے اور امام (ع) پردہ غیبت میں ہیں لہذا ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔ اس طرز تفکر کا نتیجہ آخر کار یہ نکلا کہ ان لوگوں نے اسلام کے کلی مسائل کی طرف توجہ نہیں دی جیسا کہ اسلامی معاشرے کے لیے معاشی نظام کیسا ہونا چاہیے؟ بین الاقوامی تعلقات کیسے ترتیب دئیے جائیں؟ اسلامی نظام؛خواہ اس کا سیاسی پہلو یا اجتماعی پہلو،کو کن ابعاد اور بنیادوں پر استوار کیا جائے؟ کیونکہ اسلامی معاشرے کو چلانے کے لیے ہمیں اقتصادی ، بین الاقوامی ، تربیتی اور سماجی نظاموں کی ضرورت ہے۔ بنیادی طور پر ہمارے حوزات علمیہ نے صرف انفرادی احکام پیش کیے ہیں جو بین الاقوامی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی مسائل پر مشتمل نہیں تھے! یہ تو شہید صدر، شہید مطہری اور رہبر معظّم انقلاب جیسی شخصیات تھیں جو یہ آرزو رکھتے تھے اور رکھتے ہیں کہ معاشرہ سازی کی جائے کیونکہ اگر معاشرہ درست نہیں ہو گا تو فرد بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا، مثلا اگر کسی یونیورسٹی میں صورتحال ایسی ہو کہ اگر کوئی اس ماحول میں بے عیب بھی رہنا چاہے تو نہ رہ سکے، کیونکہ فضا سازگار نہیں ہے اور اس حوالے سے حوزہ علمیہ ذمہ دار ہے؛ دیکھیں! اہل بیت (ع) نے لوگوں کی اس طرح رہنمائی فرمائی ہے کہ ان کی نگاہیں علما پر مرکوز ہیں اور وہ ان سے بڑی توقّعات وابستہ کیے ہوئے ہیں ۔
سوال : اس وقت ایران اور خطے میں اسلامی دنیا اور عالم تشیّع کو متعدد مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے، شہید صدر کے مدّنظر وہ کون سے بنیادی تصوّرات اور نمونے ہیں جن کے ذریعے معاشرے کی تعمیر اور پسندیدہ اسلامی نظام کی تاسیس کی جا سکتی ہے ؟
جواب : شہید صدر کی نظر میں اسلامی نظام کا نمونہ یہی ایران کا اسلامی نظام ہے، ضروری ہے کہ ایک رہبر اور ولی امر ہو، اور گارڈین کونسل جیسا ایک گروہ ہونا چاہیے جو رہبر کو مشورہ دے ۔ اسی طرح شہید صدر اس بات کے بھی قائل تھے کہ حوزات علمیہ کے مراجع عظام اس نظام کی دیکھ بھال ، حفاظت اور نظارت کے ذمہ دار ہیں مثلا جو شخص فٹبال گراؤنڈ میں ورزش اور کھیل میں مصروف ہے اس کی توجّہ صرف میچ کے اندر ہے لیکن جو شخص باہر بیٹھ کر دیکھ رہا ہوتا ہے وہ پورے گراؤنڈ کو دیکھ سکتا ہے اور بہتر انداز سے دیکھ بھال، حفاظت اور نظارت کا کام انجام دے سکتا ہے! اگر باہر سے بڑی شخصیات مشورہ دیں کہ مثال کے طور پر آبادی میں اضافے کیلئے کوئی اقدام کیا جائے تو یہ طبعا بہتر اور زیادہ موثر ہے ۔ اگرچہ ایران کی گارڈئین کونسل یہی کام انجام دے رہی ہے لیکن سسٹم کے باہر بھی ایسی شخصیات کا ہونا ضروری ہے جو نظام کو باہر سے دیکھیں البتہ ان افرادکو نظام کا ہمدرد بھی ہونا چاہئیے اور اس کام کے لیے ایک پروگرام وضع کیا جائے ۔
بنیادی طور پر شہید صدر نے بذات خود اسلامی نظام کی تجویز پیش کی تھی، فرماتے تھے: ضروری ہے کہ دس افراد سیاسی امور، دس اقتصادی، دس سماجی اور دس عسکری معاملات کو سیکھیں اور ان میں مہارت رکھتے ہوں، یہ تمام رہبر کو مشورہ دیں کیونکہ کوئی بھی تمام امور میں ماہر نہیں ہو سکتا پس ضروری ہے کہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد آگے آئیں اور رہبر کے ساتھ مشاورت کر کے کاموں کے مطلوبہ نتائج حاصل کریں ۔
