قرآن و روایات اور تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک نکاحِ متعہ کا جواز ثابت ہے ، البتہ علما کے درمیان اس کے منسوخ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض اس کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ بعض اس کے عدمِ نسخ کے بارے میں قائل ہیں ۔ حق یہ ہے کہ اس کا منسوخ ہونا ثابت نہیں ہے ، ان صحیح اور مفصل ادّلہ کی بنیاد پر جنہیں خاص مقام پر ذکر کیا گیا ہے لیکن قرآنی دلیل کچھ اس طرح ہے : «فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا»جو بھی ان عورتوں سے تمتع کرے ان کی اجرت انہیں بطور فریضہ دے دے اور فریضہ کے بعد آپس میں رضا مندی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے بیشک اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی ہے (نساء۲۴)۔ مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیت متعہ کے شرعی جواز کے اثبات میں نازل ہوئی ہے ۔ اسی طرح اس حوالے سے فریقین کی بہت ساری روایات موجود ہیں ، مثلا یہ روایت کہ جسے احمد بن حنبل نے اپنی مسند اور مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے : في حديث ابن الزبير قال: سمعت جابر بن عبد اللّه يقول: كنا نستمتع بالقبضة من التمر و الدقيق الأيام على عهد رسول اللّه(ص) وأبي بكر حتى نهى عنه عمر. ونقل الرازي في تفسيره الكبير قول عمر: متعتان كانتا على عهد رسول اللّه(ص) و أنا أنهى عنهما و أعاقب عليهما، متعة الحج و متعة النساء. ابن زبیر کہتا ہے : میں نے جابر بن عبد اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : رسول خدا(ص) اور ابوبکر کے زمانے میں ہم کچھ مقدار آٹا اور کھجور بعنوان مہر دے کر متعہ کرتے تھے یہاں تک کہ عمر نے اس سے منع کر دیا ۔ رازی اپنی تفسیر میں عمر کا ایک قول نقل کرتے ہیں : رسول (ص) کے زمانے میں دو چیزیں حلال تھیں میں ان دونوں کو ممنوع قرار دیتا ہوں اور ان کو انجام دینے والے کو سزا دوں گا، ایک متعۃ الحج اور دوسرا متعۃ النساء(نکاح متعہ) ہے ۔