خداوند متعال نے مرد کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے اور ان کے درمیان عدل و انصاف کو شرط قرار دیا ہے ؛ لیکن غالبا اس امر میں عدل و انصاف کی رعایت نہیں کی جاتی ۔ بیویوں کے درمیان مساوات کا خیال رکھنا خواہ نفقہ کے لحاظ سے ہو یا حسنِ معاشرت کے لحاظ سے ایک مشکل کام ہے اور ان کے درمیان میلانِ طبع اور رغبت کی رعایت کرنا تو اور بھی مشکل ہے ۔ لہذا قرآن کریم عدل کی رعایت نہ کرنے کی صورت میں دوسری شادی سے منع کرتا ہے «فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُوا فَواحِدَة» اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ (ان کے ساتھ) عدل نہ کر سکوگے تو پھر ایک ہی (بیوی) کرو ( نساء/3) ممکن ہے کہ مرد کی دوسری شادی کی وجہ سے پہلی بیوی ایک قسم کے نفسایاتی تشدد کا شکار ہو جائے جو ان کی مشترکہ زندگی ، اولاد اور ان کی تربیت پر اثر انداز ہوتا ہے ؛ اس بنا پر اگر پہلی بیوی کے ساتھ رابطے کی اصلاح ممکن ہو اور شہوانی خواہشات کے علاوہ دوسری کوئی وجہ موجود نہ ہو تو دوسری شادی سے پرہیز کرنا چاہیے ، بالخصوص اگر یہ چیز خاندان کے بکھرنے اور باہمی اختلافات کا باعث بنتی ہو۔ البتہ اس حوالے سے استثنائی مورد بھی موجود ہے جس میں مرد کو دوسری شادی کی اجازت ہے جیسے سفر کے دوران شوہر کو بیوی کی ضرورت پیش آنا یا بعض ممالک میں خواتین کا کثیر تعداد میں ہونا ، بشرطیکہ کہ یہ چیز خاندان میں مشکل کا باعث نہ بنے ۔