سوال : اس وقت خطّے اور اسلامی و عرب دنیا کو ہنگامہ خیز صورتحال کا سامنا ہے، شہید صدر کے فکری خطوط میں امّت مسلمہ کے لیے موجودہ صورتحال سے نجات پانے کے حوالے سے کس قسم کی نوید اور ہدایات ہیں؟
جواب : اسلامی دنیا، عالم تشیّع اور عالم بشریت کو درپیش اصل چیلنج یہی تفرقہ، نااتفاقی اور اختلاف ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ میں اپنے علاوہ کسی دوسرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں، مثلا جس شخص نے فلسفہ پڑھا ہے وہ اس شخص کا مخالف ہے جس نے فلسفہ نہیں پڑھا، اسی طرح بعض کے نزدیک جو فلاں فلاں شخص پر لعنت نہ کرے وہ شیعہ نہیں ہے، اس کو اہل تبرّٰی نہیں سمجھتے۔ درحقیقت ہم خود اپنے ہاتھوں سے شیعہ معاشرے کو تقسیم کر رہے ہیں! ہمارے اور اہل سنّت کے درمیان بھی یہی چیز ہے، مجھ سمیت متعدّد اہم شخصیات نے کہا کہ دوسرے مذہب پر لعن طعن کرنا حرام ہے کیونکہ ہر مذہب اور شریعت کے اپنے بزرگ ہوتے ہیں، قرآن بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا : «وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَيَسُبُّوا اللَّـهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ» (انعام۱۰۸)
“اور خبردار تم لوگ انہیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے ہم نے اسی طرح ہر قوم کے لئے اس کے عمل کو آراستہ کردیا ہے اس کے بعد سب کی بازگشت پروردگار ہی کی بارگاہ میں ہے اور وہی سب کو ان کے اعمال کے بارے میں باخبر کرے گا”۔
خاص طور پر آج کی دنیا میں تو یہ ہے کہ آپ کی بات مکمّل ہونے سے پہلے ہی اس کی آڈیو اور ویڈیو نشر کر دی جاتی ہے۔ معروف اصطلاح کی رو سے آج ہم ایک بستی (HUT) میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شہید صدر اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ اہل سنّت کے بڑوں کی توہین ہو حتّی نام لیتے ہوئے بھی، مثال کے طور پر کہتے تھے کہ ابو بکر کا نام لیتے ہوئے احترام کا خیال رکھا جائے۔ حقیقت کا انکشاف ایک چیز ہے لیکن بے احترامی ایک مختلف بات ہے۔ آپ نہ صرف باقی اہل تشیّع اور مسلمین بلکہ غیر مسلموں کی بے احترامی بھی نہیں کرتے تھےٍ۔
امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں :دوسرے انسان یا تو تمہارے دینی بھائی ہیں یا تم جیسے انسان ہیں۔ شہید صدر کا نقطہ نظر بھی یہی تھا، حوزہ سے تعلق رکھنے والے بعض ناخواندہ افراد نے اس بارے میں کتابیں لکھیں کہ شہید صدر نے لعنت کیوں نہیں کی؟ یہ لوگ شہید صدر کو التقاطی (دو مذہبوں کو جمع کرنے والا) سمجھتے تھے! مجھے بھی یہی کہتے ہیں کہ آپ لعنت کیوں نہیں کرتے؟ میں کہتا ہوں کہ ہمیں تشیّع کا پیغام پہنچانا چاہئیے اور کلام اہل بیت (ع) کے محاسن کو بیان کرنا چاہیے۔ اب آیا امام صادق(ع) کے فرامین اور ہدایات کے مطابق "لعنت” کلام کے محاسن میں سے ہے اور اس کے زمرے میں شمار ہوتی ہے؟!
لوگ ہم شیعوں کو (سابّ الصحابۃ) نبی(ص) کے صحابہ کو گالیاں دینے والے کے عنوان سے پہچانتے ہیں! آئمہ اہل بیت(ع) کی دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ رہن سہن کے حوالے سے تعلیمات کہاں اور ہم کہاں ہیں؟ شہید صدر ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے والے تھے اور یہ چیز ان کی سیرت اور کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ عالم اسلام کی حالیہ مشکلات اور اختلافات سے چھٹکارے کا راستہ یہی احترام اور ایک دوسرے کے مقدسات اور عقائد کی توہین سے پرہیز کرنا ہے ۔