استفتائات

ایک مکلّف کی حیثیت سے میرا یہ حق ہے کہ میں جس مرجع کی تقلید کرنا چاہتا ہوں، مجھے اس کی خصوصیات کا بھی پتہ ہو،میں نے دیکھا ہے کہ جناب عالی میرے سوالات اور شبہات کاجواب دینے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہیں۔ لہذا کیا آپ کے نزدیک مرجع تقلید کے لیے اعلم ہونا شرط ہے اور اس سے کیا مراد ہے؟

مکلف پر واجب ہے کہ اعلم (زیادہ عالم)، زیادہ با صلاحیت اور زیادہ باکفایت کی تقلید کرے ان مفاہیم کو صحیح معنوں میں سمجھنے سے یہ امر آشکار ہو جاتا ہے کہ جس مرجع کی ہم تقلید کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے ان صفات کا حامل ہونا ضروری  ہے ۔ اعلم سے ہماری مراد ایسا شخص ہے جو حلال و حرام سے مربوط مسائل سمیت تمام دینی تعلیمات کے استنباط میں دوسروں سے زیادہ باصلاحیت ہو ۔ کیونکہ سورہ توبہ کی اس آیت «وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ» " اور یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تمام اہلِ ایمان نکل کھڑے ہوں تو ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ کہ ہر جماعت میں سے کچھ لوگ نکل آئیں تاکہ وہ دین میں تفقہ (دین کی سمجھ بوجھ) حاصل کریں اور جب (تعلیم و تربیت کے بعد) اپنی قوم کے پاس لوٹ کر آئیں۔ تو اسے (جہالت بے ایمانی اور بد عملی کے نتائج سے) ڈرائیں تاکہ وہ ڈریں"(سورہ توبہ ۱۲۲) سے استنباط ہوتا ہے کہ فقیہ کے اندر تمام دینی تعلیمات کے استنباط کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے خواہ وہ اعتقادی اور اصول سے متعلق ہوں یا عملی اور فروع سے مربوط ہوں ۔ صرف عملی احکام کہ جو حوزات علمیہ میں "فقہ" کے عنوان سے معروف ہیں؛ کے استنباط کی صلاحیت کافی نہیں ہے ۔ پس اگر یہ شرط پائی جائے تو ایسا شخص مجتہد مطلق ہے اور اس کی تقلید جائز ہے۔ زیادہ باصلاحیت سے ہماری مراد وہ مجتہد ہے جس کے اندر ہر طرح کی صورتحال میں اپنے مقلدین کے امور کو چلانے، ان کے سوالات اور شبہات کا جواب دینے اور ان کے امور زندگی سے باخبر رہنے کی صلاحیت موجود ہو ۔ اور یہ امام معصوم(ع) کے اس فرمان کا واضح ترین مصداق ہے جس میں امام نے فرمایا :«علماء أمتي مرابطون في الثغر الذي يلي إبليس وعفاريته يمنعونهم من الدخول إلى ضعفاء شيعتنا» ( میری امت کے علما شیطان اور اس کے کارندوں کی جانب سے پیدا ہونے خلا کو پر کرتے ہیں اور ان کو  ہمارے کمزور شیعوں کے اندر نفوذ پیدا کرنے سے روک کر رکھتے ہیں ) اس طرح کا خلا تب تک پر نہیں ہوتا جب تک ایک مرجع تقلید اپنی علمی توانائی کے ساتھ ہمیشہ میدان میں حاضر نہ رہے تا کہ وہ اس کے ذریعہ مذہب ، عقیدے اور دین کی سرحدوں کی حفاظت کر سکے اور یہ چیز تب ہی امکان پزیر ہوگی جب ایک مرجع تقلید تمام دینی تعلیمات تک مکمل اور جامع دسترس رکھتا ہو گا ۔ اور باکفایت تر سے ہماری مراد ایسا مجتہد ہے جس کے اندر ایسی شجاعت اور جرات پائی جاتی ہو کہ ضروری موقعوں پر بغیر کسی شک و تردید کے واضح اور پائیدار موقف اختیار کرسکے ۔ ان شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر مکلّف کو اطمئنان ہو جائے کہ فلاں مرجع تقلید کے اندر یہ خصوصیات پائی جاتی ہیں تو اس پر واجب ہو جاتا ہے کہ اس کی تقلید کرے یا دوسرے مجتہد کو چھوڑ کر اس کی جانب رجوع کرے ۔




  • مربوطہ استفتائات